اس وقت پوری دنیا ایک وبائ مرض سے دو چار ہے، ہر طرف خوف و ہراس کا ماحول ہے چہار سو ایک وحشت پھیل گئی ہے ڈر اور خوف نے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنالیا ہے، اعضاء ؤ جوارح معطل ہوکر رہ گئے ہیں بازایں ویران ہو چکی ہیں، کھیل کے میدان میں وحشت چھای ہے، سینما ہال اور دیگر فحاشی کے اڈوں میں الو بول رہے ہیں، فیکٹریاں، کمپنیاں گیریج سب خالی ہو چکے ہیں ہوٹلوں میں مچھروں کی حکومت ہو گئ ہے ارد گرد جانور ٹہل رہے ہیں، ہوائ اڈوں میں سناٹا چھایا ہوا ہے، شراب کی محفلیں سرد پڑ چکی ہیں، زناکاری کے اڈوں میں خاموشی ہے، جوۓ خانوں میں سکون قائم ہو چکا، شہروں بازوں میں چہل پہل ختم ہونے کو ہے، ملکی اسفار بند ہو چکے ہیں، کوئی ملک دوسرے ملک کی مدد کیلئے تیار نہیں، نقاب پر پابندی لگانے والا ملک نقاب کو سختی سے عام کررہا ہے، سائنسی دنیا میں خود کو خدا سمجھنے والوں کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں، دنیا کی ترقی تنزلی میں تبدیل ہو چکی ہے، اسلام مخالف طاقتیں اسلام کو پھیلانے میں سرگرداں ہیں، بڑے بڑے لیڈروں کی نیندیں اڑ چکی ہیں، اس وبا کے اگے سوپر پاور طاقتوں نے بھی گھنٹے ٹیک دیئے ، میرا جسم میری مرضی کا نعرہ بھرنے والے بلوں میں چلے گئے ہیں، لوگ اپنے اپنے گھروں علاقوں کو چھوڑ کر کسی بل میں پناہ لینے کیلئے کوشاں ہیں، ساحل سمندر ننگی مخلوق سے بالکل خالی ہو چلا ہے، حیرت تو یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے کترا رہے ہیں کسی کے قریب بھٹکنا بھی پسند نہیں کرتے مصافحہ تقریباً بھول ہی چکے ہیں دور ہی سے سلام دعا ہو جاتی ہے، تعلیم گاہیں بند پڑی ہیں ممکن ہے مساجد میں جانا بھی بند ہو جائے جب حرمین شریفین خالی ہو سکتا ہے تو باقی کا پوچھنا کیا، الغرض پوری دنیا اس مرض سے دوچار ہے اور دنیا کا پورا نظام درہم برہم ہو چکا ہے،
اے عقل رکھنے والے انسان تمہاری عقل کہاں چلی گئی؟ عقل سے دنیا کی سیر کرنے والے آج عقلیں کیوں ماؤف ہیں؟ پوری دنیا کو مسخر کرنا والا دماغ آج بے بس ہے، تم ایک بیماری سے اس قدر خوف زدہ ہو گئے افسوس تم نے اس کے خالق کو نہیں پہچانا وہ خالق جو ہر وقت تم پر نظر رکھنے والا ہے، جس رب نے اس وبا کو بھیجا بجائے اس کے کہ اس وبا سے خوف کھانے کے وبا بھیجنے والے سے ڈرتے تو سارا مسئلہ حل ہو گیا ہوتا، لیکن تم اس سے پنجہ آزمائی میں لگ گئے اور یہ دعویٰ کیا کہ ہم اس وبا سے نمٹ لیں گے،
اۓ انسان! تمہاری عقل نے یہ کیسے گوارا کرلیا کہ تم نے قدرت سے زور آزمائی کرلی، شاید تمہیں معلوم نہیں کہ اس مالک و جبار سے ٹکر لینے والوں کا کیا حشر ہوا،
اور پھر تم نے یہ کیوں نہیں سوچا کہ یہ وبا تمہاری بداعمالیوں کا نتیجہ ہے، صحیح راستہ سے بغاوت کرنے کا نتیجہ ہے، اس کے دین کو جھٹلانے کا نتیجہ ہے، دنیا میں شر و فساد، ظلم و بربریت حق تلفی، ناانصافی اور بے جارسم و رواج کو فروغ دینے کا نتیجہ ہے کیونکہ یہ اس کا دستور ہے کہ جب جب دنیا میں برائیاں عام ہونے لگے، شر و فساد فروغ پانے لگے ظلم و بربریت اپنے عروج پر پہنچ جائے زنا عام ہو جائے تو انسانوں کی تنبیہ کیلئے اس کو سرزنش کرتا ہے انسانوں کو ان کی بداعمالیوں کا مزہ چکھاتا ہے تاکہ ہوش میں آ جائے اور متنبہ ہو جائے، جیسا کہ قرآن نے بیان کیا ہے! ۔۔ کہ خشکی اور تری میں فساد رونما ہوا ان کی اپنی کرتوتوں سے پھر وہ سزا بھگتے اپنی کئے کا ممکن ہے کچھ ہوش آجاے،
یہ وبا ہماری ہٹ دھرمیوں کو توڑنے کیلئے ہے، طاقت و قوت پر ہمارا کبر و نخوت کو زیر کرنے کیلئے ہے ، ہمیں بیدار کرنے کیلئے ہے اصلی رب کو پہچاننے کیلئے ہے، اس کی اطاعت کرنے کیلئے ہے تاکہ ہمیں ہوش آجاۓ ہمارے پاس لاکھ ہتھیار سہی لیکن قدرت کے سامنے سارے ہتھیار تنکے کے برابر بھی نہیں،
اب بھی ہوش میں آنے کا وقت ہے اگر ہم اپنے خالق سے ڈرتے جیسا کہ ڈرنے کا حق ہے تو اس مشکل میں ہم نہ پھنستے ، ہمیں مادی وسائل سے خوف ہے عارضی چیزوں سے خوف ہے کورونا سے خوف ہے لیکن اس کے بنانے والے سے ہم منہ موڑے ہوئے ہیں،
آخر کیوں کورونا کا خوف ہے اس کے خالق سے کیوں نہیں؟