آپ چونکیے مت!۔۔وائرس کے مثبت پہلو بھی ہوسکتے ہیں ؟؟۔۔مہلک کے مثبت اثرات !!۔۔ضرر رساں کے منفعت بخش ساماں ؟؟۔۔صاحب جب کسی مطلق العنان سے عوام ناخوش مگر خواص تو خوش ہوتے ہیں !۔۔اور خصوصاً وہ وائرس جو عوام کو الو بناتا ہے خواص سے اپنا الو سیدھا کرتا ہے ۔۔بہرحال یہ علحیدہ بحث ہے ۔
تو بات چل رہی تھی کرونا کی ۔۔اب دیکھیے اس نے کتنے نو لکھیے شاعر وادیب پیدا کر دیے۔۔ایک سلسلہ چل پڑا ہے ۔۔کرونا !۔۔یہ کرونا !!۔۔وہ کرونا !!!۔۔بھلے ہی وہ کچھ نہ کریں ۔ٹی وی چینلوں کو ایک نیا موضوع ہاتھ آگیا ۔۔جو انگلی تھمائی پہنچا پکڑ لیا ۔۔قومی و بین الاقوامی تجزیے ۔۔رائی کو پربت بنانا تو کوئی ان سے سیکھے۔۔خوف و ڈر کا ماحول پہلے کیا کم تھا صاحب !!
تاجر طبقے کی تو بن آئی ،ماسک کی کالا بازاری وہ بھی جعلی ماسک کی ۔۔۔لازمی اشیاء کی بھی تجار کی تو پانچوں انگلیاں تو گھی میں رہتی ہی تھیں اب تو سر بھی کڑھائی میں ۔۔۔مستند علماء اور نیم ملا بھی میدان میں نکل آئے ۔بحثیں چھڑگئیں حرمین شریفین کے لیے ۔۔۔تاریخ کے اوراق کھنگالے گئے ۔۔۔ہمیں اپنی تاریخ سے کماحقہٗ واقفیت تو ہوئی ۔۔جمعہ کو پیٹھ دکھانے والے نماز باجماعت کے طرفدار نکل آئے ۔۔ایک نمایاں تبدیلی جس کے لیے کرونا وائرس کی جتنی پیٹھ ( اگر پیٹھ ہو تو )ٹھوکی جائے کم ہے ۔سائنسی تحقیق ۔۔تحقیق مزید کا رخ اختیار کر گئی ۔۔ڈاکٹرز بھی کلینک سے نکل سوشل میڈیا پر آگئے ۔۔تریاق اور احتیاطی تدابیر کا وہ سلسلہ کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دے ۔۔کس کس کی سنیں کہ ہر کس وناکس بولنے تو تیار ۔۔گم گو کی بھی زبان درازی کرونا کی بدولت ۔۔۔۔وہ بھی کہنے لگے کہ ۔۔ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں ۔۔کچھ جیالوں نے اس کے ڈانڈے پچھلی صدی سے ملا دیے ۔۔وہ ناول جس پر دھول جمی تھی اور وہ فلمیں جن کی ریلیں ڈبوں میں بند تھیں ان کے تذکروں نے جی چرایا کہ کم از کم وہ ناول پڑھے اور فلمیں دیکھی جانے لگیں ۔
وااہ ۔۔صاحب ،ہماری بھارتی جنتا کی سمپتی سے تمام مراعات ختم کردی گئیں ۔۔۔سینئر سٹیزن سے لیکر پلیٹ فارم ٹکٹ تک ۔۔کہ خسارے کو پورا کیا جا سکے ۔۔وائرس کی بدولت بلا چوں وچرا سبھی نے سر تسلیم خم کیا ۔۔عالمی منڈی میں بھلے ہی تیل کے دام کم ہوئے ہوں ۔۔۔کرونا کو ٹھینگا بتایا گیا کہ تمہاری کتنی ہی بالا دستی ہو ۔۔ہماری ستمگری کم نہ ہوگی !!!
شاباش ! کرونا کہ تیرے سبب ،پیزا ،برگر ،چائنیز فوڈ سے پیچھا چھوٹا ۔۔۔۔۔شادی بیاہ کی تقریبات میں فضولیات سے کنارہ کش
ہونا پڑا۔ تیرے ہی دم سے
آگلیوں ،چوراہوں پرتاکتے جھانکتے اوباش گھروں میں دبکے پڑےہیں ۔سڑکوں پر باپ کی کمائی اورپاپ کی کمائی کودھویں میں اڑانے والے اااوراونچااڑنےوالےقیدہوگئے۔پر لطف بات یہ کہ ہاتھ پرہاتھ دھرے گھروں میں بیٹھنے والوں کواب کوئی وضاحت پیش کرنے کی ضرورت نہیں ،جواز اہلِ خانہ ورفیق مخلصانہ خوب جانتے ہیں
آوارہ سڑکوں پر گھوم۔نے و الے ۔گھروں میں قید ہوگئے ۔۔صرف آوارہ کتے کھلے ہوئے ہیں ۔۔تالیوں اور تھالیوں سے اسے بھگانے کا التزام ہمیں ایک مالا میں پرونے کا کام کرونا ہی کی دین ہے ۔۔۔زمینی سطح پر کچھ اقدامات بھلے ہی نہ کیے جائیں مگر زبانی (زبانی جمع خرچ نہیں ) کرنے میں کیا حرج ہے ۔گھر کے افراد کے اوقات مختلف ہوتے تھے لہٰذا دسترخوان کا وجود ہی خطرے میں پڑگیا تھا ۔۔شکر ہے کرونا نے سب کو ایک دسترخوان پر جمع کیا ۔۔مجھے تو کم سے کم گھر میں قید کرکے سوشل میڈیا پر گفتگو کرنے کی آزادی ملی ۔۔۔اور رشتوں کو نبھانے کی بھی !!!
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...