آج کل مردوں کو بھی مستقل گھروں میں رہنا پڑ رہا ہے۔ عورتوں کے بھی بحیثیت بیوی اور بحیثیت ماں انجام کردہ یا نا انجام کردہ فرائض میں بہت اضافہ ہوا ہے۔
عورت کھانا پکاتی ہے گھر کی صفائی کرتی ہے بچوں کو نہلاتی دھلواتی ہے۔ کپڑے دھوتی یے۔ برتن دھوتی ہے۔گھر میں بچوں کے دیگر کاموں کے علاوہ ان کی پڑھائی کا خیال رکھتی ہے۔ بستر سے لے کر بچے کے بستے تک ہر شے پر اس کی نظر ہوتی ہے۔
مرد باہر سے واپس آتے ہیں تو انہیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ عورت نے کتنا کام کیا ہے۔
آج کل سب گھروں میں بند ہیں تو شوہروں کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ بیویاں اور مائیں کتنا کام کرتی ییں۔
آج کل سب کو نوکر اور ماسی کے حصے کا کام بھی خود کرنا پڑ رہا ہے ۔ بچے اور شوہر مستقل گھر پر ہونے سے بار بار گھر گندہ ہو جاتا ہے۔ زیادہ کھانا پکتا ہے زیادہ برتن بھرتے ییں۔ ایک تو کام زیادہ پھر کرونا وائرس کی دہشت۔ پھر سب کا روزگار متاثر ہوا ہے تو پیسے کی پریشانی۔
ان سب عوامل کے دباو کے زیر اثر چوبیس گھنٹے میاں بیوی ساتھ ہونے کی وجہ سے ان میں جھگڑے زیادہ ہو سکتے ہیں۔ بلکہ ہو رہے ہوں گے۔
عورتوں کو یہ بات ذہن میں رکھنا چاہیئے۔ کہ مرد عام دنوں میں ہمیشہ ہی کما کر لاتا ہے۔ اگر بزنس میں ہے تو بے شمار مسائل میں گھرا ہوتا ہے اگر دفتر میں ہے تو باس کی جھڑکیاں سنتا ہے۔ محنت مزدوری کرنے والے اپنا خون پسینہ بہا کر پیسہ گھر لاتے ہیں۔ اب اگر کرونا وائرس سے خود کو اور کنبے کو بچانے کے لیے وہ چند دن کے لیے نہیں جا رہا ہے تو اس میں مرد کی خود عورت کی اور بچوں کی بھلائی ہے۔ کرونا وائرس ہلاکت کا سبب بن سکتا ہے۔ کوئی ضروری نہیں کہ مرد کام پر جائے تو اسے ہی وائرس لگے تھا ۔ وہ کیرئیر ہو سکتا ہے۔ اس کے ذریعے وائرس گھر میں آ سکتا ہے۔ اس طرح نہ صرف شوہر کے لیے خطرہ ہے بلکہ پورے کنبے کی جان خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
کمانے کی فکر بلوں کی ادائیگی اور گھر چلانے کی ذمہ داری مردوں کے سر پر ہے جس سے ان کا ذہنی دباو بڑھ جاتا ہے۔ لیکن گھر سے باہر دوستوں سے ہنسی مذاق اور دیگر سرگرمیوں میں وہ اپنے ذہنی دباو پر قابو پا لیتے ہیں۔ لیکن وائرس کے خطرے کے پیش نظر وہ اپنے ذہنی دباو سمیت گھر میں بند ہیں۔ عورتوں سے درخواست ہے کہ اپنے شوہروں کا خیال رکھیے۔ ان سے ہلکی پھلکی گفتگو کرکے اور ہنسی مذاق کرکے ان کو اس دباو سے نکالیے۔اگر مرد کے مزاج کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہو تو مرد اگر چیخے یا غصہ کرے تو اس کے لیے کچھ نہ کریں بس خاموش ہو جائیں۔ کیونکہ وہ گھر میں قید ہے اسے تو لڑنا ہی ہے آپ اپنی انرجی لڑنے میں ضائع نہ کریں۔ بلکہ ایسے وقت دل ہی دل میں اپنے گھر اور بچوں کی خیریت کی دعا مانگیں۔
مردوں کو بھی یہ بات سمجھنا چاہیئے کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ گھر میں جھگڑے دونوں فریقین کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ مردوں کو بھی خیال رکھنا چاہیئے کہ جب وہ گھر میں ہیں تو گھر کے کاموں میں عورتوں کا ہاتھ بٹائیں۔ کھانا پکانے میں، برتن اور کپڑے دھونے میں اور گھر کی صفائی میں مدد کی جا سکتی ہے۔ اس سے مرد کی مردانگی کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ بلکہ یہ مردوں کے لیے بہت اچھا ہے گھر میں بے کار بیٹھنے سے وزن زیادہ ہو جائے گا۔ گھر کی صفائی کرنا جسم کو متحرک رکھتا ہے اور وزن قابو میں رہتا ہے۔ اور کپڑے دھونے کی ایکسرسائز وزن کو کنٹرول کرتی اور ایکٹیو رکھتی ہے۔ آج کل وائرس سے بچاؤ کا ایک طریقہ بہت محرک (ایکٹیو) رہنا ہے۔ اور اردگرد صفائی رکھنا ہے۔
عورتوں کو سمجھنا چاہیئے کہ مرد بھی بہت ٹینشن میں ہیں روزگار کی فکر اور جان جانے کا ڈر بہت بڑے خوف ہیں۔۔ عورت بہت تھک جاتی ہے تو لڑنے لگتی ہے۔ مردوں کو چاہیئے کہ ان کا خیال رکھیں عورتوں کو پورے کنبے کی جان کی فکر ہے اور کام کا دباو بہت ہے ایسے میں شوہر بھی غصہ دکھائے تو جینا مشکل ہو جاتا ہے۔
ایک دوسرے کا ساتھ دیں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں اس سے آپس میں پیار محبت بڑھتا ہے۔ اور اللہ سے خیر کی دعا مانگیں کہ اس وائرس سے سب کے بسے بسائے گھر سلامت رہیں۔ زندگی ہے تو سب کچھ ہے۔