ریاستہائے متحدہ امریکہ میں کورونا وائرس کا پہلا کیس 22 جنوری 2020 میں رپورٹ کیا گیا- اس کے بعد ایک ماہ تک پورے امریکہ میں گنتی کے چند کیسز ہی رپورٹ کیے گئے- لیکن اس کے بعد چند دنوں کے اندر اندر یہ کیسز پانچ ہزار سے بھی زیادہ ہو گئے ہیں- پاکستان میں بھی کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں یکایک تیزی سے اضافہ ہونے لگا ہے
اس قسم کے اضافے کو exponential growth کہا جاتا ہے- اس وقت امریکہ میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد ہر تین دنوں میں دگنی ہو رہی ہے- اگر یہی trend جاری رہا تو محض تین ماہ میں امریکہ میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد دس کروڑ تک پہنچ جائے گی- حقیقت میں ایسا ہو گا یا نہیں، اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ لوگ کس حد تک گھر سے نکلنا اور ایک دوسرے سے ملنا جلنا چھوڑتے ہیں- لوگوں کے گھروں میں رہنے اور ایک دوسرے سے ملنے جلنے سے اجتناب کرنے کو social distancing یعنی ایک دوسرے سے مناسب فاصلہ رکھنا کہا جاتا ہے
اگر دنیا بھر میں social distancing کے اصولوں کو نہ اپنایا گیا تو اگلے چند ماہ میں یہ وائرس اسی طرح exponential growth میں رہے گا اور ہر اس علاقے میں مریضوں کی تعداد ہر چند دنوں میں دگنی ہوتی چلی جائے گی جہاں social distancing نہیں ہے- اس اصول کو سمجھنے کے لیے ہم کمپیوٹر سیمولیشن کا استعمال کر سکتے ہیں اور ایک فرضی بیماری کے پھیلنے کی شرح کو سٹڈی کر سکتے ہیں
مثال کے طور پر ہم ایک ایسی فرضی بیماری کو سٹڈی کرتے ہیں جس میں مریض کسی بھی صحت مند شخص سے ملے تو وہ شخص بھی بیمار ہو جائے گا- اس فرضی بیماری کا ہر مریض ایک دن میں یہ بیماری صرف ایک نئے شخص کو لگا سکتا ہے- بیمار افراد ایک ہفتے میں صحت مند ہو جاتے ہیں اور اس کے بعد امیونٹی بن جانے کی وجہ سے دوبارہ بیمار نہیں ہوتے-
اگر اس مرض کا شکار شخص کسی ایسے گاؤں میں رہتا ہو جس کی آبادی 200 افراد پر مشتمل ہو تو ہم دیکھیں گے کہ شروع میں یہ بیماری بہت کم لوگوں کو لاحق ہو گی لیکن جیسے وقت گذرتا جائے گا، بیماروں کی تعداد تیزی سے بڑھنے لگے گی- پہلے دن ایک شخص بیمار ہو گا، دوسرے دن دو شخص بیمار ہوں گے، تیسرے دن چار افراد، پھر آٹھ، پھر سولہ، بتیس علی ہذالقیاس- لیکن سات دن بعد بیمار لوگ صحت یاب ہونے لگیں گے- اس لیے اس بیماری کے لیے مزید افراد کو بیمار کرنا مشکل ہوتا چلا جائے گا اور یوں گاؤں میں بیمار افراد کی تعداد کم ہونے لگے گی (کیونکہ پہلے سے بیمار افراد اب صحت یاب ہونے لگیں گے اور یہ لوگ اس بیماری سے امیون ہو چکے ہوں گے یعنی انہیں اب یہ بیماری دوبارہ نہیں لگ پائے گی)
اگر یہ فرضی بیماری پاکستان میں پھیل رہی ہو جس کی آبادی 22 کروڑ ہے تو اس بیماری کی exponential growth کئی ماہ تک چلتی رہے گی یعنی کئی ماہ تک ہر روز بیماروں کی تعداد پچھلے دن کی نسبت بڑھتی جائے گی اگرچہ کچھ لوگ صحت یاب بھی ہو رہے ہوں گے- جیسے جیسے صحت یاب ہونے والے لوگوں کی تعداد بڑھنے لگے گی ویسے ویسے اس بیماری کے پھیلاؤ کی شرح میں کمی آنے لگے گی اور ایک وقت آئے گا کہ یہ بیماری پورے ملک سے ختم ہو جائے گی
اگر ہم بالفرض یہ چاہتے ہوں کہ یہ فرضی بیماری اس قدر تیزی سے نہ پھیلے اور بیک وقت کروڑوں لوگ اس بیماری میں مبتلا نہ ہوں تو اس کے لیے ہم کیا کر سکتے ہیں؟ جس مقام سے یہ بیماری پھیلی ہے اگر ہم اس علاقے میں نقل و حمل پر مکمل پابندی لگا دیں یعنی وہاں پر کرفیو لگا دیں تاکہ اس علاقے سے نہ کوئی باہر نکل پائے اور نہ ہی کوئی داخل ہو پائے، تو یہ بیماری اس مقامی علاقے تک ہی محدود رہ سکتی ہے- اس صورت میں ملک کی باقی آبادی محفوظ رہے گی اور ملک کے باقی حصوں میں کسی پابندی کی ضرورت نہیں رہے گی- لیکن عملی طور پر کسی بھی علاقے کو مکمل طور پر سیل کر دینا ممکن نہیں ہے- اس لیے کچھ مریض کرفیو کے باوجود دوسرے علاقوں تک پہنچ جائیں گے جس سے بالاخر یہ بیماری دوسرے علاقوں میں بھی پہنچ جائے گی- لیکن اس کرفیو کی وجہ سے اس بیماری کے پھیلنے کی شرح بہت کم ہو جائے گی اور بجائے چند ہفتوں میں پورے ملک میں پھیل جانے کے، اب یہ بیماری پورے ملک میں پھیلنے میں کئی ماہ یا کئی سال لے سکتی ہے- اس طرح بیماری کی پھیلاؤ کی رفتار کم کی جا سکتی ہے- اس صورت میں بیمار افراد کی مجموعی تعداد تو اتنی ہی ہو گی جو پہلی صورت میں تھی لیکن ایک وقت میں بیمار افراد کی تعداد کم رہے گی اور ڈاکٹروں کے لیے بیماروں کا علاج کرنا آسان رہے گا یعنی میڈیکل سسٹم overload نہیں ہو گا- مثال کے طور پر کسی شہر میں بجائے اس کے کہ ایک لاکھ مریض ایک مہینے میں اس بیماری میں مبتلا ہو جائیں، وہی ایک لاکھ مریض دھیرے دھیرے (مثلاً ایک ماہ میں دس ہزار مریض) بیمار ہوں گے- اس پراسس کو flattening the curve کہا جاتا ہے- چین نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو سست رفتار کرنے کے لیے یہی حکمت عملی اپنائی تھی
اس فرضی بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے کا بہترین طریقہ social isolation ہے یعنی پورے ملک میں لوگوں کا ایک دوسرے سے ملنے جلنے سے گریز- اصولی طور پر اگر ہر صحت مند شخص کسی بھی بیمار شخص سے اس وقت تک نہ ملے جب تک وہ بیمار صحت یاب نہ ہو جائے تو اس وائرس کو کسی صحت مند شخص کو بیمار کرنے کا موقع نہیں ملے گا- لیکن عملاً مکمل طور پر ایسا کرنا ممکن نہیں ہے- کسی بھی ملک کے ہر باشندے کو غیر معینہ مدت کے لیے گھروں میں بند نہیں کیا جا سکتا- بہت سے افراد ایمرجنسی ڈیوٹی پر ہوتے ہیں مثلاً میڈٰیکل سٹاف، پولیس، رینجرز، فوجی وغیرہ- ان لوگوں کا دوسرے افراد سے تعامل ہر حال میں ہوتا ہے- اس کے علاوہ لوگوں کو کھانے پینے کی اشیاء خریدنا ہوتی ہیں جس کے لیے بازار کھلے رکھنا پڑتے ہیں، دوکانداروں کو اپنی دوکانوں پر بیٹھنا ہوتا ہے- کچھ لوگ قانون کو توڑ کر گھر سے باہر نکل آتے ہیں کیونکہ ان کے لیے گھر بیٹھنا عذاب ہوتا ہے- گویا شدید وبا کے عالم میں بھی کسی ملک کی آبادی کا کچھ حصہ ایک دوسرے سے ملتا رہے گا اور بیماری سوسائیٹی میں سرائیت کرتی رہے گی اگرچہ نسبتاً سست رفتاری کے ساتھ
اگر ہم یہ فرض کریں کہ ملک کی 75 فیصد آبادی سوشل آئسولیشن میں رہتی ہے جبکہ 25 فیصد آبادی آپس میں ملتی جلتی ہے تو ہم کمپیوٹر سیملویشن سے یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ ملک کی تیس فیصد آبادی اس فرضی وائرس کا شکار ہو گی اور وائرس ملک میں دھیرے دھیرے پھیلیے گا- اس کے برعکس اگر ہم یہ فرض کریں کہ ملک کی 12 فیصد آبادی سوشل آئسولیشن میں نہیں ہو گی باقی آبادی سوشل آئیسولیشن کو اپنائے گی تب بیماری کی شرح مزید کم ہو جائے گی اور زیادہ سے زیادہ بیس فیصد آبادی ہی اس بیماری کا شکار ہو پائے گی- گویا سوشل آئسولیشن جتنی زیادہ ہو گی اتنی ہی اس بیماری کے پھیلنے کی شرح کم ہو گی
ان تمام سیمولیشنز سے یہ صاف ظاہر ہے کہ کسی بھی وائرل بیماری کو پھیلنے سے روکنے کے لیے سوشل آئسولیشن سب سے زیادہ کارآمد ٹیکنیک ہے-
کورونا وائرس اس فرضی وائرس سے مختلف ہے- اس فرضی وائرس میں کسی مریض کی موت نہیں ہوتی جبکہ کورونا وائرس سے موت کی شرح جدید ترین ڈیٹا کے مطابق 3.4 فیصد کے لگ بھگ ہے- یعنی ایک ہزار مریضوں میں سے 34 اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں- کورونا وارئس کی پھیلنے کی شرح بھی اس فرضی بیماری کے پھیلنے کی شرح سے زیادہ ہے- تاہم ان سیمولیشنز سے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے دوسرے طریقہ ہائے کار کے علاوہ سوشل آئسولیشن کو بھی استعمال کیا جانا چاہیے- اسی وجہ سے دنیا بھر میں سکول اور آفسز بند کیے جا رہے ہیں، یونیورسٹیوں میں آن لائن کلاسیں کروائی جا رہی ہیں تاکہ طلباء کو کیمپس پر نہ جانا پڑے، پبلک ٹرانسپورٹ بند کی جا رہی ہے، ریسٹورانز پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں، پرائیویٹ فنکشنز میں مہمانوں کی تعداد محدود کی جا رہی ہے، اور حکومتیں اپنے شہریوں کو سوشل آئسولیشن پر پابندی کرنے کی ہدایات جاری کر رہی ہیں-
آپ سب سے بھی درخواست ہے کہ اس وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے سوشل آئسولیشن کا طریقہ کار اپنائیے- سوائے اشد ضرورت کے، لوگوں سے ملنا جلنا ترک کر دیجیے- اپنے فیملی فنکشنز کو موخر کر دیجیے اور جہاں تک ممکن ہو اپنا زیادہ تر وقت گھر میں گذاریے- اس کے علاوہ جو حفاظتی تدابیر مختلف ماہرین کی طرف سے شیئر کی جا رہی ہیں ان پر عمل کیجیے، اور خصوصاً بار بار صابن سے ہاتھ دھونے کو اپنی عادت بنا لیجیے
جن سیمولیشینز کا اس آرٹیکل میں ذکر ہوا ہے انہیں خود run کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے اور خود دیکھیے کہ مختلف رویے بیماریوں کے پھیلنے میں کیا کردار ادا کرتے ہیں
اوریجنل آرٹیکل کا لنک
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...