سب سے پہلے تو مجھے یہ اعتراف کرلینے دیجیے کہ میں بھی اسی معاشرے کا حصہ ہوں جس کی یاسر پیرزادہ نے اپنے ایک مضمون میں کچھ یوں منظر کشی کی ہے: "ہمیں جب کوئی بیماری ہوتی ہے تو سب سے پہلے ہم اِس کا انکار کرتے ہیں کہ جھوٹ ہی ہو، اِس کے بعد جب تکلیف کچھ بڑھتی ہے تو ٹونے ٹوٹکے آزماتے ہیں، اِس سے آرام نہیں آتا تو پھر ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں اور اگر خدانخواستہ کسی موذی مرض کی علامات ہوں تو ٹیسٹ کروانے میں لیت و لعل سے کام لیتے ہیں کہ پتہ نہیں کیا نکل آئے سو رہنے دو، حالاں کہ ٹیسٹ نہ کروانے سے بیماری غائب نہیں ہوتی وہیں رہتی ہے، لیکن ہم آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ قوموں کا مزاج بھی مختلف نہیں، کسی بھی وبائی مرض کے پھیلنے سے متعلق سب سے پہلے اِس کا انکار کیا جاتا ہے کہ خواہ مخواہ میڈیا ہوّا بنا رہا ہے، اِس کے بعد ڈھیلے ڈھالے انداز میں اعتراف کیا جاتا ہے، پھر کچھ اقدامات کیے جاتے ہیں، اِس کے بعد ناکامی کی صورت میں کوئی بہانہ تلاش کیا جاتا ہے یا کسی کو قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے اور آخر میں جب وبا کسی بھی وجہ سے ختم ہوتی ہے تو ایک دوسرے کو مبارکبادیاں دے کر خوش ہوتے ہیں کہ بڑا کام کیا ہے۔"
کرونا وائرس پر میرے کان اس وقت کھڑے ہوئے جب دہلی کے الیکشن اور اس کے فوراً بعد ہونے والے فسادات کا زور اخبارات، نیوزچینل اور سوشل میڈیا پر تھما ، اور اس کی جگہ کرونا وائرس نے رفتہ رفتہ بھرنی شروع کی۔ سوشل میڈیا بھی چونکہ بہت جلد ایک موضوع سے اکتا جاتا ہے، سو یہاں بھی کرونا وائرس تمام پرانے موضوعات کو ہڑپ کرتا چلا گیا اور ڈکار تک نہ لی۔ پھر کیا تھا، ہر مومن بے تیغ اس میدان کارزار میں داد شجاعت دیتا نظر آیا۔ کرونا کی طرف پوسٹ بھی "وائرل" ہونے لگے اور ہر دوسری تیسری پوسٹ کے نیچے سے دس بیس مسلمان اُبل اُبل کر باہر نکلتے نظر آئے۔ یا الٰہی، اتنے عقیدت مسلمان تو میں نے ایک ساتھ کبھی نہ دیکھے تھے اور میں تو کل تک جنھیں معقول حد تک پڑھا لکھا تصور کرتا تھا، وہ بھی امام ضامن باندھے بغیر اس ثواب جاریہ کی گنگا میں ہاتھ دھوتے دکھائی دیے۔ کون کہتا ہے کہ اسلام خطرے میں ہے، یہاں تو ایسے ایسے سورما نظر آئے کہ ان کے ہاتھوں میں جام شہادت بس چھلک پڑنے کو تیار تھا۔ کسی کے نزدیک یہ وائرس خدا کا عذاب ہے تو کوئی سائنس کو طعنہ دے کر خوش ہو رہا ہے۔ ابتدا میں ایسی تصویریں شیئر ہوئیں جن میں چینی باشندوں نے اس وائرس سے خود کو محفوظ رکھنے کے لیے سر تا پا برساتی نما لبادے میں خود کو محصور کررکھا تھا۔ لوگوں کو فوراً اسلام یاد آگیا کہ چین نے چونکہ مسلم عورتوں کے نقاب پر پابندی لگادی تھی، چنانچہ اللہ نے بطور عذاب انھیں ایسے وائرس سے دوچار کردیا جس سے پورا چین نقاب لگانے پر مجبور ہو گیا، سبحان اللہ۔ اس وقت مجھے پل بھر کے لیے لگا کہ ہو نہ ہو کرونا وائرس کا ظہور "میرا جسم میری مرضی" والی عورتوں سے انتقام لینے کے لیے ہوا ہے لیکن ذہن میں ایک سوال اٹھا کہ پھر اس میں مردوں کا کیا قصورجو اللہ نے انھیں بھی نقاب پہننے پر مجبور کردیا؟ یاد آیا،ایسا ہی ایک ملتا جلتا واقعہ سوشل میڈیا میں وائرل ہوا تھاکہ آسٹریلیا کے جنگلوں میں لگنے والی آگ وہاں کے مسلمانوں کی نماز استسقا کے نتیجے میں ہونے والی بارش سے ٹھنڈی ہوئی۔ ابھی کچھ روز پہلے فیس بک پر کرونا وائرس کے حوالے سے ایک صاحب نے پوسٹ لگائی کہ مولانا مودودی نے فلاں فلاں کتاب میں لکھا ہے کہ زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہے، اگر میری موت کاتب تقدیر نے لکھ دی ہے تو مجھے کوئی بچا نہیں سکتا اور اس کے برعکس اگر میری زندگی ابھی باقی ہے تو کوئی بیماری میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ مجھ سے رہا نہ گیا تو میں صاحب پوسٹ کو یاد دلانے کی کوشش کی کہ بھائی مودودی صاحب خود بھی اپنے اس کامل ایمان کے ساتھ نیویارک کے ایک اسپتال میں دل اور گردے کے علاج کے لیے ایڈمٹ ہوچکے تھے جہاں ان کا بیٹا خود ایک ڈاکٹر تھا۔ ظاہر ہے اس کے بعد صاحب پوسٹ نے مجھے بلاک کرکے سمجھ لیا کہ انھوں نے ایک وائرس کو ماردیا۔ مولانا طارق جمیل صاحب بھی اسی ذمرے میں شامل ہوتے ہیں، لوگوں کویہ بتاتے ہوئے نہیں تھک رہے کہ کرونا وائرس تمھارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا جب تک رضائے الٰہی نہ ہو لیکن خود طارق جمیل صاحب جب بھی علیل ہوتے ہیں تو پاکستان کی بجائے یورپ کے بہترین اسپتال میں اپنا علاج کرکے رضائے الٰہی کو "چیلنج" کرنے میں کوتاہی بھی نہیں برتتے۔ یہاں مثالوں کے ڈھیر لگانا مقصد نہیں ہے بلکہ عرض مدعا یہ ہے کہ ہمارے علما ساری زندگی مسلمانوں کو درس دیتے نہیں تھکتے کہ زندگی اور موت صرف خدائے برتر کے ہاتھوں میں ہے، تمھارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا جب تک وہ نہ چاہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ کلونجی اور عجوہ کھجوروں کی گٹھلیوں کا سفوف بھی بنانے میں مصروف رہتے ہیں لیکن جب بھی وقت شہادت آیا، یورپ کے اسپتالوں کی طرف سب سے پہلے دوڑ لگادی۔
ابھی ابھی ایک اردو روزنامے کے تازہ ترین شمارے میں کرونا وائرس پر ایک ایمان افروز کالم پڑھ کر اٹھا ہوں۔ صاحب مضمون کو یہ وائرس مسلمانوں کے خلاف سازش نظر آرہا ہے، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ اس حقیقت کو سرے سے گول کرگئے کہ مسلمانوں کے خلاف اس سازش میں مرنے والوں کی بڑی تعداد غیر مسلم کیوں ہے؟ انھوں نے یہ بھی نہیں بتایا کہ اگر سعودی عرب میں بیت اللہ اور مسجد نبوی کے علاوہ تمام مساجد پر تالا لگا دیا گیا تو اس کا دیکھا دیکھی ویٹیکن سٹی میں تالا لگا کر چابی سمندر میں کیوں پھینک دیا گیا؟ حد تو یہ ہے کہ صاحب مضمون جوش ایمانی میں یہ بھی دعویٰ کر بیٹھے کہ اس وائرس کے فروغ میں شاہین باغ (دہلی) کے دشمنوں کا بھی ہاتھ ہے (ہنسنا منع ہے) لیکن وہ یہ بتانے سے گریز کرتے ہیں کہ دنیا کے بیشتر مغربی اور غیر مسلم ممالک کے لاک ڈاؤن ہونے میں کس کی سازش ہے؟ میں نے کافی پہلے عرض کیا تھا کہ مسلمانوں کی قوت شامہ (سونگھنے کی حس) بہت تیز ہے، دنیا بھر کے مسلمان خواہ کسی بات پر آپس میں اتفاق رکھتے ہوں یا نہ ہوں لیکن وہ اس ایک بات پر ضرور متفق ہیں کہ پوری دنیا اپنا سارا کام دھام چھوڑ چھاڑ کر ان کے خلاف روز و شب سازش میں مشغول ہے، خیر اس رویے پر "احیائے مذاہب: اتحاد، انتشار اور تصادم" کی تینوں جلدوں میں کافی سے زیادہ مواد موجود ہے، سو انھیں سونگھنے دیتے ہیں، ہم آگے بڑھتے ہیں۔
سچ یہ ہے کہ کرونا وائرس کا کوئی دین ایمان نہیں، اِس کے کوئی سیاسی نظریات نہیں اور یہ کسی سرحد کو نہیں مانتا اور اپنے مزاج کے اعتبار سے حد درجہ سیکولر ہے۔ آپ ایک خدا کی عبادت کرتے ہیں یا بتوں کو پوجتے ہیں، پوپ ہیں یا وزیر، ایرانی ہیں یا سعودی، جوا خانہ چلاتے ہیں یا کلیسا میں سروس کرواتے ہیں، اگر آپ نے یا آپ کی حکومت نے احتیاط نہ کی تو یہ وائرس آپ کا لحاظ نہیں کرے گا۔
جولوگ سائنس کی برکات سے چوبیس گھنٹے استفادہ کرتے ہیں، جب وہ سائنس کے خلاف زبان کھولتے ہیں تو اول ان کی منافقت طشت از بام ہوجاتی ہے اور دوم ان کی جہالت پر سر پیٹنے کا جی کرتا ہے ۔ اے مرد مجاہد، کم سے کم یہ ابتدائی سبق تو یاد رکھتے کہ سائنس اور مذہب دونوں کا دائرہ کار علیحدہ ہے۔ جب بھی آپ مذہب کو سائنس کے اندر گھسیڑنے کی کوشش کریں گے تو منھ کی کھائیں گے، ماضی سے اس کی متعدد مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ جو لوگ کرونا وائرس کے حوالے سے سائنس پر طعنے مار رہے ہیں، وہ یا تو جاہل مطلق ہیں یا پھر دنیا اور اس کی تاریخ سے بے خبر ہیں۔
چودھویں صدی کے طاعون کے بارے میں آپ جانتے ہیں؟ یہ وبا بھی چین سے شروع ہوئی تھی اور اٹلی پہنچ گئی، پھر پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ایک اندازے کے مطابق اس وبا سے ساڑھے سات کروڑ سے بیس کروڑ تک لوگ مارے گئے تھے، انگلستان کی آبادی نصف ہو کر رہ گئی تھی۔ اس وقت بھی ہمارے اور آپ جیسے لوگوں کا یہی خیال تھا کہ یہ اللہ کا عذاب ہے۔ بہت سے عیسائیوں نے اس کا الزام یہودیوں پر لگایا، جن پادریوں نے اسے اللہ کا عذاب قرار دیا، وہ خود بھی اس وبا میں مبتلا ہو کر مرگئے، چرچ سنسان ہوگئے۔ لیکن اس وقت کسی کے وہم و گمان تک میں نہ تھا کہ اس بیماری کا تعلق بیکٹیریا سے ہے اور آج اینٹی بائیوٹک کی وجہ سے طاعون ایک قابل علاج بیماری ہے۔
چیچک نےبھی ایک لاعلاج بیماری بن کر انسانی آبادی پر شب خون مارا۔ اس دور میں پیدا ہونے والے کسی بچے کا نام سات دنوں تک نہیں رکھا جاتا تھا جب تک اس بات کا یقین نہ ہوجائے کہ بچہ چیچک سے آزاد ہے، چونکہ 18 ویں صدی تک سویڈن اور فرانس میں پیدا ہونے والا ہر دسواں بچہ اور روس میں ہر ساتواں بچہ اس بیماری سے مرجاتا تھا۔ اس صدی میں صرف یورپ میں چھ کروڑ لوگ چیچک سے ہلاک ہوئے۔ پچاس کی دہائی تک ہر سال پانچ کروڑ لوگ چیچک کا شکار ہوا کرتے تھے۔ چیچک کا آخری مریض 1977 میں صومالیہ میں پایا گیااور یہ لاعلاج بیماری بھی دعائے شفا کے سبب نہیں بلکہ سائنس دانوں کی مسلسل کوششوں کی وجہ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی۔ ایسی کتنی ہی بیماریاں ہیں جو کل تک لاعلاج تھیں، انھیں میڈیکل سائنس نے ہی شکست دی مثلاً پولیو، کالی کھانسی، خناق، ٹی بی، ٹائفائڈ، سوائن فلو، برڈ فلو، ڈینگی وائرس ، کانگو وائرسحتیٰ کہ لوگ کتے کے کاٹنے سے بھی مرجایا کرتے تھے، مزے کی بات یہ ہے کہ اب وہی لوگ بچنے کے بعد سائنس پر بھونک رہے ہیں۔ بلاشبہ اب بھی ہمارے درمیان کئی لاعلاج بیماریاں موجود ہیں جس سے عالم انسانیت کو نجات دلانے کے لیے دنیا بھر کے سائنس داں شب و روز تحقیق میں مصروف ہیں، اور کچھ بیماریوں کے علاج میں مثبت پیش رفت بھی ہمیں نظر آرہی ہے، مثلاً کئی قسم کے کینسر کا بھی علاج اب تقریباً ممکن ہوچلا ہے اور کئی مریض مکمل صحت یاب ہو کر اپنی نئی زندگی شروع کرچکے ہیں۔
ان میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے، جو ہر مسئلے کو کلمہ پڑھوا کر اسے قرآن و سنت سے جوڑ کر دیکھنا پسند کرتا ہے، خواہ اس کی عملی زندگی ان دونوں سے کتنی ہی خالی کیوں نہ ہو۔ کرونا وائرس کے حوالے سے بھی ایسے لوگ بڑی معصومیت سے آپ کو کہتے نظر آئیں گے کہ بھائی سنت سے "احتیاط" ثابت ہے، یا پھر بڑے فخر سے سینہ چوڑا کرتے ہوئے کہیں گے کہ اسلام میں تو صفائی کو نصف ایمان کہا گیا ہے لیکن اگر آپ ان سے دریافت کرنے کی جسارت کریں کہ اے میرے بھائی، کیا "احتیاط" اور "صفائی" اسلام کے ایجادات ہیں، کیا ان دونوں کا وجود اسلام سے پہلے نہیں تھا؟ اور کیا اگر اسلام میں بیماری سے احتیاط اور صفائی کو نصف ایمان نہ کہا جاتا تو آپ بیماری اور غلاظت کو دعوت دیتے، کیا صفائی اور ایمان پر آپ صرف اس لیے عمل کررہے ہیں چونکہ یہ سنت ہیں؟ اس کا مطلب یہ کہ دنیا کی باقی آبادی جو ان دونوں چیزوں پر آپ سے زیادہ عمل پیرا ہے، کیا وہ بھی سنت پر عمل کررہی ہے؟ حالاں کہ واقعہ یہ ہے کہ مہذب اور ترقی یافتہ قوموں کا صفائی پر ایمان نصف نہیں بلکہ کامل ہے۔ ان کے محلوں سے اپنی بستیوں کا مقابلہ کریں تو آپ کی طبیعت ہری ہوجائے گی۔ آپ میں سے شاید بیشتر جمعہ کے جمعہ غسل کرنا سنت سمجھتے ہوں، جب کہ وہ ہر روز بغیر نہائے کچن کا رخ تک نہیں کرتے۔ آپ محفلوں میں بیٹھ کر ناک میں اپنی انگلی گھسا کر گھماتے ہوئے روحانی سکون محسوس کرتے ہیں، قلم اور ٹوتھ پک سے کان میں خلال کرتے نہیں شرماتے، کھانستے ہیں تو منھ پر ہاتھ تک نہیں رکھتے، چھینک آئے تو منھ سے گولی کی طرح چھوٹا تھوک کا فوارہ سامنے بیٹھے لوگوں کے چہرے پر گلاب پاشی کرتا ہے، پاخانہ کرنے کے بعد میں نے کئی لوگوں کو ہاتھ تک دھوتے نہیں دیکھا اور اکثر لوگوں کو صرف رسم ادا کرتے دیکھا۔ خیر، مجلسوں میں بیٹھے بیٹھے بار بار زیر ناف کھجانا اور مختلف سُروں میں پادنا تو عام بات ہے۔ تو یہ ہے صفائی پر آپ کے نصف ایمان کی ایک ناتمام جھلک جو صرف چرب زبانی کے وقت بطور حوالہ کام آتی ہے۔ فیس بک پر ایک دوست نے بتایا کہ انھوں نے ایک صاحب سے پوچھا کہ آپ باتھ روم گئے تھے، کیا آپ نے اپنے ہاتھ صابن سے دھوئے؟ ان صاحب نے جواب دیا، صابن تو استعمال نہیں کیا ، البتہ سات مرتبہ کلمہ ضرور پڑھ لیا تھا۔ بقول میرے دوست، اس عمل سے وائرس مسلمان تو ہوگیا ہوگا مگر مرا نہیں ہوگا۔
خاطر جمع رکھیے، دنیا بھر کے سائنس داں اس وقت کرونا وائرس کا علاج ڈھونڈنے کے لیے شب و روز تحقیق کررہے ہیں، کچھ ضمنی کامیابی بھی مل چکی ہے بلکہ انسانی جسم پر ان ویکسین کے ٹیسٹ بھی شروع ہوچکے ہیں۔دو بچوں کی عظیم ماں جینیفر ہیلر جس نےکروناویکسین کے تجربہ کے لیے خودکو رضاکارانہ طورپہ پیش کیا، واضح رہے کہ تجربہ کی ناکامی کی صورت میں موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ ٹیسٹ کی اس مہم میں خود کو رضاکارانہ طور پہ پیش کرنے والوں کی تعداد 40 سے زائد ہے، لیکں افسوس اس تعداد میں "محسن انسانیت" کا ایک بھی امتی شامل نہیں ہے اور نہ ہی ان میں سے ایک بھی 'رضائے الٰہی' کا دعویٰ کرنے والا موجود ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ طارق جمیل جیسے صاحب ایمان حضرات اس فرض کفایہ کو ادا کرتے اور عالم انسانیت کے کام آتے۔
لیکن مجھے خوب اچھی طرح علم ہے کہ جو لوگ ہر مصیبت کا الزام اللہ پر ڈال دیتے ہیں اور ہر دنیاوی مسائل کا حل رسول اللہ کے قول و فعل میں تلاش کرتے ہیں، وہ صرف گفتگو کے غازی ہیں۔ دراصل ایسے لوگ کاہل الوجود ہوتے ہیں جو اپنی تمام ذمہ داریوں کا بوجھ اللہ اور رسول پر ڈال کر مبرا ہوجاتے ہیں، دراصل تقدس ایک بہانے یا عذر لنگ کی شکل اس وقت لے لیتا ہے جب انسان ہر ذمہ داری اور آزمائش سے ڈر کر راہ فرار ڈھونڈتا ہے اور اپنی کاہلی اور نااہلیت کو مذہب کے پردے کے پیچھے چھپانا چاہتا ہے۔ یہ طریقہ مجذوبیت کا ہے جب آدمی دنیا سے کنارہ کش ہو کر غاروں ، جنگلوں اور حجروں میں خود کو قید کرلیتا ہے اور دنیا سے اپنا رشتہ توڑ لیتا ہے۔ کیا آپ کو رسول اللہ کی وہ حدیث یاد نہیں کہ جب لوگ اپنے دنیاوی مسائل کا حل ڈھونڈنے رسول کے پاس آنے لگے تو انھوں نے جواب دیا کہ میں تمھارے پاس دین لے کر آیا ہوں، تم اپنے دنیاوی مسائل خود حل کرلیا کرو اوروہ تم مجھ سے بہتر جانتے ہو۔ میں پہلے بھی اثبات کے گزشتہ خاص شمارہ "احیائے مذاہب: اتحاد، انتشار اور تصادم" (جلددوم) کے ادریے میں عرض کرچکا ہوں ، پھر دہراتا ہوں کہ جب تک ہم خوفریبیوں کو ترک کرکے ماضی کے مفروضوں سے نجات حاصل نہیں کرتے، ہماری حالت بہتر ہونے کی بجائے بگڑتی چلی جائے گی۔ ہمارے ہاں یہ رویہ عام ہوچکا ہے کہ ہر دنیاوی مسائل کے حل کے لیے ہم قدیم مذہبی سند تلاش کرتے ہیں۔ کیا واقعی اس کی ضرورت ہے اور کیا خود رسول اللہ نے ہر مسئلے پر مذہبی روایت اور سند کی بنیاد پر کام کیا ، یا دین کے آفاقی افکار و نظریات کی روشنی میں معاملات کو دیکھا اور اپنے دور کے حالات اور تقاضوں کے مطابق سماجی مسائل کے بارے میں ایک طرز عمل اختیار کیا ؟ کیا ہم یہ بھی بھول گئے کہ رسول اللہ نے صحابہ کرام کی تربیت اس نہج پر کی تھی کہ وہ کوئی کام کسی مذہبی سند کے بغیر بھی انجام دے سکیں۔ مختصراً یہ کہ جن امور پر دین نے کوئی قد غن نہیں لگائی، ان کے لیے دینی سند تلاش کرکے ان کو مذہبی لباس پہنانا بذات خود ایک بدعت ہے چونکہ ہم اس بنیادی بات کو بھول گئے کہ دنیا اور اس کے مظاہر تبدیل ہوتے رہتے ہیں، ہمیں صرف یہ دیکھنا ہے کہ کون سی چیز وقت کے ساتھ بدلتی ہے اور کون سی نہیں بدلتی۔ اصولوں سے تجاوز کرکے ہر مسئلے کے لیے مذہبی ماضی کی مقدس سند کو تلا ش کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ معاشرے سے مذہب آہستہ آہستہ پیچھے ہٹتا چلا گیا اور شدت پسندی مذہب کی پہچان بنتی گئی۔
ماضی سے صرف اصول مل سکتا ہے، ضروری نہیں کہ مثال بھی ملے۔ مثلاً انسانی علوم ؛ میڈیکل سائنس، فزیکل سائنس اور نیچرل سائنس سے ہم سب بے پناہ استفادہ کرتے ہیں لیکن کیا ان کے استعمال کے لیے ماضی سے کوئی مقدس سند مل سکتی ہے؟ ابھی کچھ دنوں پہلے کرونا وائرس کے تعلق سے کچھ علما اور مذہب پرستوں کے بیانات سامنے آئے کہ اسلام چونکہ چھوا چھوت ماننے سے انکار کرتا ہے، اس لیے ہم اجتماعات پر پابندی کے خلاف ہیں۔ "اس سادگی پر کون نہ مرجائے اے خدا"، ارے میاں صاحب یہاں بات نسلی چھوا چھوت کی نہیں ہو رہی ہے بلکہ ایک وائرل بیماری کی ہو رہی ہے جو ایک جسم سے دوسرے جسم میں منتقل ہوتا ہے، کیا مقدس اسنا د میں چھوا چھوت کا ذکر وائرل بیماریوں کے لیے ہوا ہے یا نسلی بنیادوں پر سماجی تفریق اور علیحدگی سے اجتناب منشا ہے؟ اور اگر پھر بھی آپ اپنے موقف پر بضد ہیں کہ کرونا وائرس وائرل نہیں ہے تو پھر دیر کس بات کی، اپنے اسی ایمان کے سہارے چین یا اٹلی کا ایک راؤنڈ لگا آئیے، تاکہ آپ دنیا پر اپنے موقف کی حقانیت ثابت کرسکیں اور عالم انسانیت آپ کی اس عظیم دریافت پر تاقیامت شکرگزار رہے۔
آخر میں ایک بات کی جانب توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ کرونا وائرس بلاشبہ ایک مہلک اور وائرل وبا کی طرح ہم پر ٹوٹا ہے لیکن جس طرح ہر تخریب میں کچھ نہ کچھ تعمیر کا پہلو بھی پوشیدہ ہوتا ہے، سو اس میں بھی موجود ہے۔ کرونا وائرس نے ہمیں پہلے کے مقابلے زیادہ مہذب اور عملیت پسند بنا دیا ہے، اب ہم صابن سے ہاتھ دھونے لگے ہیں، سیناٹائزر کا بھی استعمال کرنے لگے ہیں، دوسروں کے منھ پر کھانسنے اور چھینکنے کی بجائے ٹشو پیپر یا رومال کی تاکید کی جارہی ہے بلکہ اب تو ماسک کا لگانا فیشن بن چکا ہے ۔ اس کے علاوہ جو سب سے بڑی انقلابی تبدیلی ہم اپنے معاشرے میں دیکھ رہے ہیں، وہ یہ کہ دنیا بھر میں مذہبی نقطہ نظر سے "احتیاط" کا دائرہ کافی وسیع ہوا ہے۔ ایسے تمام مقدس مقامات جہاں عموماًاجتماعیت کا غلبہ ہوتا ہے، وہاں پابندی لگا دی گئی ہے۔ شروع میں بیت اللہ پر عمرے کی پابندی نے لوگوں کو بے چین کیا لیکن پھر دیکھتے دیکھتے کئی ملکوں اور شہروں کی مسجدوں تک نے اسی طرز پر عمل کرنا شروع کردیا۔ ایک خبر کے مطابق کویت کی مسجدوں میں اذان میں "الصلوٰۃ فی بیوتکم" (نماز اپنے گھر میں) کا اضافہ کردیا گیا ہے، یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ ہر آن جن لوگوں کو اسلام خطرے میں نظر آتا تھا، وہ اب اس اضافے پر مصلحتاً خاموش ہیں اور حکمت عملی کا تقاضہ بھی یہی ہے۔ اسی حکمت عملی کے تحت بیت اللہ کو آب زم زم (کل تک جس میں کئی بیماریوں کا علاج پوشیدہ ہونے کا دعویٰ کیا جاتا رہا ہے) کی بجائے انسانی ہاتھوں سے تیار شدہ کیمیکل (جس میں الکحل بھی شامل ہوتا ہے) سے سیناٹائز کیا گیا۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ آفت صرف مسلمانوں پر ٹوٹی ہے بلکہ جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ کرونا وائرس اپنے حملے میں مساوات کا قائل اور غیر جانبدار واقع ہوا ہے؛ ویٹیکن سٹی، مندر، گردوارے ، زیارت گاہیں، چرچ وغیرہ سب پر اس نے بلا تخصیص مذہب و ملت یکساں کاروائی کی ہے۔بہرحال، دنیا میں اس وائرس کے آنے سے ہمارے معاشرے میں عملیت پسندی کا زور بڑھا ہے جو اس حقیقت کی جانب خوشگوار اشارہ کررہا ہے کہ آج کا انسان سمجھ چکا ہے کہ بیماریاں آسمانوں سے نہیں اترتیں بلکہ یہیں زمین پر خلق ہوتی ہیں جس کا توڑ بھی انسان ہی نکالتا ہے۔