پاکستان میں بظاہر کرونا کے زیادہ افراد متاثر نہیں ہوئے اور مرنے والوں کی تعداد بھی کم ہے۔ مگر میں کچھ اور ہی دیکھ رہا ہوں۔ آنے والے دنوں میں پاکستان میں پاکستان میں کرونا سے افیکٹ شدہ افراد کا تعداد بہت زیادہ اضافہ ہونے والا ہے اس کے نتیجے میں لوگوں کے مرنے والے تعداد میں شدید اضافہ ہوگا۔ کیوں کہ کرونا سے افیکٹ ہونے والوں میں اب فرد کے بجائے گروں میں پھیل رہا ہے اور انہوں نے کرونا بہت سے لوگوں میں پھیلا دیا ہے۔
پاکستان میں کرونا کو ترقی میں مذہبی طبقہ کی خود غرضی اور ان کے پیروؤں کا اندھا اعتقاد ہے۔ پہلے ایران سے آنے والے زائرین والے سے کرونا پھیلا اور اس کو مزید ہوا تبلیغی جماعت نے دی۔ مذہبی طبقہ نے اپنے اثر و رسوخ اور زعم میں مسجدیں اور دوسری مجالس بند کرنے سے انکار کردیا اور حکومت نے ان سے ایک کمزور سا معاہدہ کرسکی۔ کرونا کی وبا کے باوجود تبلیغی جماعت نے اپنے اجتماعات ختم کو ملتوی کرنے سے انکار کردیا۔ حالانکہ اس کے کرتا دھرتا مولانا جمیل طارق ہیں۔ جن کہ وزیر اعظم عمران خان کے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ لیکن انہوں نے تبلیغی جماعت کے اجماعات کو روکنے کو کوشش نہیں کی اور اس نتیجے میں کرونا بری طرح پھیل گیا ہے۔
یہ ایام ملازمت پیشہ لوگوں کی تنخواہوں کے ملنے دن ہیں۔ جن میں زیادہ تر سرکاری ملازم ہیں اور تنخواہوں کے لیے بینک کے سامنے پیسہ نکالنے والوں کا اس قدر ہجوم ہوگیا ہر بینک کے سامنے ہزاروں لوگوں کا ہجوم لگ گیا اور سارا سسٹم فیل ہوگیا۔ اس کے نتیجے میں بہت کم لوگ اپنی تنخواہیں نکلوانے میں کامیاب ہوئے۔ جن لوگوں نے کسی نہ کسی طریقے سے اپنی تنخواہیں لے لیں ان کی تعداد بھی کم نہیں تھی۔ یہ لوگ جب خریداری کے لیے بازار میں آئے تو ساری احتیاطیں بالائے طاق ہوگئیں۔
جب کرونا تیزی سے پھیلنا شروع ہوا تو لوک داؤن شروع ہوا اور کھانے پینے اور دواؤں کی دوکانوں کے سوا دوسری دوکانیں بند کردی گئیں۔ اس کے نتیجہ میں بہت سے لوگ اپنے روزگار سے محروم ہوگئے۔ ان میں اکثریت ان لوگوں کی تھی جو روز کماتے روز کھاتے تھے۔ صورت حال یہ ہے کہ ان کو کھانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور ان کے پاس پیسے ختم ہوچکے ہیں اور جن کے پاس ہیں وہ کھانے پینے کی اشیاء کو خرید رہے۔ اس نتیجے میں کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہے۔ اگرچہ ان اشیاء کی کمی نہیں ہے لیکن ہمارا معاشرہ ایسا ہے جو کہ مذہب پر اندھا اعتقاد کرتے ہیں لیکن جہاں بھی موقع ملتا ہے وہ فائدہ اٹھانا نہیں چھوڑتے ہیں۔ یہ چیز اس وبا کے عالم میں بھی نظر آرہی ہے۔ جہاں پھل اور سبزیوں کی کمی نہیں ہے لیکن انہیں خریدنے والا کوئی نہیں ہے اور تھوڑی بہت جو شہروں میں آرہی ہیں ان کو مہنگا بیچا جارہا ہے اور خوب منافع کمایا جارہا۔ یہ چیز ایسی ہے جو حکومت اس بارے بات کرہی ہے مگر اس کے لیے کوئی ایسا قابل عمل پروگرام پیش نہیں کر رہی ہے۔
جہاں تک حکومت کے اقدامات کا تعلق ہے وہ اس پر صرف سیاست کر رہی ہے۔ جس بین مثال وزیر اعظم عمران خان کی چار بے مقصد تقریریں ہیں اور اس میں بارہ سو ارب کے پیکج دیا ہے وہ محض لفظوں کا ہیر بھیر ہے۔ جس میں وہ پیسے بھی شامل ہیں جس کی ادائیگی حکومت کو لازمی ادا کرنی ہے۔ مثلاً سرکلر ڈید اور گندم کی خریداری وغیرہ۔ دوسری طرح اپوزیشن کا ہر منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ حکومت کے نذدیک سیاست ہے۔ جب کہ پی ٹی آئی جس میں وزیر اعظم سمیت بے مقصد اور الزم تراشی بدوستور جاری ہیں۔ کل ایک مجیب شامی نے ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے لیے کہا انہیں کرونٹائز کردینا چاہیے۔ یہ ان کی بدزبانی، ابوزیشن پر بے جا تنقید اور بے مقصد گفتگو کی طرف اشارہ تھا۔ جیسے کہ ارشد شریف کو شوشل میڈیا پر ارشد کتا شریف کہا جارہا۔ حکومت نے متاثرین کی امداد کرنے کے لیے ایک فنڈ کا اعلان کیا ہے۔ اس میں دوسروں کے علاوہ خود حکومت کے وہ اراکین جنہوں نے شکر اور آٹا میں اربوں روپیہ کمالیے اور ان کی قیمتوں کمی میں وزیر اعظم کی یقین دھانی کے باوجود کم ہونے کے باوجود بڑھ رہی اور انہوں نے کسی قسم کی امداد حکومتی اور غیر حکومتی نہیں دے رہے۔ بلکہ ان کی نظریں حکومت کے پیکیج پر ہیں۔ دوسری طرف حکومت نے امداد کے لیے ایک نئی تنظیم ٹائیگر فورس قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جس کی ابوزیشن شدید مخالفت کر رہی اور اس کا مطالبہ ہے کہ یہ محض حکومتی پارٹی کے اراکین کو فائدہ پہنچانے کا پروگرام ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اس کی جگہ شہری حکومتوں کو بحال کیا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کسی نئی تنظیم کو کھڑا کرنا آسان نہیں ہے اور اس میں کافی وقت اور سرمایا چاہیے۔ ایسے وقت میں جب کہ فوری طور پر لوگوں کی مدد کی ضرورت ہے یہ حکومتی ضد ملک اور حکومت کو بہت نقصان پہنچائے گی۔ ویسے بھی یہ حکومت کام سے زیادہ میڈیا پر ترویح پر زور دیتی ہے۔ اس کا اندازہ اسے لگایا جاسکتا ہے عمران خان اعظم کی چار تقریریں ہیں۔ جس میں ایک ہی بات لوک ڈاؤں کی مخالفت تھی مگر وہ اس کی جگہ کوئی اپنا پروگرام پیش نہیں کیا ہے۔ بد امتظامی حد ہوچکی ہے اور جو کچھ حکومت کاروائی کر رہی ہے وہ صرف زبانی حد تک ہے۔ اس کے نتیجے میں مزید حالات خراب ہونے کا خدشہ پیدا ہوچکا ہے۔ وزیراعظم کے بہت حد تک اختیارات کمی کردی گئی ہے۔ مثلاً ان کی رضا کے بغیر لاک ڈاؤن کا اعلان۔ یہ بھی ہوسکتا ہے حکومت کی یہی روش جاری رہی تو بہت سے رٹیں پٹیشن عمران خان کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر ہیں۔ اگر یہ فیصلہ ہوگیا کہ عمران خان کو گھر بھیجنا ہے تو ان کو چلانے کا اعلان کیا جاسکتا ہے اور وزیر اعظم گھر گئے تو ان کی پارٹی تنکوں کی طرح بکھر جائے گی۔ اس کے نتیجے میں الیکشن تو نہیں مگر قومی حکومت بننے کا زیادہ امکان ہے۔