COVID-19 کی وبا سے نمٹنے کے لئے آئی ایم ایف نے حکومتِ پاکستان کو 1.4 بلّین ڈالر کا سپورٹ فنڈ دیا۔ اس سال آئی ایم ایف نے پاکستان کو جو ایک بلین ڈالر کے قرضے کی قسط جاری کرنی ہے اُس کی مختلف شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے کرونا کی وبا سے نمٹنے کے لئے جو سپورٹ فنڈ فراہم کیا تھا، حکومتِ پاکستان اُس کا آڈٹ کرے اور اُس کی رپورٹ کو اپنی ویب سائٹ پر شائع کرے۔ حکومتِ پاکستان نے آڈٹ تو کیا لیکن اس آڈٹ رپورٹ کو شائع کرنے میں پس و پیش سے کام لیا۔ لیکن بالآخر آئی ایم ایف کے سامنے ہار مانتے ہوئے 19 نومبر، 2021 کو آڈٹ رپورٹ شائع کردی۔
کووڈ-19 سپورٹ فنڈ سے ملنے والی رقم کو حکومتِ پاکستان نے مختلف محکموں کے ذریعے خرچ کیا۔ ان میں نیشنل ڈزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (NDMA)، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP) ، یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن آف پاکستان، دفاعی ادارے، وزارتِ صحت، حکومتِ پنجاب، حکومتِ سندھ، حکومتِ خیبر پختونخواہ، نیشنل ڈزاسٹر رسک مینیجمنٹ فنڈ (NDRMF)، وفاقی وزارتِ تعلیم، اور محکمہ فائنانس شامل تھے۔
اس فنڈ میں سے حکومتِ پاکستان نے NDMA یعنی نیشنل ڈزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کو Rs. 33,248 ملّین رلیز کئے۔ جس میں سے اتھارٹی نے 22,823 ملین روپے چرچ کئے۔ (صفحہ نمبر 16)
اس مضمون میں NDMA کے حوالے سے کئے گئے آڈٹ کا احاطہ کیا جائے گا۔
NDMA کی جانب سے ٹھیکوں کی تفصیلات نیب کو فراہم نہیں کرنا ( صفحہ نمبر 20)
پہلی بے قائدِگی جس کی جانب اس رپورٹ میں اشارہ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ نیب کے قانون کے مطابق وفاقی، صوبائی، یا بلدیاتی ادارے اگر 50 ملین روپے یا اُس سے زائد کا ٹھیکہ دیتے ہیں تو ایک مخصوص مُدّت کے اندر اُس کی تفصیلات سے نیب کو آگاہ کرنا لازمی ہے۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق NDMA نے مختلف سپلائرز اور کمپنیوں کو 55 سے زائد ایسے ٹھیکے دئیے جن کی مالیت 50 ملّین روپے یا اُس سے زائد تھی۔ لیکن ابھی تک NDMA نے ایک بھی ٹھیکے کی تفصیلات نیب کو فراہم نہیں کی ہے جبکہ تفصیلات فراہم کرنے کی مخصوص مُدّت گزر چکی ہے۔ NDMA کی طرف سے آڈیٹر جنرل کو یہ جواب فراہم کیا گیا کہ چونکہ NDMA نے انتہائی ہنگامی حالات میں کام کیا اس لئے ایسا کرنے میں تاخیر ہوگئی۔ آڈیٹر جنرل نے ان تمام ٹھیکوں کی تفصیلات جلد از جلد نیب کو فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔
کووڈ۔19 سے متعلق آلات کی چین سے غیر شفّاف خریداری (صفحہ نمبر 21)
آڈیٹرجنرل نے اپنی رپورٹ میں کووڈ-19 کے لئے خریدے گئے آلات میں متعدد بے قائدگیوں کا تزکرہ کیا ہے۔
پاکستان پبلک پروکیورمنٹ رولز 2004 کے رول نمبر 4 کے مطابق پروکیورمنٹ ایجنسیاں خریداری کے عمل میں شامل ہوتے ہوئے اس بات کو یقینی بنائیں گی کہ خریداری منصفانہ اور شفّاف ہو۔ جو چیز جتنی مالیت کی خریدی جائے وہ اُتنی مالیت کی ہو اور economical ہو۔
کووڈ-19 کی وبائی بیماری پھیلنے کی صورت میں NDMA نے چین سے براہ راست ہنگامی طور پر طبّی آلات خریدنے کا عمل شروع کیا۔ اُن میں بایو میڈیکل آلات، ٹیسٹنگ کِٹس، اور PPE’s شامل تھیں۔ NDMA کے فراہم کردہ تازہ ترین ریکارڈ کے مطابق 30 جون، 2020 تک چین سے کی گئی خریداری کی مد میں 62,270,874$ امریکی ڈالر کی ادائیگی کی گئی ہے۔ چین سے خریداری تین مرحلوں میں کی گئی ہے۔
آڈٹ کے دوران خریداری کے اِن تین مرحلوں میں جو بے ضابطگیاں دیکھی گئیں وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
نیشنل ڈزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی سے کیسز کے آغاز اور اُن کی منظوری کی تاریخ بتائے بغیر منظوری مانگی گئی
NDMA نے چین میں ممکنہ وینڈرز/ بولی دہندگان سے رابطہ کیا تاہم اس سلسلے میں دستاویزی ثبوت نہ تو دستیاب تھے نہ ہی اتھارٹی کی طرف سے فراہم کئے گئے
NDMA کے دعوے کے مطابق NDMA میں تشکیل دی گئی تکنیکی کمیٹی اور بیجنگ (چین) میں پاکستانی سفارتخانے کی طرف سے تشکیل کردہ تکنیکی کمیٹی کے چین کے سپلائرز کے ساتھ وڈیو کانفرنسوں کا ایک سلسلہ منعقد ہوا لیکن ان کے کوئی منٹ نہیں ریکارڈ کئے گئے۔
کمیٹیوں نے تصریحات، بولیوں، کوٹیشنز، ترسیل کے طریقہ کار اور ادائیگی کی شرائط کا جائزہ لیا لیکن اُن تمام کاروائیوں کا مناسب ریکارڈ برقرار نہیں رکھا گیا اور زیادہ تر معاملات میں خریداری کے عمل کی کاروائی کی تصدیق کے لئے دستاویزات دستیاب نہیں تھیں
چین سے خریداری کے تینوں مراحل میں پروکیورمنٹ کے منٹس پر کمیٹی کے تمام ممبران نے دستخط نہیں کیے تھے
نہ تو کوئی موازنہ کیا گیا اور نہ ہی تقابلی اسٹیٹمنٹ تیار کئے گئے
NDMA کی جانب سے 42.525 ملین روپے کے ریسورس مینیجمنٹ سسٹم (RMS) کی تنصیب کی خریداری میں بے ضابطگی(صفحہ نمبر 23)
پبلک پروکیورمنٹ رولز 42(iii)، (d) پروکیورمنٹ ایجنسی خریداری کا نوٹیفیکیشن دئیے بغیر ایک یا زیادہ سپلائرز کے ساتھ بات چیت کے ذریعے ٹینڈرنگ کر سکتا ہے۔ لیکن یہ طریقہ کار صرف اُس صورت میں استعمال کیا جائے گا جب غیر متوقع واقعات کی وجہ سے انتہائی عجلت کی وجوہات کی بنا پر کھلی اور محدود بولی کے طریقوں کے لئےمقرر کردہ وقت کی حدود کو پورا نہیں کیا جاسکتا۔ ایسا کرنے کے لئے وجوہات اور جواز تحریری طور پر درج کرنا اور اُسے ریکارڈ پر رکھنا ضروری ہے
NDMA نے نیشنل انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ (NITB) سے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (NCOC) میں استعمال کے لئے ریسورس مینیجمنٹ سسٹم (RMS) کی تنصیب کے لئےدرخواست کی ہے تاکہ COVID-19 کی صورتحال اور پورے ملک میں وبائی امراض سے نمٹنے کے لئے دستیاب صحت کی دیکھ بھال کی موجود سہولیات کا جائزہ لیا جاسکے۔ اسی مناسبت سے NDMA اور NITB کے درمیان 8 مئی 2020 کو اس سلسلے میں معاہدہ کیا گیا تھا۔ مزکورہ معاہدہ کے ایک ضمیمہ پر NDMA اور NITB کے درمیان 18 مئی 2020 کو تیسرے فریق کی خدمات حاصل کرنے کے لئے دستخط کئے گئے تھے۔ اس کے بعد NITB نے M/s DICE Analytics کو کوٹیشن کی بنیاد پر ٹھیکہ دیا اور NITB کو NDMA کے ذریعے ادائیگی کی گئی۔
اس ضمن میں آڈیٹر جنرل نے مندرجہ ذیل آبزرویشن دی ہے:
این آئی ٹی بی اور این ڈی ایم اے کے درمیان معاہدہ بلاجواز تھا کیونکہ NITB کے پاس کام کو انجام دینے کی صلاحیت کا فُقدان تھا
NDMA اور NITB کے درمیان پرائیویٹ پارٹی کی خدمات حاصل کرنے کے لئے دستخط کیے گئے ضمیمہ کا بھی کوئی جواز نہیں فراہم کیا گیا
وزارتِ قانون کے ذریعہ ضمیمہ کو جانچ/کلیئر نہیں کیا گیا، اس حقیقت کے باوجود کہ NITB کے ذریعہ تیسرے فریق کی خدمات حاصل کرنے کے لئے ایک غیر معمولی انتظام دونوں فریقوں (NDMA اور NITB) کے درمیان اتفاق کیا گیا تھا
ایک ناقص معاہدے کی وجہ سے مزکورہ انتظامات کی صورت میں ایک نجّی فرم M/s DICE Analytics کو کھلی مسابقت اور مسابقتی بولی کے عمل کے بغیر کوٹیشن کی بنیاد پر 42.525 ملّین روپے کا ٹھیکہ دیا گیا
پی پی آر رولز 42 (iii) (d) کو لاگو کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا کیونکہ NDMA اور NITB نے اس فیصلے پر پہنچنے کے لئے دو ماہ ( مارچ، مئی، 2020) کا وقت لگایا۔ اتنے زیادہ وقت کے ساتھ کوئی وجہ نہیں تھی کہ کھلی مسابقتی بولی نہ لگائی جاسکتی ہو
زیادہ شرحوں پر وینٹی لیٹرز کی خریداری کی وجہ سے سرکاری خزانے کو نقصان۔ 994,000 USD
(صفحہ نمبر 25)
COVID-19 سے متعلق خریداریاں NDMA کے ذریعے تین مراحل میں کی گئیں۔ ICU-وینٹی لیٹر (SV-300) کو اتھارٹی نے چین سے خریداری کے تیسرے مرحلے(Phase-lll) میں خریدا تھا۔ آڈٹ کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ایک ہی وینٹیلیٹر (SV-300) دو مختلف قیمتوں بالترتیب vent/18,999 USD ، اور 26,000/vent USD پر دو چینی فرموں M/s Shenzen Mindray Bio-Medical-OEM اور M/s Sinopharm Fortune Way سے خریدا گیا۔ فی وینٹیلیٹر کی قیمت میں 7,100 USD کا فرق تھا۔ ایک ہی وقت میں ایک ہی سامان کی زیادہ شرح پر خریداری کے نتیجے میں سرکاری خزانے کو 994,000 USD کا نقصان ہوا۔
بغیر جواز کے زیادہ نرخوں پر وینٹی لیٹرز کی خریداری ۔ 27.216 ملّین روپے (صفحہ نمبر 26)
پبلک پروکیورمنٹ رولز 2004 کا قائدہ 23 (1) کہتا ہے کہ پروکیورنگ ایجنسیاں درست اور غیر مُبہم بولی کی دستاویزات تیار کریں گی جو بولی دہندگان کو بولی کی دعوت کی اشاعت کے فوراً بعد دستیاب کردی جائیں گی۔ مزید برآں قائدہ 30 (1) یہ کہتا ہے کہ تمام بولیوں کا جائزہ، جانچ کے معیار اور مقرّرہ بولی کے دستاویزات میں بیان کردہ دیگر شرائط و ضوابط کے مطابق کیا جائے گا۔
این ڈی ایم اے نے آئی سی یو وینٹی لیٹرز (تقریباً 1000)، پور ٹیبل وینٹی لیٹرز (تقریباً 1000) اور BIPAP/ CPAP (تقریباً 2000) کی خریداری کے لئے قومی اخبارات، PPRA، اور NDMA کی ویب سائٹ پر ٹینڈر جاری کیا۔ ٹینڈر دستاویزات کے مطابق پاکستانی روپے کے علاوہ ریٹ فراہم کرنے والے وینڈر کو قبول نہیں کیا جانا تھا۔ NDMA نے بولی کی دستاویز میں وینٹی لیٹرز کی تفصیلات کا ذکر نہیں کیا۔ 10 اور 11 مئی 2020 کو میسرز فضل دین ٹریڈ سالیسیٹر (FTS) انٹرنیشنل کو 600 یونٹس کے ورک آرڈر جاری کئے گئے تھے۔
آڈٹ کے دوران یہ دیکھا گیا کہNDMA نے صرف BIPAP/CPAP کے کیس پر کاروائی کی۔ مبہم تفصیلات کی وجہ سے ملک بھر میں موجود 49 سپلائرز نے ٹینڈر کے BIPAP/CPAP زمرے میں حصّہ لیا اور 150,300 روپے سے 3,212,085 روپے تک کی قیمتوں کے ساتھ وینٹ کے مختلف ماڈلز کا حوالہ دیا۔ کسی بھی فرم نے ٹینڈر کی بنیادی ضروریات کو پورا نہیں کیا اور وینٹیلیٹرز کی تکنیکی خصوصیت کا حقیقت میں موازنہ کرنے کے لئے وینٹیلیٹرز کا کوئی تقابلی تجزیہ نہیں کیا گیا۔
یہ کام M/s FTS (دوسرے سب سے کم) کو دیا گیا، حالانکہ M/s Noha سب سے کم بولی لگانے والا سپلائر تھا۔ 195,660 روپے فی یونٹ کی شرح سے 117,396,000 روپے کی رقم 600 یونٹس کی ترسیل کے لیے M/s FTS کو ادائیگی کی گئی۔ 6 جون، 2020 کی ٹیکنیکل/پرچیز کمیٹی کے منٹس پر بھی صدر پرچیز کمیٹی کے دستخط نہیں تھے، مزید یہ کہ منٹس میں M/s FTS انٹرپرائز کو زیادہ نرخوں پر کام دینے کے فیصلے اور جواز کے بارے میں خاموشی ہے۔
فنڈز کا غیر مجاز روکے جانا اور استعمال۔ 4 USD ملین (صفحہ نمبر 29)
GFR کے قاعدہ 10 (i) کے مطابق ہر سرکاری افسر سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ عوامی پیسوں کے اخراجات کے سلسلے میں ویسا ہی رویہ اختیار کرے گا جیسا کہ عام سمجھدار شخص اپنے پیسوں کے خرچ کے سلسلے میں اختیار کرتا ہے۔ مزید برآں قاعدہ 96 کے مطابق یہ ریاست کے مفاد کے خلاف ہے کہ عوام کے ٹیکس کے پیسہ کوعجلت میں یا محض اس وجہ سے خرچ کیا جائے تاکہ گرانٹ کو ضائع ہونے سے بچایا جاسکے۔ مفادِ عامّہ میں وہ گرانٹس جن کا فائدہ مند استعمال نہیں کیا جاسکتا اُن کو (سرکار کو) واپس کر دینا چاہئے۔
چین نے 250 بستروں پر مشتمل آئسولیشن ہسپتال اور انفیکشن ٹریٹمنٹ سینٹر (IHITC) کی تعمیر کے لئے 4 ملین امریکی ڈالر کا عطیہ دیا۔ NDMA نے FWO کو تعمیراتی کام تفویض کیا جس میں کمپلیکس کی تعمیر اور مریضوں کے وارڈز کا فرنیچر اور اُس کی فرنشنگ شامل تھی۔ FWO کو دو قسطوں میں 600 ملّین روپے موبلائزیشن ایڈوانس کے طور پر جاری کیے گئے۔
آڈٹ کے دوران یہ دیکھا گیا کہ IHITC کی تعمیر کے لئے چین سے ملنے والی گرانٹ کو استعمال کرنے کی بجائے، NDMA نے ہسپتال کی تعمیر کے لئے کوویڈ19 کے فنڈ کا استعمال کیا۔ نتیجتاً چین سے ملنے والی گرانٹ NDMA کے پاس غیر استعمال شدہ پڑی رہی۔ اس کے علاوہ، FWO کو ادا کی گئی موبلائزیشن ایڈوانس کے خلاف واؤچڈ اکاؤنٹس بھی حاصل نہیں کئے گئے۔
وینٹیلیٹرز کی خریداری کے سلسلے میں چینی فرم کو 700,000 USD کی اضافی ادائیگی (صفحہ نمبر 30)
NDMA نے سائنو فارم فارچون انٹرنیشنل ٹریڈنگ کارپوریشن چائنا سے تین مختلف قسم کے 80 وینٹیلیٹرز خریدے۔ 80 وینٹیلیٹرز کی کُل قیمت 1,277,000 امریکی ڈالر تھی۔ NDMA اور NDMA کی ٹکنیکل پروکیورمنٹ کمیٹی نے اُن کی متعلقہ قیمت اور مقدار کے ساتھ وینٹیلیٹرز کی خریداری کی منظوری دی۔
آڈٹ کے دوران یہ دیکھا گیا کہ فرم نے 1,277,000 USD کی بجائے 1,977,000 USD کی رسید تیار کی اور NDMA کی طرف سے کُل منظور شدہ قیمت کی تصدیق کے بغیر مانگی گئی رقم پیشگی ادا کی گئی۔ وینڈر کی انوائس پر ادا کی گئی کُل رقم 1,977,000 USD تھی، جو اصل واجبل ادا رقم یعنی 1,277,000 USD سے زیادہ تھی۔ چینی فرم کو کی گئی زائد ادائیگی کی وجہ سے 700,000 امریکی ڈالر کی اضافی ادائیگی ہوئی
فریٹ چارجز کی عدم وصولی ۔ 8.117 ملّین روپے (صفحہ نمبر 31)
NDMA نے کوویڈ 19 وبائی امراض کے دوران چین سے طبّی سامان ہوائی جہاز کے ذریعے اُٹھایا۔ NDMA کی جانب سے دو ذرائع سے خریداری کی گئی، ایک NDMA نے چین میں اوریجنل ایکوپمنٹ مینوفیکچرر (OEM) سے رابطہ کیا گیا اور یہ خریداری چین میں موجود پاکستانی سفارتخانہ کے ذریعے مکمل کی گئی۔ دوئم، سپلائرز سے پاکستان میں اس شرط کے ساتھ رابطہ کیا گیا کہ وہ OEM سے چین میں پاکستانی سفارتخانے میں طبّی سامان فراہم کریں گے۔ دونوں صورتوں میں طبّی سامان چین کے NDMA کے گودام میں رکھا گیا تھا اور بعد میں NDMA نے سامان کو چین میں موجود گودام سے ایئر لفٹ کر کے پاکستان پہنچایا۔
آڈٹ کے دوران یہ دیکھا گیا کہ NDMA نے چین سے دیگر اداروں کی طرف سے منگوائی گئی 20 اشیاء کے فریٹ چارجز بھی ادا کئے جنھیں NDMA نے ایئر لفٹ کیا تھا۔ متعلقہ اداروں سے فریٹ چارجز کی وصولی کے حوالے سے ریکارڈ دستیاب نہیں تھا۔ فریٹ چارجز کی عدم وصولی کے نتیجے میں NDMA کو 8.117 ملّین روپے کا نقصان ہوا۔
مجاز اتھارٹی کی منظوری حاصل کئے بغیر کئے گئے اخراجات۔ 290 ملین روپے (صفحہ نمبر 32)
NDMA نے IHITC کی تعمیر کے لئے 200 ملین روپے اور 90 ملین روپے حاجی کمپلیکس، راولپنڈی کی تزئین و آرائش، کراچی میں قرنطینہ سہولیات کی فراہمی، اور نیشنل کنٹرول روم کے قیام کے لئے FWO کو منتقل کیے۔
آڈٹ کے مطابق،
دونوں ادائیگیاں مجاز اتھارٹی کی منظوری حاصل کئے بغیر FWO کو جاری کی گئیں
فائنانس ونگ، NDMA نے مورخہ 29 مارچ، 2020 کے ایک نوٹ میں حقائق بتائے ہیں کہ کلیم کے ساتھ منظوری کا خط، انوائس، بینک گارنٹی، پرفارمنس گارنٹی، پرچیز آرڈرز، ٹیکس میں چھوٹ اور انتظامی اور مالیاتی منظوری منسلک نہیں ہے۔ ان تضادات کے باوجود NDMA نے FWO کو 290 ملین روپے ادا کئے۔
ایڈوانس کی عدم ایڈجسٹمنٹ ۔ 690 ملین روپے (صفحہ نمبر 33)
NDMA نے اسلام آباد میں 250 بستروں پر مُشتمل آئسولیشن ہسپتال اور انفیکشن ٹریٹمنٹ سینٹر کی تعمیر کل 989 ملین روپے میں دی۔ اس سلسلے میں NDMA نے FWO کو دو قسطوں میں 600 ملین روپے کی پیشگی ادائیگیاں مالی سال 2019-20 کے اختتام تک موبلائزیشن ایڈوانس کے طور پر کیں اس طرح حاجی کمپلیکس راولپنڈی کی تزئین و آرائش، کراچی میں قرنطینہ کی سہولیات کی فراہمی، اور نیشنل کنٹرول روم کے قیام کے لئے 90 ملین روپے جاری کئے
آڈٹ میں یہ سامنے آیا کہ،
واؤچد اکاؤنٹ/ ادائیگی واؤچر FWO سے حاصل نہیں کئے گئے
NDMA نے30 جون 2020 تک FWO کو جاری کردہ پیشگی ادائیگیوں کو ایڈجسٹ نہیں کیا ہے
آڈٹر کا خیال ہے کہ FWO سے واؤچڈ اکاؤنٹ حاصل نہ کرنا اور ایڈوانسز کو ایڈجسٹ نہ کرنا جنرل فائنانشل رولز میں وضع کردہ اصولوں کے منافی ہے۔
4.00 ملین روپے کی غیر مجاز ادائیگی اور اس کی عدم وصولی (صفحہ نمبر 34)
DDMA اسلام آباد نے 11اپریل، 2020 کو نقی موٹرز کے اُس دعوے کو مسترد کردیا جس میں مسافر کے ٹرانسپورٹ چارجز بتائے گئے تھے۔ بینک اسٹیٹمنٹ کی جانچ پڑتال کے دوران، تاہم یہ دیکھا گیا کہ 20 اپریل، 2020 کو بینک سے 4.00 ملین روپے نکالےگئے تھے، اس حقیقت کے باوجود کہ وینڈر کے دعوے کو تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔
آڈٹ کا خیال ہے کہ وینڈر کو اتھارٹی کی منظوری کے بغیر اور کسی معاون دستاویزات کے بغیر ادائیگی بے قائدہ تھی اور کمزور اندرونی کنٹرول کی نشاندہی کرتی ہے۔
ریکارڈ کی عدم فراہمی (صفحہ نمبر 35)
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے ذریعے NDMA کے آڈٹ کے دوران، NDMA انتظامیہ سے مختلف قابلِ آڈٹ ریکارڈ طلب کئے گئے تھے۔ بار بار تحریری اور زبانی درخواستوں کے باوجود کافی تعداد میں ریکارڈ اور متعلقہ دستاویزات آڈٹ کی جانچ پڑتال کے لئے پیش نہیں کیے گئے۔
اسٹامپ ڈیوٹی عائد نہ کرنے سے حکومت کو 48.65 ملین روپے کا نقصان (صفحہ نمبر 36)
NDMA نے مالی سال 2020-19 کے دوران متعدد سپلائرز کو کوویڈ 19 سے متعلقہ خریداری کے سلسلے میں سامان اور خدمات کی خریداری کے لئے معاہدے کیے اور ورک آرڈر جاری کیے جن کی رقم 19.46 بلین روپے تھی۔
آڈٹ کے دوران دیکھا گیا کہ اسٹامپ ایکٹ کے تحت لگائی گئی ڈیوٹی کی وصولی نہیں کی گئی جس کے نتیجے میں حکومت کو 25 پیسے کے حساب سے 48.65 ملین روپے کا نقصان ہر ایک سو روپے یا کنٹریکٹ کی رقم کے کچھ حصے پر ہوا۔ اسٹیمپ ایکٹ کے تحت مطلوبہ اسٹیمپ ڈیوٹی کا عدم نفاز اور اُس کی عدم وصولی نہ صرف ایکٹ کی خلاف ورزی تھی بلکہ اس سے حکومتی محصولات کو بھی نقصان پہنچا۔
اشیاء اور خدمات پر جنرل سیلز ٹیکس کی عدم کٹوتی۔ 328.903 ملین روپے(صفحہ نمبر37)
NDMA نے مختلف سپلائر فرموں سے کوویڈ 19 سے متعلق مختلف اشیاء خریدیں۔ سیلز ٹیکس اسپیشل پروسیجر (ودہولڈنگ) رولز 2007 کے مطابق NDMA ودہولڈنگ ایجنٹ ہونے کے ناطے، ادائیگی کرتے وقت 1,938.426 ملین روپے کی سپلائیز پر جی ایس ٹی کاٹنا ضروری تھا۔
آڈٹ کے دوران یہ دیکھا گیا کہ NDMA نے اُن سپلائرز کے بلوں سے GST کی کٹوتی نہیں کی تھی جو SRO No. 237(l) / 2020 مورخہ 20 مارچ، 2020 کے مطابق GST سے مُستثنیٰ نہیں تھے۔ NDMA کو مخصوص شرحوں پر GST ودہولڈ کرنے کی ضرورت تھی۔ نتیجتاً حکومت کو 328.903 ملین روپے ٹیکس محصولات میں نقصان اُٹھانا پڑا۔
NDMA کی طرف سے کمزور کانٹریکٹ مینجمنٹ ( صفحہ نمبر 39)
NDMA کو COVID-19 سے متعلقہ اشیاء جیسے PPEs، بائیومیڈیکل آلات، اور ٹیسٹنگ کٹس کی خریداری کے دوران سپلائر فرموں کے ساتھ معاہدوں اور معاہدوں میں داخل ہونے کے دوران طے شدہ عمومی اُصولوں پر عمل کرنے کی ضرورت تھی۔
آڈٹ کے دوران مشاہدہ کیا گیا:
200 معاملات میں سپلائر فرموں کے ساتھ بروقت معاہدے پر دستخط نہیں کئے گئے
معاہدے پر دستخط کومحض رسمی طور پر سمجھا گیا اور بلوں پر حتمی ادائیگیوں کے لئے معاہدے پر دستخط کیے بغیر کاروائی کی گئی
کانٹریکٹ میں دی گئی شرائط و ضوابط کو پورا کیے بغیر بلوں پر کاروائی کی گئی۔
زیادہ تر معاملات میں ڈیلیوری کی ٹائم لائنز کا مشاہدہ نہیں کیا گیا۔ اس حقیقت کے باوجود کہ ایمرجنسی کے دوران پروکیورمنٹس کی بروقت فراہمی ضروری تھی
دیر سے ڈیلیوری اور جزوی سپلائی کے باوجود وینڈرز پر 134 کیسز میں جُرمانے عائد نہیں کئے گئے۔
214 کیسز میں کوالٹی سرٹیفیکیشن رپورٹس حاصل نہیں کی گئیں
11 معاملات میں DESTO/PCSIR کے علاوہ نجّی لیبز کی رپورٹس کو قبول کیا گیا۔ جبکہ 4 کیسز ایسے تھے جن میں نجّی لیبز کی جانب سے جاری کردہ ایسی ٹیسٹ رپورٹس کو قبول کیا گیا جو ایک سال پرانی تھیں
زیادہ تر معاملات میں وینڈرز سے کارکردگی کی گارنٹی حاصل نہیں کی گئی
NDMA کے ذریعے تعزیری شق اور جُرمانہ عائد کئے بغیر معاہدے منسوخ کردیے جاتے ہیں
سپلائی کرنے والی فرموں پر Liquidated damages (LD)کا عدم نفاز ( 2469.135 ملین روپے، 8.333 USD ملین ( صفحہ نمبر 40)
آڈیٹر جنرل کے مطابق 123 کیسز میں 2469.135 ملین روپے کی رقم، اور گیارہ کیسز میں 8.333 ملین ڈالر کی رقم کی وصولی نہیں کی گئی۔ یہ عمل معاہدوں اور خریداری کے آرڈرز میں درج شقوں کے بر خلاف تھا۔
مناسب و محفوظ ضمانتوں کے بغیر سپلائرز کو ایڈوانس کی بے قاعدہ ادائیگی ( صفحہ نمبر 41)
NDMA کے کانٹریکٹ دستاویز کے معیار کے مطابق ، سپلائر فرمز کو پیشگی ادائیگی A-rated بینک گارنٹی کے بدلے جاری کی جانی تھی۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق COVID-19 سے متعلقہ خریداری کے دوران NDMA نے مختلف سپلائرز سے 22 اشیاء کی خریداری کے خلاف کُل معاہدے کی رقم کا 80% تک پیشگی ادائیگی جاری کی۔
ان ادائیگیوں کے بارے میں آڈیٹر جنرل نے مندرجہ ذیل رائے پیش کی:
NDMA نے بینک گارنٹیاں حاصل کئے بغیر سپلائرز کو پیشگی ادائیگی کی ہے
NDMA نے بینک گارنٹی کی بجائے انشورنس کمپنیوں کی گارنٹی کے خلاف بھی ایڈوانس ادا کیا
کچھ معاملات میں “A” سے کم ریٹنگ والے بینکوں/ بیمہ کمپنیوں کی ضمانتیں بھی قبول کی گئیں
کچھ معاملات میں سپلائی کرنے والوں کو کراس شدہ چیکوں کے بدلے ایڈوانس ادا کیا گیا
آڈیٹر جنرل کے خیال میں معاہدے کی ضروریات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایڈوانس کا اجراء بے قاعدگی تھی۔
IHITC میں طبّی عملے کے جوائن نہ کرنے کی وجہ سے اضافی اخراجات اور نتیجے میں ہونے والا نقصان ( صفحہ نمبر 47)
فیڈرل گورنمنٹ پولی کلینک اسلام آباد نے 18 جون، 2020 کو اور وزارتِ نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشنز اینڈ کوآرڈینیشن نے17 جون، 2020 کو ایک خط کے ذریعے 61 ڈاکٹرز/پیرامیڈیکل اسٹاف/ٹیکنیشن/انتظامی عملے کو IHITC میں ڈیوٹی کے لئے مُختص کیا۔ IHITC ایک 250 بستروں کا اسپتال تھا جسے NDMA نے تعمیر کیا تھا۔
آڈٹ کے دوران جب IHITC کا دورہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ تعینات کیے گئے عملے نے جوائن ہی نہیں کیا۔ NDMA نے COVID-19 کے وبائی مرض کی قومی ایمرجنسی کے دوران 50 ملین روپے کی لاگت سے قطب فاؤنڈیشن کو IHITC کو چلانے کے لئے engage کیا تھا۔ ڈاکٹرز/پیرا میڈیکل اسٹاف/ ٹیکنیشن/ انتظامی عملے کا جوائن نہ کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا اور اہم بات یہ ہے کہ طبّی عملے کی عدم تعمیل غیر ضروری اخراجات اور حکومت کو نقصان کا باعث بنی۔
قارئین COVID-19 پر حکومتِ پاکستان کو دنیا بھر سے امداد ملی جس کو مختلف حکومتی محکموں کے ذریعے خرچ کیا گیا۔ NDMA اُن میں سے ایک محکمہ تھا۔ مندرجہ بالا تحریر NDMA کے اخراجات کے آڈٹ کا سرسری جائزہ تھا ضرورت اس امر کی ہے کہ COVID-19 پر کئے گئے مکمل اخراجات کا تجزیہ کیا جائے تاکہ سرکاری اداروں میں جوابدہی کا احساس پیدا ہو اور عوام کے پیسوں کا صحیح استعمال کیا جائے۔
عورت کا سلیقہ
میری سَس کہا کرتی تھی ۔ "عورت کا سلیقہ اس کے کچن میں پڑی چُھری کی دھار بتادیتی ہے ،خالی...