“بین البراعظمی تباہ کن میزائل کا کامیاب تجربہ۔ میزائل کی رینج پانچ ہزار کلو میٹر ہے، ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے” بڑے ملک کے فوجی سائنسدان کا اعلان۔
“ ہمارا میزائل پروگرام دشمن سے دس گنا بہتر ہے۔ دشمن کا ہر شہر ہمارے نشانے پر ہے۔ پانچ منٹ میں دشمن کو صفحہ ہستی سے مٹاسکتے ہیں۔ “ صدر اور وزیر اعظم کا سائنسدانوں کو خراج تحسین۔
“ ایران باز آجائے ورنہ اس کا نام و نشان بھی باقی نہ رکھیں گے” امریکی صدر
“ دنیا بھر میں امریکی مفادات کو نشانہ بنائیں گے” ایرانی سپریم لیڈر
“سعودی عرب باز آجائے” ایرانی سپہ سالار
“ ایران باز آجائے، ورنہ۔۔۔” سعودی شہزادے کا بیان۔
“ چین کی معیشت ہمارے معاشی مفادات کے لئے خطرہ ہے” امریکی ماہر اقتصادیات
“ امریکی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے” ایشیائی ملک کے ماہرین معیشت کا اظہار اطمینان
امریکہ کے پاس چھ ہزار سے زیادہ ایٹمی ہتھیار ہیں اور ہزار سے زیادہ نصب کردئیے گئے ہیں۔
روس کے پاس امریکہ سے زیادہ ایٹمی ہتھیار ہیں۔
دنیا میں کل نو ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں۔ ہمارے پاس چھٹے نمبر پر سب سے زیادہ اور کارآمد ہتھیار ہیں۔ پاکستان کو نیوکلئیر ہتھیاروں میں بھارت پر برتری حاصل ہے۔
یہ بیانات اور خبریں شاید بالکل ایسی نہ ہوں لیکن اس قسم کی خبریں اور دعوے ہم دن رات سنتے رہتے ہیں۔ لگتا ہے کہ ہماری ساری کوشش دوسرے انسان کو تباہ و برباد کرنے کی ہے۔ چاہے وہ ہتھیاروں کی دوڑ ہو یا معاشی مسابقت ۔ یوں لگتا ہے کہ انسانیت کی بقا ، انسانوں کو تباہ کرنے میں ہے۔
اور اب ذرا آج کل کی خبریں سنیں۔
“ چین میں وبا پھوٹ پڑی۔ کرونا وائرس نے ہزاروں کی جان لے لی، لاکھوں متاثر، معیشت تباہ”
“ ایران میں کرونا سے ہلاکتیں قابو سے باہر ہوتی جارہی ہیں”
“ چین کے بعد اب یورپ بھی کرونا کی زد میں، اٹلی میں سب سے زیادہ ہلاکتیں”
اور یہ بیانات بھی سنئیے۔
“ یہ ایک عالمی اور انسانی المیہ ہے۔ ساری دنیا کو مل کر اس کا مقابلہ کرنا ہوگا” عالمی ادارہ صحت
“ کرونا سے نمٹنے کے لئے غریب ممالک کی مدد کی جائے”
“ ہمارے پاس کرونا کا مقابلہ کرنے کے زرائع نہیں ہیں۔ ہمارے قرضے معاف کئے جائیں”
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کسی کی
اگرچہ گفتگو مبہم نہیں ہے
رونا کس بات کا ہے؟ یہی تو ہماری ساری کوششیں تھیں، اس کو تباہ کردو، اس کو صفحہ ہستی سے مٹا دو۔ ہمارا ایٹمی پروگرام، ہمارا میزائل پروگرام ، ہماری آن ہماری شان۔
امریکہ کو جشن منانا چاہئیے کہ چین کی معیشت کا بھٹا بیٹھ گیا۔ سعودی عرب بھنگڑے ڈالے کہ ایرانی مر رہے ہیں۔ ایرانی لڈیاں ڈالیں کہ مقامات مقدسہ پر سعودیوں کی چودھراہٹ بند ہوگئی، چاہے عارضی ہی سہی۔
یہی تو ہم سب چاہتے تھے، ایک دوسرے کو تباہ کرنا۔ لو اب تباہی خود چل کر آگئی ہے۔ تمہیں اپنے ہتھیاروں کو ، اپنے میزائلوں کو تکلیف دینے کی ضرورت نہیں ۔ دونوں بڑی جنگوں میں اتنے ملک متاثر نہیں ہوئے جتنے اس بلا نے اپنی لپیٹ میں لے لئے ہیں۔ تمہیں اور کیا چاہئیے ؟
اور امریکہ ، برطانیہ، چین اور روس کو تو چھوڑیں ۔ وہ تو ایک میزائل پر پچیس کروڑ رویئے خرچ کریں تو بھی ان کا دفاعی بجٹ کل قومی اخراجات کا بمشکل دو یا ڈھائی فیصد ہوتا ہے۔ لیکن ہمیں کیا ہوا ہے۔ صحت پر ایک فیصد سے بھی کم، تعلیم پر مشکل سے تین فیصد لیکن دفاع پر اٹھارہ سے بیس فیصد اخراجات۔۔ساتھ ہی یہ فخر کہ ہمارے میزائل زیادہ تباہ کن ہیں۔
دوسری طرف ہمارا پڑوسی۔ اللہ جانے کس بات کا غرور۔ اپنے آپ کو دنیا کی تیسری چوتھی بڑی معیشت سمجھتا ہے۔ اپنی فوجی طاقت کا گھمنڈ، آئے دن ہمارا نام و نشان مٹانے کی دھمکی دینے والا۔ اور حالت یہ ہے کہ آدھی سے زیادہ آبادی کو بیت الخلاء نصیب نہیں، دن ہو یا رات، بمبئی جیسے شہر میں سینکڑوں نہیں، ہزاروں، مرد، زن ، سمندر کنارے، کھلے میدانوں اور ریل کی پٹریوں کے ساتھ رفع حاجت کرتے نظر آتے ہیں۔ فٹ پاتھوں ، سڑکوں ، بازاروں میں لاکھوں آدمی کھلے آسمان تلے سو رہے ہوتے ہیں۔ جہاں پینے کے لئے غلاظت بھرے دریاؤں کا پانی بھی بمشکل میسر آتا ہے۔
اور ہم، دنیا کی چھٹی یا ساتویں ایٹمی طاقت، تعلیم اور صحت میں اس ننگے بھوکے پڑوسی سے بھی پیچھے، لیکن یہ اکڑ کہ ہمارے پاس ان سے زیادہ ایٹم بم ہیں۔ اور جب کرونا کی مصیبت آئی تو ہاتھ اٹھا دئیے کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے، ہم غریب ہیں ، نادار ہیں۔ امیر ملک کچھ نہیں کرسکتے تو ہم کیا کر سکیں گے۔
شاید کرونا نے اس دنیا کا، اس دوغلی دنیا کا ، کان مروڑا ہے کہ تم یہی چاہتے تھے ناں۔ ایک دوسرے کو ختم کرنا۔ ایک دوسرے کو تباہ کرنا، اپنی ٹانگ اونچی رکھنا، لو خوش ہو جاؤ میں تمہارا کام کررہا ہوں ۔ لوگ مر بھی رہے ہیں،بے روزگار ہورہے ہیں ، بھوکے مر رہے ہیں، تباہ بھی ہورہے ہیں۔ سب کی اکڑفوں ختم ہورہی ہے، سارے بھکاری، مجبور اور لاچار نظر آرہے ہیں ۔
اور یہ جو ہماری آنکھیں سائنس کی ترقی سے خیرہ ہوئی جارہی تھیں۔ ہم جو اپنے آپ کو علٰی کُلِّ شئیٍ قدیر سمجھنے لگے تھے، اپنے مالک کو، خالق کو بھلا بیٹھے تھے۔ آج دنیا کی سب سے بڑی، سپر پاور کا سربراہ بھی “ یوم دعا” منانے کے لئے کہتا ہے۔ آج دنیا کو سمجھ آگئی ہے کہ کون ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے۔ مجھ جیسے کمزور ایمان والے، جمعہ کی جمعہ مسجد میں جھانکنے والے، آج مسجدوں کے بند ہونے پر نوحہ خواں ہیں۔ زندگی میں کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ جمعہ کے دن غسل کرنے، دھلے کپڑے پہننے، عطر لگانے، جلد مسجد پہنچ کر اگلی صف میں بیٹھنے کی فکر نہیں کرنا ہوگی۔ اس بے فکری نے تو آج رُلا دیا۔ اے میرے مالک ہم تو گئے گذرے تھے، اب تو تجھ سے مانگنے سے بھی گئے۔ جائیں تو جائیں کہاں؟
لیکن شاید قدرت اسی طرح سبق سکھاتی ہے۔انہیں جو سیکھتے نہیں ۔انہیں بہت مشکل سبق سکھاتی ہے۔ دنیا کو اپنی ترجیحات بدلنی ہوں گی۔ جنگی بجٹ سے زیادہ صحت اور تعلیم پر اگر نہیں خرچ ہورہا تھا تو اب ہو۔ ایک حقیرجرثومے سے تم نہیں لڑ سکتے تو تمہارے میزائل ، تمہارے بم ،تمہیں کونسی زندگی کی ضمانت دے سکتے ہیں۔
لڑنا ہی ہے تو بیماری سے لڑو، بھوک سے لڑو، غربت سے، جہالت سے لڑو۔ شاید یہ مصیبت انسانوں کو انسانیت کی طرف لوٹادے۔ اپنے خالق کی پہچان کرادے، خانہ خدا بند ہے تو آج شر اور برائی کے اڈے بھی بند ہیں۔ خاندان ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں۔ دوسروں کے دکھ کا، تکلیف کا، بیماری کا اور بھوک کا احساس پہلے سے بڑھ کر ہورہا ہے کہ سب ایک سے دُکھی ہیں۔ مردار اور حرام کھانے سے نفرت بڑھ رہی ہے اور پاک صاف اور سادہ غذا کی طرف توجہ ہورہی ہے۔
انسان اٹھنا بیٹھنا سیکھ رہے ہیں۔ کیسے جسم و جاں کو، لباس کو، ماحول کو صاف رکھنا ہے، صفائی جتنی خود کے لیے ضروری ہے اب دوسروں کے لیے بھی اتنی ہی ضروری ہے۔ دوسرے بیمار ہوئے تو ہم بھی ہوسکتے ہیں۔ منہ کھول کر کھانسنے چھینکنے والے اب کھانسنے، چھینکنے کی تمیز سیکھ رہے ہیں۔
فضولیات میں وقت ضائع کرنے کی بجائے گھر پر رہو، اپنے پیاروں کے ساتھ وقت گذارو، سادہ زندگی، سادہ غذا اختیار کرو۔۔اور سب سے بڑھ کر۔۔۔اپنے رب سے لو لگاؤ، گڑاگڑا کر معافی مانگو، اس کی بڑائی کو تسلیم کرو اور اس کا اعلان کرو۔
یہ وقت بھی گذر جائے گا۔ آج نہیں تو کل، زندگی اپنی جانب لوٹ آئے گی۔
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا (5)
پس بے شک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔
اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا (6)
بے شک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔
تمھارے نام آخری خط
آج سے تقریباً پندرہ سال قبل یعنی جون 2008میں شمس الرحمٰن فاروقی صاحب نے ’اثبات‘ کااجرا کرتے ہوئے اپنے خطبے...