ساری دنیا کورونا وایریس کی زد میں ہے۔اس وقت یورپ اور باقی مغربی دنیا میں اس کے خطرناک اثرات زیادہ ہیں ۔تاہم مشرقی دنیا بھی اس وایریس کی لپیٹ میں ہے۔ایسے ماحول میں شوبزسٹارز ہوں یا سپورٹس سٹارز، صحافی ہوں یا شاعر ادیب سب اپنی اپنی ہمت اور توفیق کے مطابق خوف کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ایسے ماحول میں ادب و صحافت کی دنیا سے زندہ دلی کی ایک دلچسپ خبر آئی ہے۔سب سے پہلے یہ خبر ایبٹ آباد سےڈاکٹر عامر سہیل نے بھیجی۔
"بی بی سی کے معروف براڈ کاسٹر یاور عباس نے کل لندن میں مصنفہ اور ڈائریکٹر نور ظہیر سے شادی کرلی. نور ظہیر، سید سجاد ظہیر اور رضیہ سجاد کی بیٹی اور نادرہ ببر کی بہن ہیں. یاور عباس چھ ماہ بعد ستمبر میں 100 ویں سالگرہ منائیں گے. انہوں نے انگریزوں کے زمانے میں فوج میں کمیشن حاصل کیا اور پاکستانی فوج میں بھی میجر رہے. 1949 میں لندن چلے گئے اور بی بی سی کا حصہ بن گئے."……..پھر یہی خبر جرمنی سے طاہر عدیم صاحب نے بھیجی۔اور آسٹریلیا سے وقاص سعید نے شئیر کی۔شادی ہر انسان کا ذاتی معاملہ ہے تاہم کرونا کی یلغار کے موسم میں اس شادی کو زندہ دلی کی مثال کہا جا سکتا ہے ۔یہاں مجھے سجاد ظہیر کا افسانہ "جنت کی بشارت" یاد آیا۔اس میں ایک مولوی صاحب نے خود سے بیس برس کم عمر کی لڑکی سے شادی کی تھی اور سجاد ظہیر نے اسے طنز کا نشانہ بنایا تھا۔اب دلچسپ بات یہ ہے کہ نور ظہیر کے شوہر یاور عباس، ان سےعمر میں لگ بھگ چالیس سال بڑے ہیں ۔سجاد ظہیر اس فرق کو دیکھتے تو اپنے افسانے میں مولوی صاحب پر کیے گئے طنز پر نظر ثانی ضرور کرتے۔میری طرف سے نور ظہیر اور یاور عباس کو اس شادی کی مبارک باد!
اس بار امریکہ سے صادق باجوہ کی تازہ غزل اور آسٹریلیا سے ڈاکٹر ریاض اکبر کی تازہ نظم"تمہارا میں " پڑھنے کو ملیں۔پہلے صادق باجوہ کی غزل پیش ہے۔
قدم قدم پہ رہے گو میان وہم و گماں
ہے جستجوئے یقیں کا بھی سر پہ بار گراں
ہزار بار مٹانے پہ بھی ابھرتے ہیں
جو دل پہ نقش ہیں لمحے مٹا سکیں گے کہاں
خبر نہیں کوئی پرسانِ حال ہو کہ نہ ہو
چلے ہیں چاک گریبان مثلِ در بدراں
یہ بے قراری تو ہر لمحہ بڑھتی جاتی ہے
کسی طرح سے ہو کچھ تو تلافیءہجراں
ابھی تو زخم تمنا سلگ رہے ہیں کہیں
کبھی تو خواب تمنا بھی ہوگی شعلہ فشاں
ابھی تو طاق طلب پر اسے سجانا ہے
یہ سوز تشنہ لبی چھوڑ کر چلے ہو کہاں
جو دل پہ قرض سمجھتے تھے ہم اتار آئے
ستا سکے گی نہ اب ہم کو فکر سودو زیاں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اب ڈاکٹر ریاض اکبر کی نظم " تمہارا میں " ملاحظہ کریں ۔
تمہارا مَیں
تو ایک جاگتا لمحہ، تو اک کرن کی نگاہ
فصیلِ وقت کی پہنائیوں کو چیر کے جو
تلاشِ ذات کے شہرِ فسوں میں در آئی
کہ میرے قرب سے ٹکرا کے، منعکس ہو کر
تو اپنے آپ کا ادراک کر سکے شاید
مگر اے دوست، تجھے علم ہے کہ تیرا مَیں
یہ تیرے ذوق کی خوشبو مزید کچھ بھی نہیں
ترے خیال کا جادو مزید کچھ بھی نہیں
تصورات کے عالم میں تیرتا لمحہ
بس ایک سوچ کا پہلو مزید کچھ بھی نہیں
تلاشِ ذات کے شہرِ فسوں میں اترے ہم
اگر ملے بھی تو ہجراں نصیب کیا ہونگے
یونہی وجود کا احساس ہی تو ہیں دونوں
کہ فاصلوں سے مرتب قریب کیا ہونگے؟!
…………………………………
جرمنی میں مقیم گیت نگار اور شاعر اسحاق ساجد کے گیتوں کا دوسرا مجموعہ "برکھا من میں آگ لگائے "چھپ کر جرمنی میں پہنچ گیا ہے اور یہاں کے ادبی حلقوں میں زیرِ گفتگو ہے۔مجموعی طور پر اسحاق ساجد کے چار شعری مجموعے چھپ چکے ہیں ۔"جمالِ دوست"،"جشنِ ہجراں "،"گیت میرے میت" اور "برکھا من میں آگ لگائے "…..آخر میں تازہ مجموعے سے اسحاق ساجد کا ایک گیت پیش ہے۔
گیت
۔۔۔۔۔۔۔
گیت برہ کے گاؤں سكهی ری
چھم چھم نیر بہاؤں ۔۔۔
ڈھونڈوں اس کو نگر نگریا
پہروں بیچ بجریا
کہاں یہ چھپ جا بیٹھا ہے
وہ بے درد سنوریا
مکھڑے پر چھا جائے اداسی
اسے نہ جب میں پاؤں
چھم چھم نیر بہاؤں۔۔۔۔
کہیں کسی سوتن کی اس کو
لگ نہ جائے نجریا
یہی سوچ کر ہوئی باوری
بدل نہ جائے سنوریا
سجھائی دے جب کچھ نہ سکھی ری
من ہی من گھبراؤں
گیت برہ کے گاؤں سکھی ری
چھم چھم نیر بہاؤں ۔۔