کرونا کا وائرس جب پہلی بار پاکستان میں داخل ہوا تو ایک طرح سے پورے ملک میں اس کی دہشت پھیل گئی ۔ لوگ خوف سے تھر تھر کانپنے لگے سب سے زیادہ علمائے کرام کا " نیم ملا " طبقہ پریشان ہوا ۔ پھر یوں ہوا کہ ان نیم ملائوں نے رات 10بجے اذان دینے کا سلسلہ شروع کر دیا ان کا کہنا تھا کہ اس سے یہ موذی مرض بھاگ جائے گا حالانکہ اذان دینے کا یہ وقت مرغوں کا تھا۔ ہمارے ان نیم ملا حضرات نے مرغوں کی جگہ سنبھال لی ۔پھر دیکھا دیکھی میں دن ہو یا رات بچوں نے بھی گھروں میں، مسجدوں میں اور راہ چلتے اذانیں دینا شروع کر دی ۔ ان حضرات کے دعوے کے مطابق بے وقت کی اذان سے کورونا کو پاکستان سے بھاگ کر راہ فرار اختیار کرنا چاہیے تھا مگر سب کچھ اس کے برعکس ہونے لگا ۔ کورونا بے وقت کی اذان کی پرواہ کیے بغیر اپنے پنجے گاڑنے لگا اور اس کے پھیلاؤ میں مسلسل تیزی آنے لگی ۔ بقول شاعر
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
جب مرض حد سے بڑھنے لگا تو ہمارے نیم ملا صاحبان نے مرغوں کے وقت کی اذان دینا ترک کر دیا ۔ جب ہم بے وقت کی اذان سننے کے عادی ہو گئے تو ملاں حضرات نے اذان دینے کا سلسلہ بند کر دیا ۔ ایسا لگا کہ نیم ملا حضرات نے کورونا کی حیثیت اور حق حاکمیت تسلیم کرتے ہوئے اس کے ساتھ رہنے کا سمجھوتہ کر لیا ۔
جب مرغوں کے وقت کی اذانوں کا سلسلہ بند ہوا تو ایک طبقے نے کورونا کی وباء کا 12 مئی کو خاتمے کی خوشخبری سنا دی ان کا دعوی تھا کہ 12 مئی کو ایک ستارہ ابھرے گا جس سے اس موذی مرض کی عالمی وباء ختم ہو جائے گی ۔ مجھ جیسے لوگ ایک دوسرے کو مبارکباد دینے لگے کہ بس اب انتظار کی گھڑیاں ختم ہونے والی ہیں 12 مئی کو ایک مخصوص ستارے کے ابھرنے سے یہ وباء خود بہ خود ختم ہو جائے گی ۔ لوگ بڑی بے چینی کے ساتھ 12 مئی کے دم دار ستارہ کا انتظار کرنے لگے ۔ باالآخر 12 مئی بھی پہنچ گیا لیکن نہ صرف وباء ختم نہیں ہوئی بلکہ اس سے ہلاکتوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہونے لگا ۔ ایسی صورت میں ہم نے پہلے تو اذان دینے والے حضرات سے رجوع کیا کہ عالی جاہ، کورونا کا کیا ہوا تو ان کی طرف سے جواب آیا کہ ہم نے اپنا فرض پورا کیا اب لوگ ہی نہیں سدھر رہے تو پھر کورونا کیسے جائے گا لوگوں نے تو مہنگائی اور بد دیانتی میں اور اضافہ کر دیا ہے ۔ پھر ہم نے 12 مئی والوں سے رابطہ کیا تو ان کا جواب تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جس حدیث مبارک کا حوالہ دیا جا رہا تھا اس کو سمجھنے میں ہم سے غلطی ہو گئی ۔ یہاں سے مایوس ہو کر ہم نے شعراء صاحبان سے رابطہ کیا کہ کورونا کے جس دور میں ملاں حضرات نے بے وقت کی اذان دینے کا سلسلہ شروع کیا تھا تو اس وقت آپ نے بھی کورونا کے حوالے سے بڑی بڑی غزلیں اور نظمیں لکھنا اور کہنا شروع کر دیا تھا جیسے ہی نیم ملا حضرات نے مرغوں کے وقت کی اذان دینے کا سلسلہ بند کیا تو آپ کی شاعری میں بھی وہ گرم جوشی نہیں رہی تو ان صاحبان کا جواب آیا کہ ہم نے بھی اپنا فرض پورا کیا ہے اب کورونا ہی نہ مانے تو ہم کیا کریں ۔ اس دوران پاکستان میں کورونا وائرس کے عطائی ماہرین کی بھر مار ہو گئی ہر دوسرا اور تیسرا شخص حسب توفیق اپنی معلومات، دیسی ٹوٹکوں اور وظائف سے آگاہ کر کے ان پر ہمیں عمل کرنے کی نیک نیتی کے ساتھ ہدایت اور نصیحت کرنے لگا ۔ ہم تو ویسے دوست و احباب کے مشوروں کو کبھی نظر انداز نہیں کرتے یہاں تو کورونا وائرس کا حساس مسئلہ تھا اس لیئے سب کے مشوروں پر عمل کرنے کا صدق دل سے ارادہ کر لیا یہ اور بات ہے کہ کہ آج تک ہم سے ایسا کچھ بھی نہیں ہو سکا ہے ۔
ابتداء میں جب پاکستان میں کرونا وائرس کے کیس سامنے آنا شروع ہوئے تو جو شخص بھری محفل میں یا کسی پبلک مقام پر کھانستا یا اس کو چھینک آتی تو لوگ نہ صرف اس سے دور بھاگ جاتے بلکہ انتظامیہ کو اس کی اطلاع دے کر پکڑوا کر قرنطینہ سینٹر میں بند کروا دیتے تھے بات صرف یہاں تک نہیں تھی بلکہ ماحول اس طرح کا بن گیا تھا کہ اگر کوئی شخص بیرون ملک سے آتا تو اس کی آمد کی مقامی انتظامیہ کو فوری اطلاع کی جاتی ۔ حکومت نے بھی یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ ہمارے شہری چین سمیت جہاں کہیں بھی ہیں ان کو فی الحال وہاں رہنے دیا جائے مگر جب دیکھا کہ حالات کسی طرح بھی قابو میں نہیں آ رہے ہیں تو بیرون ممالک سے اپنے شہریوں کو وطن لانے کے لئے خصوصی انتظامات کئے گئے اور ان کو وطن واپس لانے کا سلسلہ تا حال جاری ہے ۔ جب تک کورونا کی وباء پاکستان میں داخل نہیں ہوئی تھی اس وقت تک پاکستان کے نیوز چینلز میں روزانہ کی بنیاد پر مقبوضہ کشمیر کے متعلق بھارت کی حکومت کے ظلم اور زیادتیوں کی خبریں نشر کی جاتیں اور حکومت کی جانب سے بھی روزانہ کی بنیاد پر مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے پالیسی بیان جاری کیئے جاتے تھے مگر کورونا کی وباء کی آمد سے ہم لوگ کشمیری بہن بھائیوں کو بھول گئے ۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ بس کبھی کبھی مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے کوئی رسمی سی مذمتی خبر جاری کی جاتی ہے البتہ جیو نیوز ٹی وی چینل پر میر شکیل الرحمان کی گرفتاری کے متعلق روزانہ کی بنیاد پر خبر چلائی جا رہی ہے ۔ کورونا وائرس نے ایک سازش کے تحت ہمیں آپس میں تقسیم کر کے پاکستان میں اپنی جڑیں مضبوط کر لی ہیں ۔ اب سرکاری ہسپتالوں میں جتنی بھی اموات ہو رہی ہیں سرکاری اطلاعات کے مطابق وہ کورونا کی وباء کی وجہ سے ہو رہی ہیں اور کورونا وائرس میں مبتلا ہونے والے افراد کی تعداد میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے لیکن پاکستان میں ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو حکومتی رپورٹس کو مسترد کرتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں کورونا کے نام سے مرنے والے افراد کورونا سے نہیں بلکہ دیگر امراض سے فوت ہو رہے ہیں جبکہ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو نہ صرف حکومت کے موقف کی حمایت کر رہا ہے بلکہ حکومت کے مشوروں اور ہدایات پر عمل کرنے کی بھی عوام سے اپیل کر رہا ہے ۔ لیکن اس ساری صورتحال سے ہم نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ حکومت ہو یا عوام علماء ہوں یا شعراء سب نے کورونا وائرس سے اس ایک ایجنڈے پر سمجھوتہ کر لیا ہے کہ اب جیسے تیسے ایک عرصے تک کورونا کےساتھ رہنا ہے اور اس کو نہ چاہ کر بھی برداشت کرنا ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ حکومت نے بھی لاک ڈاون میں بڑی حد تک نرمی کر لی ہے جبکہ عوام کی اکثریت نے بھی کورونا وائرس کے مریضوں کی بڑی تعداد میں اموات کے باوجود احتیاطی تدابیر چھوڑ کر نہ صرف ہاتھ ملانا شروع کر دیا ہے بلکہ گلے لگانے کا بھی سلسلہ شروع کر دیا ہے اور کھانسنے اور چھینکنے والے افراد سے ڈرنا بھی چھوڑ دیا ہے اور یہ بھی محسوس ہو رہا ہے کہ شعراء نے بھی وباء کے موسم میں اپنی محبت کے لاک ڈاون میں کچھ نرمی کر لی ہے ۔