ہم پاکستانی بھی بہت ہی زندہ دل قوم ہیں ۔ ہم ہر حال میں دل کو خوش رکھنے کے لئے بہانے اور جواز ڈھونڈ ہی لیتے ہیں ۔ جہاں رونے دھونے اور مغموم و افسردہ رہنے کا تقاضا ہوتا ہے ہم وہاں بھی مسکرانے بلکہ قہقہے بھی لگا رہے ہوتے ہیں ۔ اب آپ دیکھیں جہاں فوتگی ہوتی ہے وہاں ہم تعزیت اور اظہار ہمدردی کے لئے جاتے ہیں لیکن اسے ہماری زندہ دلی کہیں یا بے حسی کہ ہم وہاں بجائے سنجیدہ رہنے کے اس تعزیتی محفل یا تقریب کو طنز و مزاح اور ہنسی خوشی بلکہ قہقہوں میں تبدیل کر لیتے ہیں اب جو مرحوم یا مرحومہ کے لواحقین ہیں ان کے دل پر کیا گزر رہی ہوگی ۔ مگر ہم ہیں کہ اس افسردہ ماحول سے انجوائے کر رہے ہوتے ہیں ۔
آپ حال ہی میں جنم لینے والی عالمی وبا کورونا یا کرونا وائرس کو ہی لے لیں اس سے پوری دنیا خوفزدہ ہو کر سہم گئی لیکن ہم اس سے بھی بجائے سیریس یا سنجیدہ ہونے کے خوب بلکہ بھرپور انجوائے کر رہے ہیں ۔پاکستان میں کرونا وائرس کی آمد سے جو سب سے زیادہ خوشی حاصل ہوئی ہے وہ بلوچستان اور سندھ کے روایتی تعلیم اور علم دشمن سرداروں اور وڈیروں کو ہوئی ہے اس کے بعد ڈیوٹی چور سرکاری ملازمین اور اسکول کے بچوں کو ہوئی ہے جن کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے ۔ ان کی تو دلی خواہش ہے کہ کرونا وائرس چین اور اٹلی کے بجائے پاکستان کو اپنا ہیڈکواٹر بنا لے تا کہ وہ کرونا وائرس کے اس خوفناک اور تشویشناک ماحول سے بھرپور انجوائے کر سکیں ۔
سندھ اور بلوچستان کے تعلیمی اداروں کی جو حالت ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔ جہاں سیکڑوں اور ہزاروں اسکولز عدم سہولیات کے باعث بند پڑے ہیں تو بہت سے اسکولز بااثر شخصیات کے استعمال میں رہتے ہیں ۔ سندھ اور بلوچستان کے روایتی وڈیروں سرداروں اور جاگیرداروں کی خواہش ہی یہی ہوتی ہے کہ تعلیم کا سلسلہ بند رہے تو بہتر ہے کیونکہ غریب اور عام لوگوں کے بچے پڑھ کر آفیسر اور باشعور بن جاتے ہیں وہ ان کی برابری کرنے لگتے ہیں یا کم ازکم ان کی محتاجی سے بچ جاتے ہیں جو ان کو گوارا نہیں ہے ۔ اس کےعلاوہ وہ ڈیوٹی چور سرکاری ملازمین جو کبھی کبھار اپنی حاضری لگوانے جاتے تھے یا وہ ملازمین جو بائیو میٹرک کے باعث ڈیوٹی پر جانے کے پابند تھے وہ کرونا وائرس کے حق میں بہترین حسن ظن رکھتے ہیں ۔
اس وقت پورا پاکستان کرونا وائرس کے بارے میں تبصرہ گاہ بنا ہوا ہے ۔ اس بارے میں جو میرا ذاتی مشاہدہ ہے وہ یہ ہے کہ کوئی بھی مسئلہ ہو اور کوئی بھی اشو ہو اس پر سب سے بہترین اور جامع بلکہ پرمغز تبصرہ ہیئر کٹنگ سیلون یا حجامت کی دکانوں پر ہوتا ہے ۔آپ جب تک وہاں اپنی حجامت کروانے کی غرض سے بیٹھے رہیں گے وہاں آپ کو نہ ختم ہونے والا دلچسپ تبصرہ سننے کو ملتا رہے گا اس کے بعد عام ریسٹورنٹس ، بیوٹی پارلرز اور تھڑے پر قائم ہوٹلز بھی بہترین تبصروں کے مراکز ہیں ۔ شادی ہالز کے استعمال پر پابندی کے حوالے سے سندھ کے ایک وزیر سید ناصر حیسن شاہ نے اچھا تبصرہ کیا ہے کہ شادی ہالز پر پابندی ہے شادی اور نکاح پر پابندی نہیں ہے اس لیئے دولہا اور دلہنوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اور آخر میں ایک دلچسپ خبر یہ ہے کہ مکہ مکرمہ سعودی عرب سے ایک پاکستانی نے لاہور کے اپنے ایک عزیز سے درخواست کی ہے کہ وہ حضرت داتا گنج بخش کے مزار پر جا کر کرونا وائرس سے بچاؤ کی دعا مانگے ۔ لیکن افسوس کہ پاکستان میں اب درسگاہوں کے بعد درگاہوں اور مزارات پر بھی تالے لگا دیئے گئے ہیں ۔
کسی شاعر کی ایک مشہور نظم کا عنوان تھا میں اور میری تنہائی
مزید آپ خود سمجھدار ہیں
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...