رشاد پانچ سال کے تھے گورے چٹے گول مٹول سے گھر میں رشو بھیا پکارے جاتے بڑے بیچین طبیعت ہر وقت کسی نہ کسی ادھیڑ بن میں رہتے انکے ساتھ گھر والے بھی مصروف بلا کے ذہین اور باتونی دادا سے ہر وقت چھتیس کا آنکڑا گھر کا کوئ بڑا جو کہتا اس کو اپنے انداز میں ضرور دوہراتے
پرانے طرز کامکان بڑا سا آنگن جسمیں طرح طرح کے پیڑ پودھے پنجروں طوطے کئ طرح کی چڑیاں کبوتر بلی آنگن کے طرف مرغیوں کا بڑا ساڈڑبہ غرضگھر کیا تھا چھوٹا سا چڑیا گھر تھا بڑے شہروں میں تو اس طرح کے گھر کا تصور ہی محال تھا صبح ہی اٹھ جاتے اور پورے گھر ٹہلا کرتے کبھی ماوءں سے باتین تو کبھی مٹھو بیٹے کبھی اپنی سائکل چلاتے تو سارے جانوروں کو بیٹھنے کی دعوت دیتے پھرتے سب سے زیادہ انکی توجہ کا مرکز گھر میں پلی سفید مرغی جس کانام انکی دادی نے چاندنی رکھ دیا تھا اسکے چوزوں میں ایک کالا جسکو وہ کالو کہتے دوسرا لالو تھا باقی سفید چوزے وہ بچے اپنی کے پیچھے دوڑتے یہ بھی انکے پیچھے باتیں کرتے دوڑتے ان سے بڑی انکی بہن تھیں جو سات سال کی تھیں پہلی کلاس میں پڑھتی تھیں ان سے بھی انکی نہی بنتی بہرحال
ایک دن انکو پیچکش مل گیا بس سائکل کی مرمت شروع ہوگئی نفو نے دیکھا تو پوچھا کیا کر رہے ہو بھیا
ارے اپی دیکھ نہی رہی ہو ٹھیک کر رہا ہوں
ارے خراب ہوجائےگی نفو نے کہا اتنے میں دادا اگئے "ارے بھیا کیا کر رہے ہو"
"ارے دادا گھنٹی ٹھیک کر رہا ہون"
"ارے بھیا خراب ہو جائے گی سائکل"
"دادا بےکوف سمجھاہئے کیا "
"نہی تمبےوقوف کہاں ہو تمہارے تو پیٹ میں داڑھی ہئے" ابھی دادا نے یہ بات کہی تھی کہ پتہ نہی کیسے گھنٹی کا پش بٹن نکل کر نفو کے متھے پر لگا نفو زور سی چیخ مار کر رونے لگی انکی ممی دوڑی ائیں دادا بولے تم مانتے نہی ہو بھیا بڑے کاریگر ہو اب یہ اپنے دونوں کولھوں پر ہاتھ رکھ کر بولے ممی یہ دادا کی وجہ سے ہوا مجھے باتون میں لگا لیا
ایک دن ٹی وی پر گائیڈ فلم کا گانا آرہا تھا ہیرو گلے ڈھول ڈالے گا رہا تھا بس انکو بھی یاد اگیا انکے چچا نے ایک ڈھلکیا لاکر دی تھی گلے ڈال کر آگئے آنگن میں بجاتے ہوئے گھوم رہے ہین "ہونتوں میں میتھی پان چبا کے چلی ائ"سب ہنس رہے ہین
لاک ڈاوءن کی وجہ سے سب گھر مین تھے ٹی وی پر خبریں آرہی تھیں ڈاکٹر ایپرن پہنے ہوئےتھے انھوں نے دیکھا تو ممی سے پوچھا ممی یہ کیا ہئے انکی ممی نے کہا "یہ ڈاکٹر لوگ پہنتے ہیں حفاظت کے لئے"
"کائے کے لئے ممی"
"ارے بھیا تم بڑا دماغ چاٹتے ہو"
"ارے ممی میں کہاں چاٹ رہا ہوں پوچھ تو رہا ہوں"
"اف فو اوہ رشو بھیا آجکل ایک چڑیل آئ ہوئ ہئے وہ سب کو لے جاکر الگ بند کر دیتی ہئے"
"کیا ممی کون سی چڑیل "
"کرونا کی چڑیل"
"تو ممی اسکو ڈرانے کے لئے ان لوگوں نے رینکوٹ پہنا ہئے"
"ہاں" انکی ماں نے جواب دیا بس کیا تھا رشو جلدی سے اندر گئے اپنا رین کوٹ پہن کر اگئے "ممی اب کرونا کی چڑیل میرے پاس تو نہی ائے گی" رشو نے اپنی ممی سے کہا انکی ممی نے انکی طرف دیکھا تو ہنس دیں"ارے بھیا یہ تو ڈاکٹر لوگ اس کو بھگانے کے لئیے پہنتے ہیں اگر تم صاف رہوگے ہر وقت ہاتھ دھوگے گندگی میں نہی کھیلوگے تو چڑیل تمہارے پاس نہی آئے گی اور اگر تم نے ایسا نہی کیا تو وہ تمہیں الگ کمرے میں بند کر دےگی"
"ہاں ممی وہاں کوئ نہی ہوگا"
"ہاں بالکل اکیلے"
"ممی میں صاف صاف رہتا ہوں ہاتھ بھی دھوتا ہوں مجھے تو لیکر نہی جائےگی ناچڑیل" رشو بھیا نے بڑے بھولے پن سے کہا
صبح پھر انکی چہل پہل شروع ہوگئ مرغی اور مرغی کے چوزوں کا دربہ کھل گیا تھا سب ادھر ادھر دوڑتے پھر رہے تھے اج پتہ نہی کہاں سے رشو کے ہاتھ ایک چھڑی آگئ تھی وہ سب سے باتین کرتے جارہے تھے " اے چاندنی یہ کالو اور لالو دونوں کا منہ ہاتھ دھلانا نہی تو کرونا کی چڑیل آجائیگی ان کو الگ کمرے مین بند کر دیگی پھر تمہارے پاس نہی ائیں گے"لیکن چاندنی کہاں انکی بات سمجھتی
اب وہ کالو پیچھے لگ گئے وہ گندگی میں منہ مار رہا تھا "اے کالو تم بےکوف ہو بالکل گندے بچے ہو تمنالی میں چونچ ڈال رہے ہو چھی گندے چلو اپنے پیر اور چونچ دھوو تمہین کرونا کی چڑیل تمہاری ممی سے الگ کمرے میں بند کر دے گی تم روتے رہوگے اور دادا بھی تمہیں الٹا لٹکا دیں گے"وہ دانت پیس پیس کر اور ڈنڈی کو ہلا ہلا کر کالو کو بتا رہے تھے اور اسکے پیچھے چل رہے تھے اور گھر کے سارے لوگ انکو دیکھ دیکھ کر قہقہے لگا رہے تھے