اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت پوری دنیا عالمی وباء کورونا وائرس کی لپیٹ میں آ چکی ہے ۔ اور یہ بھی ماننا پڑے گا کہ کورونا ایک خوف اور ایک دہشت کی علامت بن کر سامنے آیا ہے یہ اور بات ہے کہ یہ دکھائی بھی نہیں دیتا اور پکڑائی بھی نہیں دیتا ۔ کورونا وائرس اپنی موجودگی کا احساس موت کی طرح دلاتا ہے جس کو دیکھا تو نہیں جاتا مگر اس کو بڑی شدت کے ساتھ محسوس کیا جا رہاہے ۔ موت کے بھی 2 طرح کے احساسات ہوتے ہیں ۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کی موت کی دعائیں مانگی جاتی ہیں اور ایسے لوگوں کی موت پر نہ صرف خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے بلکہ جشن بھی منایا جاتا ہے اور کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کی بڑی زندگی اور لمبی عمر کی دعائیں مانگی جاتی ہیں اور ایسے لوگوں کی موت پر مایوسی، شدید دکھ کا اظہار کیا جاتا ہے اور سوگ بھی منایا جاتا ہے ۔ کورونا وائرس بھی ایک ایسی وباء اور مرض بن کر وارد ہوا ہے کہ اس کو اکثریت تو زحمت بلکہ عذاب الاہی سمجھتی ہے مگر دنیا میں کچھ ایسے ممالک اور ان کے ایسے حکمران بھی ہیں جو کورونا کو اپنے ملک اور قوم کے لیئے نہ صرف رحمت سمجھتے ہیں بلکہ اس کو تحفہ خاص سمجھتے ہیں ۔
کورونا وائرس کے بارے میں طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اپنی جون اور جنس مقام، موسم اور ماحول کے مطابق تبدیل کرتا رہتا ہے اس لیے یہ کہیں مونث ہے تو کہیں مذکر ہے اور کہا جاتا ہے جب کسی جنس کے خطرناک ثابت ہونے کی بات کی جائے تو نر کی نسبت مادہ زیادہ خطرناک ثابت ہوتی ہے ۔ اس بات کا مشاہدہ ہمارے ملک میں اکثر ہوتا رہتا ہے کہ جب مرد خود کشی کرتا ہے تو صرف اپنی جان لے لیتا ہے جبکہ اس کے برعکس جب کوئی عورت خودکشی کرتی ہے تو وہ اپنی جان لینے سے پہلے اپنے بچوں کی جان لیتی ہے اس کے بعد اپنی زندگی کا خاتمہ کرتی ہے ۔ صرف انسان ہی نہیں دیگر حیوانات اور حشرات الارض وغیرہ میں بھی ایسا ہوتا ہے ۔ دنیا میں کسی بھی بیماری سے زیادہ انسان ملیریا کے مرض میں مبتلا ہو کر مرجاتے ہیں اور یہ ملیریا نر مچھر نہیں بلکہ مادہ مچھر کے کاٹنے سے ہوتا ہے ۔ یعنی انسان کے لیئے نر مچھر نہیں بلکہ مادہ مچھر خطرہ بھی ہے اور خطرناک بھی ہے ۔ عظیم فاتح سکندر اعظم کی موت بھی ملیریا کے باعث واقع ہوئی ۔ اب جبکہ دنیا کے اکثر ممالک میں کورونا وائرس اپنے پنجے گاڑ چکا ہے جس سے دنیا بھر میں روزانہ ہزاروں افراد ہلاک اور اس مرض میں مبتلا ہو رہے ہیں تو اس کی دہشت پوری دنیا کے اکثر ممالک اور انسانوں پر طاری ہو چکی ہے مگر اس کے باوجود کچھ مممالک میں کرونا وائرس کو نہ صرف خوش آمدید کہا جا رہا ہے بلکہ اس کی تشریف آوری یا قدم رنجہ فرمانے پر بہت بڑی خوشی کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے لیکن اس خوشی کا اظہار سرعام نہیں بلکہ مخصوص محفلوں اور ملاقاتوں میں کیا جاتا ہے ایک دوسرے کو اس طرح مبارکبادیں دی جاتی ہیں جیسے ان کے ہاں نرینہ اولاد کی ولادت یعنی طویل عرصہ کے بعد بیٹا پیدا ہونے پر بھرپور خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے ۔
بیٹا اور بیٹی کی اپنی اپنی اور جداگانہ اہمیت ہوتی ہے کہیں بیٹا دکھ دیتا ہے تو کہیں بیٹی دکھ اور رسوائی کا باعث بنتی ہے ۔ بیٹوں اور بیٹیوں کے دکھ اور رسوائیوں کی نوعیت الگ اور مختلف ہوتی ہے ۔ اس حقیقت کو بہر حال تسلیم کرنا پڑے گا کہ بیٹی بیٹے کی نسبت اپنے والدین کے ساتھ زیادہ مخلص اور وفادار اور ایثار و قربانی کے جذبہ سے سرشار ہوتی ہے ۔ آپ تاریخ کا مطالعہ کریں یا موجودہ معاشرے اور ماحول کا بغور جائزہ لیں آپ کو صاف نظر آئے گا کہ ہر دور میں اقتدار کی رسہ کشی اور دولت و جائیداد کے حصول کے لیے کہیں باپ نے بیٹے کو قتل اور قید کیا تو کہیں بیٹے نے باپ کو قتل کر دیا یا قید کر ڈالا مگر کہیں بھی کسی بیٹی نے باپ کو قتل نہیں کیا بلکہ باپ کی خاطر قربانیاں دیں یا اس کو قربان کیا گیا ۔ پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ بیٹیاں شادی کے بعد پرائی ہو جاتی ہیں لیکن اب تو اکثر یہی دیکھا جا رہا ہے کہ شادی کے بعد بیٹیاں پرائی نہیں بلکہ شادی کے بعد بیٹے والدین کےلئے پرائے ہو جاتے ہیں ۔ جبکہ بیٹیاں شادی کے بعد بظاہر پرائی ہو کر بھی والدین کے لئے پرائی نہیں ہو جاتیں بلکہ مشکل وقت اور حالات میں بیٹیاں ہی اپنے والدین کے لیئے رحمت ثابت ہوتی ہیں ۔ اس مختصر بحث یا جائزے کے بعد ہم پھر بھی اس سوچ میں پڑے ہوئے ہیں کہ کورونا وائرس کہاں کہاں اور کن ممالک میں بیٹی یا بیٹا ثابت ہو رہا ہے ۔ دنیا کے عالمی وبائی امراض میں یہ پہلا مرض ہے جس پر شکوک و شبہات اور سازشوں کے خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔ اس کرونا وائرس کے موضوع پر امریکہ اور چین ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑے ہیں اور ایک دوسرے پر سازش کا الزام لگا رہے ہیں ۔ اس سے پہلے تاریخ میں جتنے بھی عالمی وبائی امراض پیدا ہوئے تھے ان پر کبھی بھی شکوک و شبہات اور سازشوں کے خدشات کا اظہار نہیں کیا گیا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ کورونا وائرس دنیا کا پہلا اور عالمی مرض ہے کہ جس کے موضوع پر دنیا بھر کی زبانوں میں شاعری کی جا رہی ہے اور پوری دنیا میں اس وقت سب سے زیادہ اسی موضوع پر ہی شاعری کی جا رہی ہے جس سے ایک نیا ادبی رجحان جنم لے چکا ہے اب تو اس شاعر کو شاعر ہی نہیں مانا جاتا ہے کہ جو اس موضوع پر اشعار یا نظم وغیرہ نہ کہے اور اس مشاعرہ ہی نہیں مانا جاتا ہے جس مشاعرے میں کورونا کے موضوع پر نظم اور اشعار وغیرہ نہ پیش کیئے جاتے ہوں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کورونا دنیا کے لیئے بیٹا ثابت ہوتا ہے یا بیٹی اور رحمت ثابت ہوتا ہے یا زحمت ۔ کیونکہ ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں منفی اور مثبت کورونا بظاہر انتہائی خطرناک اور تباہ کن ثابت ہو رہا ہے لیکن اس کے بہت سے مثبت اثرات اور نتائج برآمد ہونے کے بھی قوی امکانات ہیں ۔