زمین پر جہاں پانی ہے، وہاں زندگی ہے۔ پانی جنگل کے تالاب میں ہو۔ زیرِ زمین غار میں یا پھر ہسپتال کی چھت پر۔
برطانیہ کے شہر بریڈفورڈ میں مائیکروبائیولوجسٹ ٹموتھی روبوتھم 1992 میں شہر میں پھیلی نمونیا کی وبا کی وجہ ڈھونڈ رہے تھے۔ انہوں نے ہسپتال کی چھت کے کولنگ ٹاور سے پانی لے کر اس کا تجزیہ کیا اور زندگی کا جنگل دیکھا۔ امیبا اوردوسرے پروٹوزوا جو انسانی خلیے کے سائز کے تھے۔ بیکٹیریا جو اس سے سو گنا چھوٹے تھے۔ انہیں ایک سفئیر سا نظر آیا جو امیبا کے اندر تھا اور بیکٹیریا کے سائز کا تھا۔ روبوتھم کا خیال تھا کہ انہوں نے نیا بیکٹیریا دریافت کر لیا ہے۔ اس کا نام انہوں نے بریڈفورڈکوکس رکھا۔
روبوتھم کئی سال تک بریڈفورڈکوکس کو سمجھنے کی کوشش کرتے رہے۔ یہ جاننے کی یہ کہیں یہی تو نمونیا کی وبا کا ذمہ دار تو نہیں۔ اس کے جین آئسولیٹ کرتے رہے۔ بجٹ ختم ہونے کی وجہ سے 1998 میں انہیں اپنی تحقیق روکنا پڑی۔ ان کا سیمپل فرانسیسی سائنسدانوں نے لے لیا۔ پانچ سال بعد برنارڈ لا سکولا نے اس کو دوبارہ دیکھا اور انہیں لگا جیسے کچھ ٹھیک نہیں ہے۔
اس کی سطح سفئیریکل بیکٹیریا جیسی نہیں تھی۔ یہ کسی فٹبال کی طرح لگ رہا تھا جس میں پلیٹیں آپس میں جڑی ہوں۔ اس میں پروٹین کے ریشے نکلے ہوئے تھے۔ ایسی سطح وائرس کی ہوتی ہے۔ لیکن اتنا بڑا سائز کسی وائرس کا نہیں ہو سکتا۔
اور بریڈفورڈکوکس ایک وائرس ہی نکلا۔ یہ امیبا پر حملہ کرتا تھا اور اس سے اپنی کاپیاں بنواتا تھا۔ ایسا صرف وائرس ہی کرتے ہیں۔ اس کو نیا نام میمی وائرس دیا گیا۔
اس کے جین کا تجزیہ کیا گیا۔ اس سے پہلے روبوتھم کو اس کے جین بیکٹیریا سے میچ کرنے میں مشکل ہوی تھی۔ فرانسیسی سائنسدانوں کو کامیابی ہوئی۔ اس میں وائرس کے جین تھے اور بہت سارے تھے۔ عام طور پر وائرس میں بہت کم جین ہوتے ہیں۔ مثلاً، فلو کے وائرس میں دس جین ہوتے ہیں۔ جبکہ میمی وائرس میں 1262 جین تھے۔ ایسا جیسے بہت سے وائرس کے جین پروٹین کے ایک ہی خول میں ٹھونس دئے گئے ہوں۔ یہ کئی بیکٹیریا سے زیادہ تھے۔ سائز اور جین کی گنتی کے لحاظ سے یہ وائرس ہونے کے اصول توڑ دیتا تھا۔
ایک بار لا سکولا اور ساتھوں کو معلوم ہو گیا کہ میمی وائرس کیسے لگتے ہیں تو دوسری جگہوں پر انہیں ڈھونڈنا شروع کیا۔ انہیں نمونیا کے مریضوں کے پھیپھڑوں میں میمی وائرس ملے۔ اگرچہ یہ واضح نہں ہو سکتا کہ یہ نمونیا کا باعث بھی ہو سکتے ہیں یا نہیں۔ سائنسدانوں کو ایسی دیو وائرس کئی جگہوں پر ملے ہیں۔ سمندروں میں بہت سے، جو الجی اور کرول اور سفنج کو انفیکٹ کرتے ہیں۔ یہ نظروں کے سامنے ہی چھپے ہوئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میمی وائرس کی دریافت سائنسدانوں کو دوبارہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ وائرس ہے کیا۔ اور یہ اس سے بھی بڑا سوال کھڑا کرتی ہے۔ زندہ ہونے کا مطلب کیا ہے؟
بیکٹیریا، پروٹوزوا، جانور، پودے، فنگس ۔۔ ایک وقت میں ان کے اور وائرس کے درمیان بڑی خلیج سمجھی جاتی تھی۔ وائرس دوسروں پر منحصر ہیں۔ جین کاپی کرنے میں غلطیاں کرتے ہیں۔ چونکہ مرمت کے انزائم نہیں رکھتے، اس وجہ سے میوٹیشن ان کو زیادہ نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اور یہ وہ وجہ ہے جس کی وجہ سے ان کے جین زیادہ نہیں ہوتے۔ ملنے والے وائرس کے چھوٹے جینوم کی وجہ سے یہ ایک معقول خیال تھا۔ وائرس ڈی این اے میں جین رکھ سکتے ہیں یا آر این اے میں۔ آر این اے میں کاپی کے دوران غلطی کے امکانات زیادہ ہیں۔ اور یہ وجہ ہے کہ آر این اے وائرس، جیسا کہ فلو یا ایچ آئی وی، بڑا مختصر جینوم رکھتے ہیں۔
چونکہ ان کا جینوم چھوٹا ہوتا ہے، اس لئے وائرس اپنے جینوم میں کم سے کم انفارمیشن رکھتے ہیں۔ بس اتنی جو انہیں بڑھنے میں اور ختم ہونے سے بچنے میں مددگار ہو۔ یہ خام اجزاء سے اپنے جین اور پروٹین نہیں بنا سکتے۔ بڑھ نہیں سکتے۔ فضلہ خارج نہیں کر سکتے۔ سردی اور گرمی سے خود کو نہیں بچا سکتے۔ دو میں تقسیم ہو کر افزائشِ نسل نہیں کر سکتے۔ اور اگر یہ سب کچھ نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ یہ زندہ نہیں۔
کئی سائنسدان کہتے تھے کہ زندہ ہونے کے لئے خلیہ ضروری تھا۔ مائیکروبائیولوجسٹ آندرے لووف نے 1967 میں اپنا نوبل انعام وصول کرتے وقت تقریر میں کہا “جاندار خلیے سے بنتا ہے”۔ بغیر خلیے کے، وائرس کو مفرور جینیاتی مواد سمجھا جاتا تھا۔ جس کو بڑھنے کے لئے زندہ خلیے میں گھسنا پڑتا ہے۔ سائنسدان ان کو صاف کر کے کرسٹل بنا سکتے تھے، جیسا کہ نمک کے یا پھر خالص ڈی این اے کے کرسٹل ہوتے ہیں۔ سن 2000 میں وائرس کی ٹیکسانومی کی عالمی کمیٹی نے اعلان کیا “وائرس جاندار نہیں ہیں”۔
اس اعلان کی اگلی دہائی میں کئی سائنسدانوں نے اس اعلان کو مسترد کر دیا۔ پرانے اصول نئے دریافت شدہ وائرس پر کام نہیں کرتے تھے۔ مثلاً میمی وائرس میں اتنے زیادہ جین تھے کہ یہ وائرس کے تصور پر پورا نہیں اترتا تھا۔ سائنسدانوں کو معلوم نہیں کہ یہ جین کرتے کیا ہیں لیکن ان کی کچھ پروٹین ہمارے خلیوں کی پروٹین جیسی ہیں جس سے نئے جین اور پروٹین بنائے جاتے ہیں۔ امیبا میں جا کر یہ وائرل بادل میں تخلیل نہں ہو جاتے۔ بہت ہی نفیس اور پیچیدہ سٹریچر قائم کرتے ہیں جو وائرل فیکٹری ہے۔ یہ فیکٹری خام اجزاء کو لے کر ایک طرف ڈی این اے اور دوسری طرف پروٹین بناتی ہے۔ یہ فیکٹری کسی خلیے کی طرح کام کرتی ہے۔
لاسکولا نے ایک عجیب دریافت 2008 میں پہلی بار کی۔ یہ پہلی بار ہونے والی دریافت تھی۔ ایک اور چیز جو نہیں ہونی چاہیے تھی۔ اس وائرس کو ایک اور وائرس انفیکٹ کر سکتا ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...