سازشی نظریات، باتوں، افواہوں کی اشاعت و تشہیر کے پیچھے کئی پوشیدہ مقاصد ہوتے ہیں اسی لیے لازمی نہیں ہے کہ کوئی بُرا مقصد ہی ہو۔ کچھ اچھے مقاصد کے حصول کیلیے کوئی بات پھیلا دی جاتی ہےچونکہ اس کے پیچھے ذاتی، معاشرتی، تہذیبی مقاصد چھپے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان افواہوں کے پیچھے ایک سوچ کارفرما ہوتی ہے جسے عمومی طور پر سازشی نظریہ کہا جاتا ہے۔ چاہے اس نظرئیے کے پیچھے معاشرتی فائدہ جتنا ہی بڑا ہو لیکن وہ اس شخص، ادارے، انتظامیہ، ملکوں، قوم ، لوگوں کے انفرادی مقاصد کے حصول پر نظر ہوتی ہے۔ اپنی مرضی کے ہیرو بناتے ہیں اپنی مرضی کے ویلن بناکر لوگوں کو کھیل دیکھاتے ہیں۔ کبھی کسی کو افشاں کردیتے ہیں اور کبھی کسی کے پیچھے کھڑے ہوجاتے ہیں۔جانبداری سے بتایا ، دیکھایا اور سمجھایا جاتا ہے۔ منافقانہ معاشرہ بن جاتا ہے جہاں لوگوں کیلیے ساختی زبردستی کی جاتی ہےپھر سازشی نظریات کے ساتھ اپنی دکان بناتے ہیں۔جہاں یہ سمجھایا جاتا ہے کہ کائنات کسی نمونے کے تحت اور شخصیت سے چل رہی ہے جو آپس میں منسلک ہیں۔ سازشی نظریات کسی واقعہ کے رونمائی کیلیے، کسی نظام کو ہتھیانے کیلیے، عالی یا تہذیبی مقاصد کیلیے چلائے جاتے ہیں
انسانی معاشرہ باہمی تعلق داری سے چلتا ہے انسانی اخلاقیات میں کئی اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں غیبت ایک معاشرتی اصطلاح ہے جو کسی شخص یا معاشرے کے متعلق معاشرتی طور پر غلط آگاہی مہیا کرنے پر ہے جس سے سننے والے لوگوں کے ذہن میں ان کیلیے تصویر/منظر کشی کردی جاتی ہے۔یہ تصویرکشی اچھی ہو یا بری معاشرتی لحاظ سے انتہائی خطرناک ہے جس میں لوگوں کو ایک منظرکشی میں مقید کردیتے ہیں تاکہ حاضرین انکی باتوں کو عین الیقین تسلیم کرلیں۔ لوگوں کے احساسات (Senses) مادی وقوعات کے بجائے روحانی سمجھنے لگتے ہیں ۔ اس منظر کشی (دھوکہ دہی) کے پیچھے کوئی شخص، مڈل مین، ادارے، انتظامیہ، نوکرشاہی یا بین الاقوامی انتظامیہ بھی ملوث ہوسکتی ہے یہاں قید خانہ (فریم ورک) پر بات کیے بغیر سمجھنا مشکل کام ہے۔دو یا دو سے زیادہ لوگوں کا ایک کام کرنے یا کرانے کیلیے غیرقانونی ہتھکنڈوں، کہانیوں کے پھیلاؤ، ماحول کی سازگاری، سے قانونی اختتام اور نظریاتی بنا دیتے ہیں۔ ہیرواورویلن سے فسطائیتFascism قائم کیا ہوا ہے جن کی بنیاد سازشی نظریات پر قائم ہے انہوں نے میڈیا، حکومتی معاملات، پیسوں پر عالمی نظمِ حکومت قائم کررکھی ہوئی ہے۔ جب دو لوگ کان میں بات کرتے ہیں تو تیسرا سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ میڈیا پر خبروں کی بہتات، حکومت کی نگرانی اور رقم کی تقسیم سے ہیرو اور ویلن کی گیم جاری رہتی ہے
جن علاقوں میں لوگ زیادہ ہوں اور وہ زیادہ سماجی (Social)ہوتو ان میں سازشی نظریات زیادہ پنپ سکتے ہیں زرعی ادوار میں مذہب کی وجہ سے شفافیت قائم تھی جبکہ صنعتی دور میں یہی بات الٹ ثابت ہوئی جس کا بنیادی عنصر سازشی باتوں کے پھیلانے اور ان کے پنپے کیلیے زیادہ مواقع میسر آئے ہیں جبکہ مغربی ممالک میں یہ ان کیلیے مثبت ثابت ہوئی کیونکہ معاشرتی تعلقات کیلیے ویسے معاملات اوراہمیت نہیں رکھتے۔ دوسری دنیا میں سازشی نظریات نہ پنپے کی بڑی وجہ ان کو معاشرے پر انتہائی زیادہ اہتماد ہوتا ہے اور انہوں نے لوگوں کسی نا کسی جگہ مصروف رکھا ہوا ہے جس سے انکی محنتیں صفر سے ضرب نہیں ہوتی بلکہ معاشرتی مضبوطی سے اقتصادی ترقی ہوتی ہے۔تیسری دنیا میں طبقاتی تقسیم سازشی باتوں سے قائم ہے، ہیرو اور ویلن کے درمیان تصادم سے کبھی کسی کو قربانی کا بکرہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور کبھی کسی کی مالیاتی امداد کی جاتی ہے تاکہ لوگوں میں ہر سطح پر سازشی افواہیں تعقب کرتی رہیں
میڈیا پر باربار دیکھانے سے یا نمائشی پیشکش سے حقیقت معلوم ہونے لگتی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا ، پیپر میڈیا اور سماجی میڈیا پر بھی سازشی افواہیں کافی چلتی ہے اس کو معلومات کو یک طرفہ، تعصبانہ اورمعنی خیز (Meaning Full) بنا کر پیش کیا جاتا ہے ۔ ایک فریم ورک کو صحیح اور دوسرے کو غلط قرار دیتے ہیں حالانکہ کہ یہ لوگوں کا کام ہے۔ایک بات (سچی ہو یا جھوٹی، اچھی ہو یا بری)باربار کی جائے تو پانی کی طرح اپنا رستہ بنالیتی ہے لیکن اسکی حقانیت پر پردے نہیں ڈالے جاسکتے۔ تاریخ کے اوراق اس کی حقیقت سامنے لے ہی آتے ہیں اور سازشی نظریات بےنقاب ہوجاتی ہیں یا خود ہی بے نقاب کردیتے ہیں
گھروں میں سازشی نظریات:
میاں بیوی اور بچوں سے گھر کی تکمیل ہوتی ہے۔ جہاں ہر کسی کے ذاتی مفاد بھی ہوتے ہیں ایسے ہی کئی خاندان آپس میں کسی نا کسی رشتے کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں۔ خاندانوں میں مالی مفاد، تعلق داری مفاد، جیون ساتھی کا مفاد یا کئی دوسرے مفاد شامل ہوتے ہیں۔ خاندان میں پائی جانے والی رسمیں اوران پر دی جانی والی بھاجیاں(رقم، چیزیں) دوسرے لین دین اور معاملات و مفادات کے رسم و رواج زرعی اشتراکیت پر مشتمل ہیں جس سے لوگوں کی زندگیاں گہرے سازشی، افواہوں اور مفادات کے گرد گھری ہوئی ہیں۔ گھروں میں پلنے والے بچوں کے پاس نہ ذاتی، نہ اجتماعی، نہ سیاسی نظریہ پایا جائے تو انہوں نے آپس میں ہی وقت کی تکمیل کرنی ہے تاکہ کوئی ہمارے سے باتوں میں آگے نہ نکل جائے۔ عملی طور پر ترقی ویسے بھی ممکن نہیں ہوتی۔ اور جہاں لوگوں میں مصروفیت زیادہ پائی جاتی ہیں اور نظریات بھی اچھے اور بہتر ہوتے ہیں تو وہ کئی سازشی نظریات اور ذہنی تناؤ سے بچ جاتے ہیں
اداروں اور انتظامیہ میں سازشی نظریات:
اداروں اور انتظامیہ بھی لوگوں کو اپنے لحاظ سے تبدیل کرتی رہتی ہے۔ ان پر بھروسہ کرنے والے لوگوں کو تیار شدہ شکل دیکھائی جاتی ہے جس سے لوگوں کا اداروں پر سے اعتماد اُٹھ جاتا ہے۔ اسی وجہ سے یہ ایک دوسرے پر اعتبار نہیں کرتے ۔چھوٹے سکیلوں سے لے کر بڑے سکیلوں پر نوکری کرنے والے کسی نا کسی سطح پرنچلی سطح پر لوگوں کے سازشی رویوں پر گہری نظر رکھے بیٹھے ہوتے ہیں ورنہ ایسے لوگوں کا اپنے عہدے کو برقرار رکھنا کافی مشکل ہوجاتا ہے۔ یہ سازشی نظریات باہر سے، اندر سے، اوپر سے، نیچے سے اور خیرخواہی سے سر انجام دئیے جاتے ہیں
مذہب اور نظریات میں سازشی نظریات:
زرعی دور میں سامنے آنے والے مذہب صنعتی دور تک اپنی اہمیت نہیں رکھتے ہیں۔ لیکن اپنی آب و تاب کو برقرار رکھنے کیلیے انہوں نے اپنے اندر سے کئی تقدسی نظریات قائم کرلیے تھے جن میں(کلیسا، پنڈتوں، مولویوں،راہبوں، کاہنوں)کا مقصد اپنی روزی روٹی ہی رہا ہے۔ سازشی نظریات کی تشہیر کرنے والوں کو اسلام یا کسی دوسرے مذہب یا الحاد سے کوئی مطلب نہیں بلکہ اس سے وہ لوگوں کو زیراستعمال لاتے ہیں۔ نبیؐ کی تبلیغ پر کئی سازشی افواہیں پھیلتی تھی لیکن قرآن کے وقفے وقفے سے نزول پر بیرونی سازشیں کافی حد تک زائل ہوجاتی تھی اس ضمن میں ابوجہل چھپ چھپ کر سنا کرتا تھا۔دورِ جدید میں مسلمانوں میں سب سےطاقتور سازشی افواہ پھیلائی جاتی ہے کہ اسلام خطرے میں ہے
اشتراکیت سے بھی مغربی تہذیب پھیلنے کی کوشش ہوئی ہے۔ جہاں اشتراکیت نے فسطائیت کو نقصان پہنچایا ہے وہاں ان کے سازشی نظریات پھیلنے کا سبب بھی بنا ہے کیونکہ کئی جگہ کامریڈوں نے سازشی افواہوں کا مقابلہ کرنے کے بجائے اسی کا حصہ بھی بن گئے تھے۔ بڑے بڑے مقبرے گراتے گراتے مرنے پر اسکا بھی بڑا مقبرہ بن جاتا ہے
ملکوں میں سازشی نظریات:
ملک کا ریاستی نظام کسی ناکسی نظرئیے کو بنیاد بناتا ہے۔ جدید دور میں جمہوریت کا جدید ماڈل اپنایا جارہا ہے جس میں سازسی نظریات اور انسانی کاشتکاری کو پروان چڑھایا جارہا ہے۔ جمہوریت میں حکومت عوام کی، عوام کیلیے اور عوام کی طرف سے کی جائیگی ایسی سوچ نظر نہیں آتی۔ جبکہ پُرانے ماڈل جس میں بادشاہی ، جاگیرداری، غلامی وغیرہ کا نظام تھاجس میں بھی انسانی کاشتکاری کی جاتی تھی لوگوں کو سانس لینے کیلیے کھانا دیا جاتا تھا تاکہ وہ گزربسر ممکن کرسکیں جبکہ رقم اُن سے ہوکر چند ہاتھوں میں سمیٹتی جائے جمہوری ماڈل میں ٹیکسز کی شکل میں یہ نظام رائج ہے ۔ لوگوں کو بہترین تعلیم دی جاتی ہے اپنی مرضی کی نوکری کی سہولت دی جاتی ہے اپنی مرضی کا کھانا کھاسکتے ہیں الغرض ہر چیز اپنی مرضی کی کرسکتے ہیں لیکن شہریت محصولات میں مقید ہے۔
جدید دور میں جمہوریت میڈیا کے ذریعے سازشی نظریات کی ترویج کرتی ہے۔ملک کا بیشتر بجٹ ان کام کیلیے مختص کیا جاتا ہے خود کو بہتر کرنے کے بجائے دوسروں پر نظریں رکھ کرمحنت ضائع کی جاتی ہے۔ سازشی نظریات کی ترویج سے روس کو توڑا گیا تھا کیونکہ شخص کیا حکومتیں اپنی وجود قائم رکھنے کیلیے سازشی ماہرین کی ضرورت قائم رکھتے ہیں۔ چھوٹے بڑے ادارے، حکومتیں، عالمی حکومتیں اس سازشی نظریات سے آزاد نہیں رہ سکتی۔خفیہ اداروں کا قیام دوسری جنگ عظیم کے بعد ہوا تاکہ ایک دوسرے کی سازشی نظریات پر نظر رکھی جائے۔جہاں جہاں کوتاہیاں ہوتی ہیں وہاں وہاں سازشیں پنپ سکتی ہیں
پاکستان میں سازشی نظریات:
ملکِ پاکستان میں سازشی نظریات کی طرف ایک نظر۔ پاکستان بھارت ازلی دُشمن ہیں۔اسرائیل پاکستان کا دشمن ہے اور اسے کبھی ملک نہیں مانا جائے۔ کشمیر ہی اصل مسئلہ ہے، پاکستان میں حکمران طبقہ جاگیردار، صنعتکار، مائی باپ، امر، کاشت شدہ پودا دشمن ہے، مولوی غلط ہیں، پاکستانی میڈیا اپنا ہی دشمن ہے، ادارے دشمن ہے، عسکری راج ہے، ایٹم بمب پاکستان کی حفاظت کررہا ہے، آئی ایم ایف کے قرضےپاکستان میں خوشحالی لاسکتے ہیں۔ یہ سب باتیں کافی حد تک ٹھیک بھی ہیں لیکن یہ تمام اور کچھ ملکر مکمل سازشی نظریہ بنتا ہے جن سے عالمی طاقتوں کو اپنی مرضی کرنے کاموقع مل جاتا ہے
تقسیم ہند پر جواہرلال نہرو کو یہ بتایا گیا کہ مسلمانوں نے ہندوستان پر طویل حکومت کی ہے اگر انکی اکثریت ہوگی تو ہندوستان چل نہیں سکے اگر چلے گا بھی تو ہندوؤں کے ہاتھ مضبوط نہیں ہونگے دوسری طرف جناح صاحب کو نئے ملک کی لالچ دے کر جلدی سے ایک عظیم ہندوستان کو چند مہینوں میں ٹکروں میں تقسیم کردیا جس کے پیچھے ایک یہ مقصد تھا کہ تقسیم کرو اور حکومت کرو اور دوسری طرف یہودیوں نے اپنے آبائی علاقے میں تازی تازی حکومت قائم کی تھی جسے 14 مئی 1948 میں اپنی ریاست کا اعلان کیا تھا۔ کئی مسلمان اکٹھے ہوکر دوبارہ ایک عظیم سلطنت نہ بنالیں اس لیے انہوں نے مسئلہ کشمیر، بنگال کی تقسیم وغیرہ کی طرف خصوصی توجہ مبزول کرنی شروع کردی اور لوگ اس سازش کو پاکستان انڈیا کی جنگ سمجھتے، سرسید احمد خان، علامہ اقبال، قائداعظم محمدعلی جناح، جواہرلال نہرو، مہاتماگاندھی، اشرف علی تھانوی، احمد رضا خان بریلوی، غلام احمد قادیانی، مولانا حسین احمد مدنی، سلیمان ندوی وغیرہ کو اپنے مقاصد کیلیے اسی سازشی افواہوں اور رقموں کی تقسیم سے استعمال کیا، کبھی پاکستان امریکہ کی جنگ سمجھتے، کبھی عوام کو حکومت کے خلاف کھڑا کردیتے، کبھی اداروں کے پیچھے لگادیتے، کبھی میڈیا سے سیاسی تفریح دیتے ہیرو ویلن کی جنگ دیکھاتے، کرنسی کا جھانسہ دیتے، حکومت کا اعتماد ختم کردیتے ہیں، کچھ لوگوں وظیفہ پر ترقی یافتہ ملکوں کی سیر کرواکر اپنی تہذیب سے نفرت کردیتے ہیں جن کے پیچھے بھی وہی سازشی نظریات ہیں
پاکستان نے اپنے کئی محسنوں کے ساتھ کیا کیا تھا، قائدِ اعظم کے آخری اوقات کیسے گزرے تھے، مادرِ ملت فاطمہ جناح کے ساتھ مجموعی طور پر کیا کیا گیا، ایم ایم عالم کے حالاتِ زندگی۔ لیاقت علی خان کو کیوں گولی ماری تھی۔پاکستان میں پہلی بار سازشی افواہوں کی کاشتکاری کی گئی تھی۔ جس ملک میں کسی قسم کی امداد باہر سے آتی ہے وہ بڑی مچھلی کیلیے کانٹے میں لگی خوراک کی طرح ہوتی ہے۔ پاکستانی میڈیا کو ملین بلین ڈالرز کی امداد
ذوالفقار علی بھٹو سے پاکستان کی تقسیم، احمدیوں کا غیر مسلمان قرار دینا، ضیاء الحق نے بھٹو کا تختہ الٹ دیا اور ضیاء الحق کی شدت پسندی اور اسکی موت ۔ اپنے اپنے لحاظ سے استعمال ہوتے رہے اور اسکے بعد دونوں شہید۔۔۔۔۔؟؟؟قربانی کا بکرا بناکر پیش کیا جاتا ہے ویلن سے مزید افواہیں پھیلتی ہیں جہاں سے سازشی نظریات پنپے میں آسانی ہوتی ہے۔ جہاں سے دنیا میں اسامہ بن لادن اور پاکستان میں نوازشریف کی تازہ تازہ مثال سامنے ہے
پاکستان میں ہر بندہ ذاتی سطح پر ٹھیک ہے لیکن یہی اصل میں سازشی نظریات کا شکار ہیں کیونکہ یہ لوگ یہی چاہتے ہیں
کمپپنیوں میں سازشی نظریات:
ایک چھوٹی موٹی کمپنی یا کاروبار کرنے کیلیے اپنے اردگرد عمومی اور خصوصی سازشیں یا سازشی پائے جاتے ہیں ۔ یہ سازشی نظریات باہر سے، اندر سے، اوپر سے، نیچے سے اور خیرخواہی سے سر انجام دئیے جاتے ہیں۔ جب تک یہ لوگ بڑی سازشوں کا حصہ نہیں بن جاتے یا ان کیلیے کام کرنا شروع نہیں کردیتے بڑی مچھلیاں ان کو نگلنے، تباہ و برباد کرنے، ضم کرنے کے چکروں میں انکو مجبور کرتی رہتی ہیں۔ سازشی نظریات کے ماہرین جب تک ان میں موجود نہ ہوتو بقا مشکل ہوجاتی ہے یہانتکہ حکومتی پالیسیاں بہتر نہ ہوتو لوگوں کی زندگیاں اور محنتیں صفر ہوتی رہتی ہیں
تہذیبوں میں سازشی نظریات:
یہ سازشی نظریات تہذیب میں بہت زیادہ پھیلے ہوئے، گہرے اور بہت بڑی تعداد کے لوگوں میں پائے جاتے ہیں جہاں اتنی آسانی سے قابو کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔ جبکہ تہذیبی سازشوں میں کچھ گہری اور کچھ سطحی ہوتی ہیں وہ اس کے کاموں اور نوعیت پر منحصر ہوتی ہے
دنیاکے اندر ایک تہذیبی جنگ بھی جاری ہے جس میں سب سے جنگ دو بنیاد پرست قوموں میں بالخصوص نظر آتی ہے جس میں ایک یہودی اور دوسرے مسلمان ہیں۔ مسلمان اور یہودی اپنے نظریات کے ساتھ ساتھ اپنی تاریخ،ادب،شخصیات، سوچ، زبان اور اسلوب، عقیدت، زمان ومکان وغیرہ پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔ یہودی امریکہ اور نیٹو کی طاقت سے حکومت کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان اپنی انسانی طاقت سے حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ یہودیوں نے ان سازشی نظریات سے اپنا آبائی علاقہ واپس لیا اور انہی سازشی نظریات نے مسلمانوں کو انہی کے علاقوں میں ڈورے ڈالے رکھے ہیں۔عیسائی رومی تہذیبی احیا ہی ہے
جس حکومت میں یہودی ساتھ دیتے ہیں وہی حکومتیں تاریخ میں عظیم طاقتیں اُبھر کرسامنے آتی ہیں یہی وہ سازشی نظریات جس سے وہ حکومت کرتے ہیں۔تاریخی حقیقت ہے کہ یہودی جس حکومت کا ساتھ دیتے ہیں وہ عظیم سلطنت بن کرابھرتی ہے جیسےمصر کے ساتھ میں ،عیسائی حکومت میں، مسلمانوں کے ساتھ میں برامکہ خاندان سرفہرست وغیرہ اور موجودہ دور میں امریکہ کا ساتھ میں یہودی باہم پیش پیش ہیں
امریکہ نے جنگ سے کیا تبدیلی لائی ہےبلکہ امریکہ اورخلیجی ممالک کی کشیدگی بڑھی ہے۔ اگر دور بیٹھا ایک شخص اس سارے مسئلے کو دیکھ رہا ہوتو وہ کیا کہے گا کہ جنگ سے امریکہ کو کوئی فائدہ ہوا ہے یا دوسرے ممالک میں کیا تبدیلی آئی ہے حتٰی کہ اسلحہ پر خرچ کی جانے والی رقم ان بچوں کی تہذیبی تعلیم پر خرچ کی جاتی تو نتائج مختلف ہوتے۔ امن کی بھاشا بولی جاتی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ہر ملک تیسری عالمی جنگ( معاشی جنگ) میں ہے۔ معاشی لڑائیاں لڑی جارہی ہیں۔ تجارتی لڑائیاں، زر کی لڑائیاں، وغیرہ
نیو ورلڈ آرڈر یا عالمی تہذیب میں ہیرو ویلن کی سیڑھی پر چڑھتے چڑھتےایک ایسا نظام متعارف ہوتا ہے جس میں تمام دنیا کے لوگ آپس میں گھیرے رہتے ہیں جہاں ایک عالمی تہذیب بننے کو جارہی ہے۔اور وہ سب سے اُوپری سطح والا بندہ یا بندوں کا گرہوں یا خدا کے اوتار دنیا پر حکومت کررہا ہے۔ سب سے عظیم قابو کرنے والے اوزاروں میں "رقم"، "مواصلات"، "عالمی پیدوار"، "جمہوریت" ہیں۔ تہذیب کوترقی یا پیش رفت کے ساتھ جوڑا ہوا ہے۔ پُرانی تہذیبوں کو معدوم کرنے اور نئی عالمی تہذیب کے احیا کی کوشش کی جارہی ہے
علم اور سائنس کے شعبہ جات میں عالمی انعامات، کھیلوں میں انعامات، کامیابی، امتیازی مقاصد، نوبل پرائز، جینز بک اف ورلڈ ریکارڈز، مس ورلڈ، اولمپکس گیم، ورلڈ کپ، آبادی کی تعداد، عالمی کمپنیوں کے اخراجات اور پیداوار، بڑے بڑے وظیفوں کے ذریعے سے دنیا پر نظر رکھنے کے مواقع ہیں۔ تہذیبی سرکلز NGOs سماجی تبدیلی کرتے ہیں۔درجہ بندی(رینکنگ )اور اُوصاف (میرٹ )سے سماجی گروہ بندی کرتے ہیں۔ معاشیات وہاں سے گشت کرتی ہے۔ عادی لوگوں پر قابو پانا مزید آسان ہوجاتاہے۔فتنہ برپا کیا گیا ہے۔سازشی نظریات میں ایسی باتیں بھی سننے کو ملتی ہیں کہ اسرائیل کے ذریعے دنیا کے نقشے پر جو تبدیلی آئی ہے اسی تبدیلی کو نقشے میں وسعت دے کر عالمی ریاست بنانی ہے
مالیاتی اداروں کے ذریعے معاشیات کی ترتیب ممکن ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کو بتا کر چیزیں فروخت کی جاتی ہیں۔پیدائش پر بچوں کے حفاظتی ٹیکوں کے کورس ملک کا نہیں عالمی طاقتوں کی کثیر رقم خرچ کرتے ہیں۔تو اُن کیلیےطبی بیمہ بن جاتی ہے لیکن اپنے علاقوں میں لوگ بھوک سے مرجاتے ہیں۔ لیکن ان کورسسزسے عام انسان پر تمام زندگی کے معاملات پر قابو پانے کی تحقیق موجود ہے۔ جنسی منظر کشی کو ذریعہ معاش بنایا جاتا ہے۔ کم وقت میں زیادہ ترقی حاصل کرنی کی تحقیقیں ہوتی ہیں
اپنی تہذیب کیلیے لوگوں کو فریفتہ کرلیتے ہیں۔اپنی مرضی کی رقم سے چیزوں پر حکومت کرتے ہیں۔ اپنی چیزوں کے استعمال کرنے میں ایسی لگاتار اشتہاری بازی کرتے ہیں جس میں ان کی تہذیب بہتر اور رائج یا موجودہ تہذیب خاکستر نظر آئے۔ جن میں سگریٹ پینے، کولڈڈرنکس میں چائے کی تذلیل، شیمپو کے ساتھ ہیرو وغیرہ کی نمائش کرتے ہیں اور عالمی کمپنیوں کی اشتہار بازی کے ساتھ تہذیبی آگاہی بھی ہورہی ہے جہاں لوگ اپنی تہذیبی کو بُرا یا ویلن کی تہذیب سمجھنا شروع ہوجائیں۔ طالبان، داعش کے ساتھ آنکھ مچولی کے کھیل، الجزیرہ ٹی وی کا قیام، صدام حسین جب سمجھ گیا تو پھانسی چڑھ گیا وغیرہ سے خلیجی اسلام ی ممالک میں سازش اور انتشار پھیلا کر انکی نظر میں تہذیب سے بدظن کرکے عالمی تہذیب کا احیاء ممکن ہوسکے
اقوامِ متحدہ (یونائیٹڈ نیشن )کے ذریعے عالمی حکومت کے خواب دیکھ رہے ہیں جبکہ مسلمان اپنی اسلامی ریاست یورپ سے کاشگر تک کا خواب دیکھ رہے ہیں۔
امریکہ کا چاند پر جانے کی بھی افواہیں ہیں اور دوسری سائنسی سازشی نظریات اور افواہیں بھی نشر ہوتی رہتی ہیں۔
غریب کے بچوں کو وظیفہ نہیں دیا جاتا یا تعلیم کو فروغ نہیں دیا جاتا بلکہ اچھے ذہن کے لوگوں کا انتخاب کیا جاتا ہے تاکہ ہیرو اور ویلن میں تصادم جاری رہے۔ انکی تحقیق سے مزید مالیاتی ترقی حاصل کی جائے کیونکہ اس پر مال خرچ کیا ہوا ہوتا ہے
میچیوکاکو کا امریکہ کو ذہین لوگوں کیلیے قید خانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہاں عظیم لوگوں کیلیے مزید آگے بڑھنے کیلیے تمام مواقع اور سہولیات دستیاب ہیں
ان سازشی نظریات میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ عام بندہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کا حصہ بن جاتا ہے اور شفافیت کا دامن اپنے ہاتھ سے چھوڑ دیتا ہے