آج کل پاکستان میں بہار کا موسم ہے۔ اور گرم ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی موسم بہار میں rubivirus کا پھیلاؤ عام دنوں کی نسبت بڑھ جاتا ہے۔ Rubella یا خسرہ عموماً ان بچوں کو نکلتا ہے جن کو زندگی کے پہلے سال اور سکول جانے کی عمر میں خسرے کی ویکسین MMR نہیں لگی ہوتی۔
کئی لڑکیاں بھی ایسی ہوتی ہیں جنکو بچپن میں خسرہ کی ویکسینیشن نہیں ہوئی ہوتی۔ اور انکی شادی ہو جاتی ہے۔۔ اور خدا نخواستہ دوران حمل انکو خسرہ نکل آتا ہے۔ یعنی روبی وائرس حملہ آور ہوجاتا ہے۔
ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے۔ مگر کئی کیسز میں ایسا ہوا ہے۔ جب ماں کو خسرہ ہوگا تو وائرس بچے کے خون میں بھی چلا جائے گا۔ اور بچے کو بھی خسرہ نکل آئے گا۔ اگر ایسا حمل کے پہلے 12 ہفتوں میں ہو تو خطرہ ہے مس کیرج ہو سکتا ہے۔ حمل کے چوتھے ماہ میں یا کسی بھی وقت کسی بھی مہینے میں ہو تو خطرہ زیادہ نہیں ہوتا۔
میرے مالک کا نظام ہے کہ تین ماہ کے اندر روبی وائرس ماں کو متاثر کرکے بچے تک چلا جائے تو انفیکٹڈ بچہ ماں کے پیٹ میں رہے تو ماں کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔۔ خود کار نظام کے تحت مس کیرج یا وقت سے پہلے کی فی الفور ڈیلیوری ہوجاتی ہے۔ اگر حمل کا دورانیہ مکمل ہونے کے قریب ہو تو ایسے بچے خسرے کے ساتھ بھی زندہ بچ جاتے ہیں۔ چوتھے ماہ کے بعد صورت حال معیاری میڈیکل سہولیات ملنے پر زیادہ خراب نہیں ہوتی۔
اگر پہلے تین ماہ میں ہی حاملہ ماں کو خسرہ ہوگیا۔ تو خطرہ ہے کہ بچے میں پیدائشی سماعت سے محرومیsensorineural Deafness, آنکھوں میں موتیا Cataract جو بصارت سے محرومی کی وجہ بن سکتا ہے۔ especially retinopathy. دل کا کوئی مرض، عقل و دانش کی پسماندگی Intellectual Disability جسے پہلے مینٹل رٹارڈیشن کہا جاتا تھا۔ برین ڈیمج تھائی رائیڈ کے مسائل اور پھیپھڑوں میں خطرناک سوزش ہو سکتی ہے۔ یہ سب مسائل CRS سے متاثرہ بچوں میں عمر بھر کی معذوری کا سبب بن سکتے ہیں۔
جسے عام لوگ شاہ دولہ کے چوہے کہتے ہیں۔ اس کنڈیشن کو Microcephalyکہا جاتا ہے۔ حمل کے پہلے تین ماہ میں ماں کو خسرہ ہوجائے تو بچا مائیکرو سیفلی بھی ہو سکتا ہے۔
الحمدللہ پاکستان میں تقریباً ہم سب لوگوں کی ویکسینیشن ہوئی ہوتی ہے۔ آپ نے پریشان نہیں ہونا۔ آپ کو خسرہ بچپن میں نکل چکا ہوا ہوگا۔ اگر آپکو آپکے والدین بتاتے ہیں کہ حفاظتی ٹیکے نہیں لگوائے گئے تھے۔ تو حمل سے پہلے آپ خود بھی MMR ویکسین ڈاکٹر سے مشورہ کرکے لگوا سکتی ہیں۔ مگر اس کے بعد 4 سے 8 ہفتے تک حمل کی طرف نہ جایا جائے۔ اور دوران حمل یہ ویکسین ہر گز نہیں لگوانی بس پہلے تین ماہ میل جول میں احتیاط کرنی ہے۔
آپکی ویکسینشن ہوئی ہے۔ آپ حاملہ ہیں اور آپکے پاس کسی بچے یا بڑے کو خسرہ نکل آیا ہے۔ فوراً سے پہلے وہ گھر اس متاثرہ فرد کے مکمل ٹھیک ہونے تک کے لیے چھوڑ دیں۔ یہ وائرس بڑی تیزی سے پھیلتا ہے اور اپنے آس پاس لوگوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ چھینکنے یا کھانسنے پر یہ وائرس ہوا میں آجاتاہے ۔ اور دو گھنٹے تک زندہ رہتا ہے۔ اس انفیکٹڈ ہوا میں روبی وائرس کے ذرات اڑ رہے ہوتے۔ اس میں سانس لینے والا ہی اسے اپنے اندر لے جاتا ہے۔ یہ ناک اور گلے میں جاکر پرورش پاتا ہے۔ اور پھر خون میں جا کر اپنی گیم آن کر دیتا ہے۔
اب حاملہ لڑکی کو تو ویکسین لگی ہوئی ہے۔ مگر کوکھ میں جو بچہ ہے وہ تو ویکسی نیٹد نہیں ہے۔ گو اس کے اس وائرس سے متاثرہ ہونے کے امکانات بہت ہی کم ہیں۔ مگر رسک تو بہرحال موجود ہے۔ کوشش کریں دوران حمل اور خصوصاً اس بہار کے موسم میں بہت احتیاط کریں۔ بلا ضرورت گھر سے باہر نہ نکلیں۔ باہر جائیں تو سو فیصد ماسک کا استعمال کریں۔ حاملہ خواتین اس موسم میں یہ بھیک مانگنے والے خانہ بدوشوں، بھکاریوں کے قریب بھی نہ جائیں ۔ یہ لوگ بلکل ویکسی نیٹڈ نہیں ہوتے اور مانگنے کے لیے ہمارے قریب آکر وائرس پھیلا دیتے ہیں۔
اگلے دو تین ہفتے حاملہ لڑکیوں کو اس ضمن میں احتیاط اور بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...