انسانی تاریک کے کچھ ایسے فلسفی یا دانشور ہیں جو ہر زمانے میں زندہ رہتے ہیں ۔ان کی تعلیمات اور فرمودات سے انسان ہمیشہ فائدے اٹھاتا رہتا ہے ۔کنفیوشس کا وہی دور ہے ،جس زمانے میں ہندوستان میں بدھا کا اثر ورسوخ تھا ۔ایک زمانہ تھا جب چین میں کنفیوشس کی تعلیمات کی بنیاد پر نوکریاں ملتی تھی ۔کنفیوشسس چین کا سب سے بڑا فلسفی تھا اور ابھی تک ہے ۔کنفیوشس کی زندگی بدھا اور ماہا ویرا سے مختلف اور منفرد ہے ۔کنفیوشس 551قبل از مسیح چین کے ایک غریب خاندان میں پیدا ہوا ۔اس زمانے میں فلسفی چین کے مختلف علاقوں میں جاکر حکومت کرتے تھے ۔اس طرح اپنے فلسفے کے زریعے ریاست کے ادارے کو انسانی بنیادوں پر بہتر اور مضبوط بناتے تھے ۔فلسفی حکومت کا حصہ بنکر عملی طور پر بھی انسانوں کی مدد کرتے تھے ۔اسی زمانے میں کنفیوشس نے بھی کوشش کی کہ چین کے کسی خودمختار علاقے میں اسے ملازمت مل جائے ،دس سال تک وہ اس طرح کی ملازمت کے حصول کی کوشش کرتا رہا ۔لیکن ان دس سالوں میں اسے کسی بھی ریاست میں نوکری نہ مل سکی ۔تھک ہار کر وہ اپنے آبائی علاقے ۔۔۔۔۔لو ۔۔۔۔۔۔میں وآپس آیا ۔پھر اس نے لوگوں کو تعلیم دینے کے لئے اکیڈمی کھولی ۔اکیڈمی میں نوجوانوں کو تعلیم و تدریس کا کام شروع کردیا ۔یہ وہ پہلا فلسفی ہے جس نے پہلی مرتبہ اکیڈمی بنائی ۔پھر اس اکیڈمی کے لئے نصاب ترتیب دیا ۔جو اس زمانے میں دنیاکا سب سے جدید تعلیم نصاب تھا ۔نصاب میں ادب،موسیقی ،اسپورٹس ،تاریخ اور اخلاقیات ضروری حصے تھے ۔وہ یہ سب کچھ اپنے شاگردوں کو پڑھاتا تھا ۔اکیڈمی کے دروازے سب کے لئے کھلے تھے ،چاہے وہ غریب ہو یا امیر ،سب اس اکیڈمی میں آتے اور تعلیم حاصل کرتے۔کنفیوشس نے خود کوئی کتاب نہیں لکھی ،بلکل ایسے ہی جیسے سقراط نے خود کچھ نہیں لکھا ۔اس کے شاگردوں نے اس کے اقوال اور تعلیمات کو کتاب کی شکل دی ۔اس کی یہ کتاب اینالکس کہلاتی ہے ۔کنفیوشس کے مرنے کے بعد اس کی تعلیمات چین کی ریاست پر صدیوں تک نافذ رہیں ۔وہ خاندان جنہوں نے چین پر حکومت کی ،ان میں ایک خاندان تھا چن ،ایک خاندان تھا تانگ خاندان اور ایک خاندان کا نام سانگ تھا ۔ان کی حکومتیں صدیوں تک چین پر رہی اور ہمیشہ کنفیوشس کی تعلیمات کا راج رہا ۔کنفیوشس کی تعلیمات چین کی نوکر شاہی کے لئے لازم تھی ۔اس نے نوکر شاہی کے بارے میں کہا کہ سرکاری عہدیدار کے لئے ایماندار ہونا بہت ضروری ہے ۔اسے ہمدرد ،رحم دل اور انسانیت پرست ہونا چاہیئے ۔وہ سرکاری افسر جس میں انسانی جذبات نہ ہوں ،اسے کبھی بھی سرکاری نوکری نہیں ملنی چاہیئے ۔نوکر شاہی کے لئے پالیسی دیتے ہوئے اس نے کہا تھا کہ قانون کی بالادستی کے راستے میں اگر حکمران بھی آجائے ،تواس کی بھی پرواہ نہیں کرنی چاہیئے ۔ہر صورت قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا جانا چاہیئے ۔کنفوشس کی تعلیمات کی بدولت چین میں نوکر شاہی کا ادارہ مضبوط ہو ا،اسی وجہ سے چین مضبوط و مستحکم رہا ۔اس نے خود کہا تھا کہ وہ خدا کا پیغمبر نہیں ہے ۔اس کی تعلیمات الہامی یا الہاہی نہیں ہیں ۔کنفیوشس کی اخلاقی اقدار سیکولر ،لبرل اور انسانی نوعیت کی ہیں ۔اس کا کہنا ہے کہ معاشرے کی بہتری چاہتے ہو تو انسانی اقدار کو اہمیت دو ۔خدا اور روح کے بارے میں جب اس سے پوچھا گیا کہ وہ کیا کہتا ہے ؟تو اس کا کہنا تھا کہ ابھی تک انسانوں کو انسانیت کے بارے میں معلوم نہیں ہوسکا ۔اس کا کہنا تھا کہ ابھی تو بندوں کو اپنا پتہ نہیں ،انسان کو چاہیئے کہ وہ اپنے آپ کو پہچانے ،یہی سب کچھ ہے ۔جب وہ خود کو نہیں جان سکتا تو خدا کو کیسے جانے گا ۔موت کے بارے میں کنفیوشس کہتا ہے کہ انسان ابھی تک زندگی نہیں سیکھ سکا ، زندگی کے بارے میں جس دن انسان کچھ سیکھ جائے گا ،سب مسائل حل ہو جائیں گے ۔اس کا کہنا تھا کہ انسان کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ زندگی کو نہیں جانتا ،لیکن موت کو جاننے کی اسے بڑی فکر رہتی ہے ۔پیدا ہوتے ہی موت کے بارے میں سوچنا انسان کی سب سے بڑی حماقت ہے ۔ایک شاگرد نے اس سے پوچھا کہ کوئی ایک ایسی بات بتادو جو زندگی گزارنے کے لئے بنیادی اصول ہو؟ تو اس نے کہا دوسروں سے وہی سلوک کرو جس سلوک کی توقع ان سے خود رکھتے ہو ۔یہ بات اس نے عیسی ؑ سے پانچ سو سال پہلے بتائی تھی ۔اس نے کہا یہی بہترین اصول ہے کہ دوسروں سے وہی سلوک کرو جس سلوک کی ان سے تمہیں توقع ہے اور یہی زندگی گزارنے کا سنہری اصول ہے ۔اس نے کہا تھا معاشرے وہی زندہ رہتے ہیں جہاں نسلی ،قومی یا ریاستی نہیں انسانی رویئے ہوتے ہیں ۔اس نے کہا دنیا اور کائنات کو انسان بہترین اور خوبصورت بنایا چاہتا ہے تو وہ اپنے اندر سے ظالمانہ رویوں کو نکال باہر کرے ۔آج پاکستان کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ ہی یہی ہے کہ یہاں انسانی رویوں کا خاتمہ ہو گیا ہے ۔اسی وجہ سے اس ملک میں بدعنوانیاں ہیں ،انتہا پسندی اور دہشت گردی ہے ۔اسی وجہ سے جرائم ہیں ،اسی وجہ سے ظلم و جبر ہے ۔اس کا کہنا تھا کہ معاشرے وہی زندہ رہتے ہیں جو الہامی کی بجائے انسانی اور روشن خیال ہوں ۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...