تقریباً پندرہ سال پہلے میکسیکو میں پیسو فرمی کے سوشل پروگرام کے تحت غریب خاندانوں کو ایک عجیب چیز بانٹی گئی۔ یہ ڈیڑھ سو ڈالر مالیت کی ریڈی مکسڈ کنکریٹ تھی۔ مزدور اپنے مکسر لے کر غریب آبادیوں میں چلے جاتے۔ ضرورت مند فیملی کے گھر کے باہر رکتے۔ اور ان کے رہائش کے کمرے میں دلیے کی طرح کا یہ مکسچر انڈیل دیتے۔ پھر بتاتے کہ اس کو کس طرح پھیلانا اور سموتھ کرنا ہے۔ کتنی دیر خشک کرنا ہے اور پھر اگلے گھر میں چلے جاتے۔
پیسو فرمی کا مطلب “پکا فرش” ہے اور سوشل پروگرام بنانے والوں کی تحقیق تھی کہ کنکریٹ بچوں کی تعلیم کا معیار بہت بہتر کر سکتی ہے۔ کیسے؟ کچے فرش والی زمین پر کیڑے بڑھتے ہیں، جو بیماریاں پھیلاتے ہیں اور بچوں کی نشوونما ٹھیک نہیں ہو پاتی۔ وہ بیمار رہتے ہیں۔ کنکریٹ کے فرش صاف رکھنا آسان ہیں۔ صحتمند بچے سکول حاضر رہتے ہیں اور تعلیم میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔ کچے فرش پر رہنے کے دوسرے نقصانات بھی ہیں۔ محققین کو معلوم ہوا کہ اس پروگرام سے مستفید ہونے والے شرکاء کے والدین زیادہ خوش اور کم سٹریس میں تھے۔ پکے فرش پر ڈیڑھ سو ڈالر اچھا خرچ تھا۔
اس پروگرام سے ہٹ کر، کئی بار کنکریٹ کی شہرت اچھی نہیں۔ اس کو ماحولیاتی لاپرواہی کا استعارہ سمجھا جاتا ہے۔ کنکریٹ ریت، پانی اور سیمنٹ سے بنتی ہے اور سیمنٹ بنانے کے لئے بہت سی توانائی درکار ہے۔ اس کو بنانے کے عمل میں کاربن ڈائی آکسائیڈ بنتی ہے جو گرین ہاوس گیس ہے۔ یہ خود میں اتنا بڑا مسئلہ نہ ہوتی لیکن بڑا مسئلہ یہ ہے کہ دنیا میں کنکریٹ بہت زیادہ استعمال ہوتی ہے۔ بہت ہی زیادہ۔ یہ مقدار پانچ ٹن فی کس فی سال ہے۔ کنکریٹ کی صنعت اتنی زیادہ گرین ہاوس خارج کرتی ہے جتنی جہازوں کی صنعت۔ آرکیٹکچر کے لحاظ سے، کنکریٹ کو سست اور بے روح سٹرکچر سمجھا جاتا ہے۔ بدصورت آفس بلاک جس میں کسی صوبائی حکومت کے کاہل بیوروکریٹ بیٹھے ہوں۔ گودام اور پلازے جن کی سیڑھیوں سے بو آ رہی ہو۔ لیکن اس سے دلکش سٹرکچر بھی بنائے جا سکتے ہیں۔
امریکی آرکیٹکٹ فرینک لائیڈ رائیٹ اس بارے میں کہتے ہیں۔ “کیا یہ پتھر ہے؟ ہاں اور نہیں۔ کیا یہ پلاسٹر ہے؟ ہاں اور نہیں؟ کیا یہ لوہا ہے؟ ہاں اور نہیں۔ کیا یہ اینٹ یا ٹائل ہے؟ ہاں اور نہیں”۔
ہزاروں سال سے ہم جانتے ہیں کہ کنکریٹ بہترین عمارتی میٹیریل ہے۔ شاید انسانی تہذیب کی صبح سے ہی۔ ایک تھیوری ہے کہ بارہ ہزار سال پہلے، جب انسان پہلی بار برادری سے بڑھ کر آبادی بنا رہے تھے اور جنوبی ترکی میں گوبیلی ٹیپے بنایا جا رہا تھا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ کسی نے معلوم کر لیا تھا کہ سیمنٹ کس طرح بنایا جائے اور پھر کنکریٹ۔ ہم یقینی طور پر یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ آٹھ ہزار سال پہلے صحرانورد مسافر کنکریٹ کے بارے میں جانتے تھے۔ یہاں پر قیمتی شے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے زیرِ زمین حوض بنائے گئے تھے جن میں سے کچھ ابھی بھی اردن اور شام میں باقی ہیں۔ مائسینین انہیں تین ہزار سال پہلے اپنے مقبروں میں استعمال کرتے تھے۔
قدیم رومی کنکریٹ کے بارے میں سنجیدہ تھے۔ پومپائی اور ماونٹ ویسوویس کے قریب آتش فشانی راکھ سے حاصل کردہ قدرتی سیمنٹ سے انہوں نے پانی کی گزرگاہیں اور حمام بنائے تھے۔ روم میں پینتھیون کی 1900 سالہ پرانی عمارت میں جائیں اور اوپر نگاہ دوڑائیں تو دنیا کا قدیم ترین گنبد نظر آئے گا۔ یہ کنکریٹ کا کرشمہ ہے۔
رومیوں کی اینٹوں کی عمارتیں ختم ہوئے مدت ہوئے۔ اس کی وجہ دلچسپ ہے۔ ایسا نہیں کہ اینٹ ختم ہو جاتی ہے۔ بلکہ یہ کہ اینٹ کو اتار کر کسی اور مقصد کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ رومیوں کی خستہ حال عمارتوں کی اینٹیں کہیں اور استعمال ہوتی رہیں۔ لیکن کنکریٹ کا پینتھیون؟ اس کے اب تک رہ جانے کی وجہ یہ بھی ہے کہ ٹھوس کنکریٹ کا سٹرکچر کسی بھی اور کام کے لئے بے کار ہے۔ اینٹ دوبارہ قابلِ استعمال ہے، کنکریٹ نہیں۔ یا تو یہ تعمیر میں ہو گی اور یا پھر ملبے کی صورت میں۔ اور کتنی جلد یہ ملبہ بن جاتی ہے؟ اس کا انحصار اس پر ہے کہ اس کو بناتے وقت کوالٹی کیسی تھی۔ تھوڑا سا کم سیمنٹ اور زیادہ ریت ہو تو بری کنکریٹ زلزلے کے وقت موت کا پھندا ہے۔ لیکن اچھی کنکریٹ واٹر پروف، طوفان سے محفوظ رہنے والی، آگ سے محفوظ رہنے والی، مضبوط اور سستی ہے۔
یہ کنکریٹ کا بنیادی تضاد ہے۔ جب کوئی چیز بنائی جا رہی ہے تو انتہائی لچکدار۔ اور ایک بار بن گئی تو انتہائی غیرلچکدار۔ کسی ماہر آرکیٹکٹ یا سٹرکچرل انجینر کے ہاتھوں میں یہ شاندار میٹیریل ہے۔ اس کو انڈیل کر کسی بھی شکل میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ اس کو رنگ کیا جا سکتا ہے۔ اس کو ملائم کیا جا سکتا ہے، سنگِ مرمر کی طرح پالش کیا جا سکتا ہے۔ لیکن جیسے ہی تعمیر مکمل ہوتی ہے تو پھر یہ ضدی اور نہ تبدیل کئے جانا والا میٹیریل بن جاتا ہے۔
کنکریٹ سب سے مستقل ہے اور سب سے عارضی بھی۔ اگلے ایک لاکھ سال میں، جب فولاد زنگ کھا چکا ہو گا، لکڑی گل چکی ہو گی، کنکریٹ باقی ہو گی۔ لیکن کنکریٹ کے سٹرکچر شاید چند دہائیوں بعد ہی ختم ہونے لگیں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک صدی پہلے کنکریٹ میں ایک انقلابی تبدیلی آئی تھی اور اس انقلابی تبدیلی کے ساتھ ہی ایک مہلک کمزوری تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرانسیسی باغبان جوزف مونئیر کو نیا گملا چاہیے تھا۔ کنکریٹ کے گملے فیشن میں آ رہے تھے لیکن یہ بھاری تھے یا پھر کمزور۔ گاہکوں کو یہ پسند تھے۔ مونیئر نے ایک تجربہ کیا جس میں فولاد کے جال پر کنکریٹ انڈیلی۔ یہ شاندار طریقے سے کام کر گیا۔ یہ ری انفورسڈ کنکریٹ تھی۔
مونئیر خوش قسمت تھے۔ اس کو کام نہیں کرنا چاہیے تھا۔ الگ میٹیریل ہوں تو پھیلنے اور سکڑنے میں الگ رفتار رکھتے ہیں اور کنکریٹ کے گملے میں دھوپ میں دراڑ پڑ جانی چاہیے تھی کیونکہ فولاد اور کنکریٹ الگ رفتار سے پھیلتے۔ اگر وہ میٹیریل انجینیر ہوتے تو ایسا تجربہ نہ کرتے لیکن ان کی لاعلمی کام کر گئی۔ عجیب اتفاق ایسا ہے کہ ان دونوں کے پھیلنے کی رفتار بالکل ایک ہی۔ یہ پرفیکٹ جوڑا تھا۔
مونیئر نے اپنی خوش قسمتی سے فائدہ اٹھایا۔ انہیں معلوم ہو گیا کہ اس سے گملے بنانے کے علاوہ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ریلوے سلیپر، تھڑے اور پائپ ۔۔۔ انہوں نے اپنی ایجاد کے کئی استعمال پیٹنٹ کروا لئے اور پیرس کی انٹرنیشنل نمائش میں انہیں 1867 میں پیش کیا۔
دوسرے موجدین نے یہ آئیڈیا اپنا لیا۔ اس کو بہتر بنایا۔ پہلے پیٹنٹ کے بیس سال کے اندر پری سٹریسڈ سٹیل بن چکی تھی۔ اس سے کنکریٹ مزید مضبوط ہو گئی۔ کم فولاد اور کم کنکریٹ کے ساتھ وہ مضبوطی آ جاتی تھی اور یہ پچھلے 130 برس سے استعمال ہو رہا ہے۔
یہ کنکریٹ پہلے سے زیادہ مضبوط اور کارآمد تھی۔ بڑے خلا پر کر سکتی تھی۔ بڑے پُل بنائے جا سکتے تھے۔ اونچی عمارتیں کھڑی ہو سکتی تھیں۔ اس نے نئی تعمیرات ممکن کیں لیکن اس کے ساتھ ہی ایک مسئلہ تھا۔ اگر کوالٹی ٹھیک نہ ہو تو پانی ننھی سی دراڑوں سے اندر رِس کر جا سکتا تھا اور فولاد کو زنگ لگ سکتا تھا۔ یہ وہ عمل ہے جو دنیا بھر میں انفراسٹرکچر کو بڑی خاموشی سے تباہ کر رہا ہے۔
دنیا بھر میں تیزی سے کنکریٹ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ صرف چین نے ہی تین سالوں میں اتنی کنکریٹ انڈیلی ہے جتنی امریکہ نے پوری بیسویں صدی میں انڈیلی تھی۔ کوئی بھی توقع نہیں رکھتا کہ ہر جگہ پر معیار پرفیکٹ ہے۔
کنکریٹ کو بہتر کرنے کے نئے طریقے آ رہے ہیں۔ اس میں خاص بیکٹیریا ڈال کر جو اس کو خود سے مرمت کر دیں۔ اس میں ٹائیٹینیم ڈائی آکسائیڈ کا اضافہ کر کے، جو شہر سے سموگ ختم کر سکے۔ اور کنکریٹ کو چمکتا سفید بھی رکھ سکے۔ شہروں کی سڑکوں پر کنکریٹ جو گاڑیوں کا دھواں صاف کر سکے۔
اس پر بھی کام ہو رہا ہے کہ اس کی پیداوار زیادہ ماحول دوست طریقے سے کیسے کی جا سکتی ہے۔ اس میں بہتری ماحولیات کے لئے اچھی خبر ہو گی۔
کنکریٹ نے انسانوں کے لئے شاندار ترین سٹرکچر بنائے ہیں۔ لیکن اس سادہ اور بھروسے والی ٹیکنالوجی سے بہت فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ دنیا بھر میں دسیوں کروڑ لوگ کے گھروں کے فرش کچے ہیں۔ دسیوں کروڑ لوگ پیسو فرمی جیسے پروگراموں کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ کنکریٹ کی سادہ سڑکوں نے دیہی بنگلہ دیش کی ترقی میں کمال کردار ادا کیا ہے۔ سکولوں کی حاضری بڑھانا، زرعی پیداوار میں اضافہ، زرعی مزدوروں کی آمدن میں اضافہ ۔۔۔ کئی بار سادہ ٹیکنالوجی بہترین کام کر دیتی ہے۔ کئی بار ٹیکنالوجی کا بہترین استعمال سادہ ترین جگہوں پر ہوتا ہے۔