کامریڈ اسٹالین ، پرولتاری مزاحمت کا نشان
5مارچ 1953،عیادت کے لیے آنے والوں کا تانتا بندھا ہو اہے ۔پولٹ بیورو کے ارکان کامریڈ اسٹالین کے سرہانے کھڑے ہیں جس پر بار بار نیم بے ہوشی کی کیفیت طاری ہو رہی ہے ۔وہ گاہے ہوش میں آتا ہے لیکن کچھ بول نہیں پاتا ۔ اسے یک بیک ہوش آتا ہے اور وہ آنکھیں کھول کر ارد گرد موجود شناسا چہرؤں پر ایک نظر ڈالتا ہے، پھر دھیرے سے سامنے دیوار کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ سب کی نگائیں دیوار کی جانب اٹھتی ہیں جس پر ایک تصویر ٹنگی ہے ۔ تصویر میں ایک چھوٹی سی بچی ایک میمنے کو سینگ کے ذریعے دودھ پلا رہی ہے ۔کامریڈ اسٹالین انگلی سے اپنی جانب اشارہ کرتا ہے اور پھر اس کی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہو جاتی ہیں ۔یہ تھے کامریڈ اسٹالین کے آخری لمحات جسے وہاں موجود افراد نے بعد ازاں بیان کیاکہ وہ کس طرح سکرات کے عالم میں بھی بذلہ سنجی کا مظاہرہ کرتا ہے ۔
5مارچ کامریڈ اسٹالین کی جدائی کا دن ۔وہ دن جب نہ صرف بالشویک پارٹی بلکہ عالمی کمیونسٹ تحریک اپنے ایک جانباز رہنما سے محروم ہوئی ۔ وہ دن جب نہ صرف محنت کار سوویت عوام بلکہ دنیا بھر کے محنت کش اپنے شفیق استاد سے محروم ہوئے ۔وہ جوکامریڈ لینن کا قابل فخر شاگرد اور لینن ازم کا عملی نمائندہ تھا ۔21دسمبر1879کو روس کے شہر گوری کے ایک مزدور خاندان میں پیدا ہونے والے بچے کا نام جوزف ویساریا نووچ جگاشولی رکھا گیا ۔یہ اور بات کہ انقلابی جدوجہد کے دوران باکو کے تیل کی صنعت کے مزدوروں میں وہ ’’کامریڈ کوبا ‘‘ کے نام سے معروف ہوا ۔ کوبا ، جارجیا کے عوام کا تاریخی ہیرو جس نے اُن کے حقوق کی جنگ لڑی تھی ۔ویسے بھی تاتاری کسانوں کی روایتی بہادری ،جوش وولولہ اور اولوالعزمی کامریڈ اسٹالین نے ورثے میں پائی تھی ۔ اس کا دادا جارجیا میں جاگیرداروں کی غلامی کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے شہید ہوا تھا ۔
کامریڈ اسٹالین نے ایک ایسے ماحول میں پرورش پائی جہاں چاروں طرف بھوک و افلاس اور بیماری ولاچاری رقص زن تھی۔زار شاہی کے روس کا چپہ چپہ محنت کشوں کی بدحالی وتباہی کا مظہر تھااور اس کی فضائیں مزدور کسانوں کی دلخراش آہوں اور سسکیوں سے بوجھل تھیں ۔اس کے چاروں طرف مدقوق جسموں اور زرد چہروں کا سمندر تھا جن کے لہو سے جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کے لیے بہاریں کشید ہوتی تھیں ۔جنھیں روسی کلیسا کی آسمانی سند تک حاصل تھیں۔ وہ ان مناظر کو عمر بھر اپنے حافظے سے تو نہ کھرچ سکا البتہ اس نظام کو روس میں بیخ وبن سے اکھاڑ پھینکا ۔
1888میں نوسالہ اس یتیم بچے کو اس کی محنت کش ماں نے گوری کے ایک مشن اسکول میں داخل کیا جہاں سے 1894میں فارغ ہوکر وہ طفلس کے ’’ آرتھا ڈاکسی سیمی ناری‘‘ نامی مذہبی ادارے میں داخل ہو ا۔محنت کش ماں اہلِ ثروت کے کپڑے اور برتن دھو کر اس کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھی تاکہ وہ پادری بن سکے۔لیکن اس کے کاندھے صلیب کا بوجھ اُٹھانے کے لیے نہیں تھے بنے بلکہ اس کے افق پر محنت کشوں کا بوجھ تھا۔ اسے مابعدالطبعیات کا نہیں بلکہ جدلیات کا عالم بننا ہے۔ اس کا شمار کالج کے ذہین ترین طلباء میں ہوتا تھا، غیر معمولی یاداشت اور ہر کلاس میں پوزیشن حاصل کرنا اس کا طرہ امتیاز تھا ۔اسے مطالعے کا بے پناہ شوق تھا ۔ جیب خرچ کے لیے تھوڑی بہت ملنے والی رقم سے وہ دیگر ضروریات کا گلا گھونٹ کر کتابیں کرائے پر حاصل کرتا تھا۔ اسی مطالعے کی عادت نے اسے روس سمیت یورپ کے معروف لکھاریوں کی تحریروں سے روشناس کیا ۔یہیں وہ مارکس اور ڈارون سے بھی آشنا ہوا ۔ اس زمانے میں وہ جارجیائی زبان میں انقلابی شاعری بھی کرنے لگا ۔’’ ممنوع کتابیں‘‘ پڑھنے کی پاداش میں کئی بار کالج انتظامیہ نے اسے سزائیں دیں ۔1898میں جب ’’ روسی سوشل ڈیموکریٹک لیبر پارٹی‘‘کا قیام عمل میں آیا تو اس 19سالہ نوجوان نے اس میں شمولیت اختیار کر لی ۔مئی 1899میں انقلابی سرگرمیوں کی پاداش میں اسے کالج سے نکال دیا گیا ۔1900میں اسے طفلس کے لیے پارٹی کا صدر منتخب کر لیا گیا ۔یکم مئی 1901 کو زار شاہی کی پابندی اور جبر وتشدد کے باوجود طفلس کے ہزاروں محنت کشوں نے کامریڈ اسٹالین کی قیادت میں سڑکوں پر یکم مئی کا جلوس نکالا۔اس موقع پر زار کی پولیس سے تصادم میں14مزدور زخمی اور 15گرفتار ہوئے ۔ کامریڈ لینن نے ’’ اسکرا ‘‘ میں اسٹالین کی خدمات کو سراہاتے ہوئے اسے کاکیشیا میں تاریخی اہمیت کا واقعہ قرار دیا ۔اس کے بعد باطوم کی مزدور تحریک میں اسٹالین کی زیر زمین سرگرمیوں کا آغاز ہوا ۔اپریل 1902میں کامریڈ اسٹالین کو زار کی پولیس نے گرفتار کر لیا اور ڈیڑھ سال کا عرصہ اس نے ’’ کتائیس ‘‘ کی بدنام زمانہ جیل میں گزارا ۔ بے پناہ تشدد اور مظالم کے باوجود پولیس اس سے پارٹی کے خفیہ پریس اور ساتھیوں کے ٹھکانے اگلوانے میں ناکام رہی ۔جولائی1903میں جب پارٹی دو دھڑوں بالشویک اور منشویک میں تقسیم ہوئی تو اسٹالین نے لینن کے بالشویک نقطہ نظر کا ساتھ دیا ۔نومبر 1903کی سرما میں اسٹالین کوتین سال کے لیے سائبریا جلاوطن کر دیا گیا جہاں سے جنوری1904میں فرار ہو کراس نے باطوم اور پھر طفلس کا رخ کیااور تیل کی صنعت کے مزدوروں کو منظم کرنے لگا ۔انہی مزدوروں نے اسٹالین کی رہنمائی میں 13دسمبر1904تا 31دسمبر1904 وہ تاریخی ہڑتال کی جس کے نتیجے میں پہلی بار روس میں اجتماعی سودا کاری کا معاہدہ ہوا ۔ یوں کامریڈ اسٹالین کو بجا طور پر روسی ٹریڈ یونین تحریک کا معمار کہا جاسکتا ہے ۔
دسمبر1905میں ’’ روسی سوشل ڈیموکریٹک لیبر پارٹی‘‘کی پہلی کُل روسی کانفرنس میں کامریڈ لینن نے پہلی ملاقات میں اس 26سالہ نوجوان انقلابی کی انتھک جدوجہد ،غیر فانی عزم و حوصلے ،غیر معمولی سیاسی سرگرمیوں اور زار شاہی کی قید وبند کا پامردی سے نہ صرف مقابلہ کرنے بلکہ سائبیریا کے خطرناک ترین مقام کی جلاوطنی سے فرار پر اسے ’’حیران کُن جارجین‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھاکہ تم واقعی مردِ آہن یعنی اسٹالین ہو۔اس نے زندگی بھر اس نام کی لاج رکھی ۔9جنوری1905کو جب روسی انقلاب کو خون میں نہلا یا گیا تو کاکیشیا میں ہونے والی ہڑتالوں اور بغاوتوں کی قیادت اسٹالین نے ہی کی ۔جون 1907میں دوبارہ باکو میں انقلابی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور مارچ 1908میں پھر گرفتار ہوا ۔1907سے 19017کے عرصے میں اسے 7بار گرفتار اور6بار جلا وطن کیا گیا ۔کامریڈ اسٹالین کے زیر ادارت چار بالشویک اخبار ’ نئی زندگی، نیا زمانہ ، ہماری زندگی ،وقت ‘ نکلتے تھے ۔ 5مئی 1912کو کامریڈ لینن کی ہدایت پر اسٹالین کے
زیر ادارت مشہور بالشویک انقلابی اخبار ’’ پرودا ‘‘ بمعی صداقت نکالا گیا جس کے دیباچے میں کامریڈ اسٹالین نے لکھا کہ ’’ ہمارے خیال میں مضبوط اور لڑاکا تنظیم نزع کے بغیر ممکن نہیں ۔سوچوں کی ہم آہنگی صرف قبرستان میں ہی حاصل ہو سکتی ہے ۔محنت کشوں کی مختلف پرتوں میں کافی چیزیں اتحاد پیدا کرتی ہیں انھیں تقسیم کرنے کی بجائے کافی زیادہ چیزیں انھیں متحد کرتی ہیں ۔‘‘صرف یہی نہیں بلکہ نظریاتی وعلمی محاذ پر اسٹالین نے منشویکوں، سوشلسٹ انقلابیوں ،اور مہا روسی قوم پرستوں کا بھی پردہ چاک کیا ۔ اسٹالین نے انارکزم کو فکری محاذ پر شکست دینے کے لیے کروپوتکن کے خلاف اپنے مشہور مقالات قلم بند کیے جو ’’لینن ازم اور انارکزم‘‘ کے نام سے شایع ہوئے ۔جنوری 1913میں اسٹالین نے قومی سوال پر اپنا مشہور ڈرافٹ ’’ قوم اور قومیتیں ‘‘ تحریر کیا جسے قومی سوال پر آج تک بنیادی ماخذ کی حیثیت حاصل ہے ۔جب کہ ان کی شہرہ آفاق کتابوں اساسِ لینن ازم،لینن ازم کے مسائل اور تاریخی وجدلی مادیت کو لینن ازم میں کلاسیک کا درجہ حاصل ہے ۔کامریڈ اسٹالین کا کیا ہوا نظریاتی اور علمی کام 14جلدوں پر مشتمل ہے ۔اکتوبر 1917میں پیٹرو گراڈمیں آخری معرکے کے لیے جب بالشویک پارٹی نے مسلح بغاوت کا فیصلہ کیا تو اس کی ذمہ داری اسٹالین کو ہی سونپی گئی تھی۔عظیم اکتوبر انقلاب کی کامیابی کے بعد کامریڈ اسٹالین قومی امور کے کمیسار مقرر ہوئے ۔جب اس انقلاب پر خانہ جنگی اور بیرونی مداخلت مسلط کی گئی تو اسے فرو کرنے میں تاریخی کردار ادا کیا جسے پر اسے ’’ہیرو آف دی ریڈ فلیگ ‘‘کے اعزاز سے نوازا گیا ۔3اپریل 1922کو کامریڈ لینن کی تجویز پر کامریڈ اسٹالین کو پارٹی کا جنرل سیکریٹری چنا گیا اور30دسمبر 1922کو وہ سرخ اتحادِ شوروی وجود میں آیا جو دنیا بھر میں سوویت یونین کے نام سے معروف ہوا ۔
21جنوری19224کولینن کی رحلت کے بعد یہ کامریڈ اسٹالین ہی تھے جنھوں نے پارٹی کے اندر ابھرنے والے ٹٹ پونجیے رحجانات کے خلاف بالشو ازم کا پرچم بلند رکھا ۔ یہ وہی رحجانات تھے جن کے متعلق جرمنی کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے ( بریست معاہدہ ) کے موقع پر لینن نے مرکزی کمیٹی کے دو ارکان کے بارے میں کہا تھا کہ ’’ بخارن اور ٹراٹسکی نے دراصل جرمن سامراجیوں کی مدد کی اور جرمنی میں انقلاب کی ترقی کے راستے میں رخنہ انداز ہوئے ۔‘‘( لینن ،مجموعہ تصانیف ،جلد 22، صفحہ 37)
6مارچ 1918کو پارٹی کانگریس میں بریست معاہدے کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے لینن نے کہا کہ ’’ پارٹی کے اندر ایک انتہا پسند مخالف گروپ قائم ہونے کے باعث ہماری پارٹی جس شدید بحران سے گزر رہی ہے ،روسی انقلاب کو اس سے زیادہ شدید بحران کا کبھی مقابلہ نہیں کرنا پڑا ۔‘‘ ( لینن ،مجموعہ تصانیف ،جلد 7، صفحہ 293)
کامریڈ اسٹالین کی قیادت میں ایک طرف تو ان انقلاب دشمن رحجانات اور سازشوں کا قلع قمع کیا گیا تو دوسری جانب زار شاہی کے پچھڑے ہوئے روس کو محض تین دہائیوں میں ایک جدید صنعتی ملک بنادیا گیا ۔ سامراجی ممالک نے جو ترقی چار، پانچ صدیوں تک ایشیاء ، افریقہ اور جنوبی امریکا کے وسائل کی لوٹ مار، قتل عام، انسانی غلامی اور قبضہ گیری کے ذریعے کی اس کے سامنے سوویت یونین کی اجتماعی محنت کی بنیاد پر اس ترقی کی انسانی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
دوسری عالمگیر جنگ میں فاشزم کو تہہ تیغ کرنا بھی کامریڈ اسٹالین کی قیادت میں ہی ممکن ہو سکا ۔ اسٹالین گراڈ کی ناقابل فراموش لڑائی کا شمارجنگی تاریخ کے چند ایک بڑے کارناموں میں ہوتا ہے جو جولائی 1942کے وسط میں شروع ہوئی اور دسمبر کے آخر میں ختم ہوئی ۔ اس جنگ میں سرخ فوج سوشلسٹ مادر وطن کے ایک ایک انچ کے لیے جس بے جگری سے لڑی اس نے دنیا کو حیران کر دیا ۔اس زمانے میں 90سالہ سوویت شاعر کامریڈ جمبول جابر کے اشعار سوویت یونین کے طول وعرض میں گونجنے لگے اور اسی زمانے میں ہمارے ممتاز انقلابی شاعر مخدوم محی الدین نے اسے اردو کا پیراہن عطا کیا اور برصغیر کے کروڑوں باشندوں نے سنا
برق پا وہ مرا رہوار کہاں ہے لانا
تشنہ ء خوں مری تلوار کہاں ہے لانا
میرے نغمے تو وہاں گونجیں گے
ہے مرا قافلہ سالار جہاں استالین
اسٹالین گراڈ کے محاذ پر نازیوں کو منہ کی کھانی پڑی۔ان کے 260ڈویژن فوج کے مقابل سرخ فوج کے محض 59ڈویژن تھے جو فاتح رہے ۔90ہزار جرمن فوجی قیدی بنائے گئے جن میں 24جنرل شامل تھے ۔ کم ہی لوگ جانتے ہوں گے کہ اس جنگ میں اسٹالین کے بیٹے یاکووکوبھی نازیوں نے قید کر لیا تھا اور اس کے بدلے اپنے جنرلوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا جسے اسٹالین نے مسترد کر دیااور نازیوں نے اسے عقوبت خانے میں اذیتیں دے کر قتل کر دیا۔ سوویت یونین کے پونے تین کروڑ نفوس اس جنگ میں کام آئے تھے ۔ لیکن دنیا نے9مئی 1945کا وہ منظر بھی دیکھا جب جرمن نسل پرستی کی علامت سواستیکا ،درانتی اور ہتھوڑے سے مزین سرخ پرچم کے سامنے سرنگوں تھا ۔فاشزم کی کبر ورعونت کی علامت جرمن پارلیمنٹ ’ریشتاغ‘ پر ایک سوویت سپاہی نے سرخ پرچم لہرا کر فسطائیت کی موت کا اعلان کیا ۔ سچ تو یہ ہے کہ یورپ وامریکا کے سفید فام لبرل نسل پرستوں نے اس منظر کو آج تک فراموش نہیں کیا ۔انھیں آج بھی یہ تکلیف ہوتی ہے کہ ’مشرق کا رنگدار باشندہ‘ اسٹالین آکر مغرب کو آزاد کراتا ہے ۔ اسٹالین کا یہ جرم ان کے نزدیک ناقابلِ معافی ہے ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اس کے جلو میں مشرقی یورپ سے لے کر چین ، کوریا،ویت نام اور منگولیا تک میں سرخ سویرا طلوع ہوتا ہے اور دنیا کی نئی بندر بانٹ کا سامراجی منصوبہ ناکام ہوتا ہے ۔ساحر لدھیانوی نے اسی فتخ کے جذبوں سے سرشار ہو کر کہا تھا
برتر اقوام کے مغرور خداؤں سے کہو
آخری بار ذرا اپنا ترانہ دھرئیں
اور پھر اپنی سیاست پہ پشیماں ہو کر
اپنے ناکام ارادوں کا کفن لے آئیں
کامرید اسٹالین کی کامیابیوں کا اعتراف اس کے ایک بڑے مخالف لیون ٹراٹسکی کا نامور پیرو اور چوتھی انٹر نیشنل کا روحِ رواں ٹیڈ گرانٹ یوں کرتا ہے’’ 27ملین افراد کے قتلِ عام کے باوجود سوویت یونین ہٹلر کو شکست دینے میں کامیاب ہو گیا اور1945 کے بعد ایک مختصر عرصے میں اپنی تباہ و برباد معیشت کو دوبارہ ترقی دیکر دنیا میں دوسری عظیم طاقت بنکر ابھرا۔ 1917میں ایک پسماندہ ،نیم جاگیردارانہ اور ناخواندہ افراد کی ایک بڑ ی آبادی والا ملک سوویت یونین ایک جدید ترقی یافتہ ملک بن گیا ۔جس میں دنیا کے چوتھائی حصہ سائنسدان موجود تھے ۔صحت اور تعلیم کا توایسا نظام تھا کہ یا تو یہ ملک مغربی ممالک کے برابر تھا یا اُن سے بھی زیادہ ترقی یافتہ تھا ۔اس نے پہلا خلائی سیارہ تیار کیا اور پہلے انسان کو خلا میں پہنچایا ۔‘‘(ٹیڈ گرانٹ۔روس انقلاب سے ردِ انقلاب تک ۔ صفحہ 35)
دوسری عالمگیر جنگ کے بعدجب امریکا بہادر کے زیر پا سرد جنگ کا آغاز ہوا تو کامریڈ اسٹالین نے تجارتی ،اقتصادی اور سفارتی ناکہ بندیوں سمیت ساری سازشوں کا کامیابی سے مقابلہ کیا ۔
کامریڈ اسٹالین کاایک اور مخالف آندرے گرومیکو جو خروشچیف سے لے کر گوربا چوف کے عہد تک اہم عہدوں پر متمکن رہا ،1985سے1988تک سپریم سوویت کی مجلس عاملہ کا صدر رہا اور
اسی نے پارٹی سیکریٹری جنرل کے لیے گوربا چوف کا نام تجویز کیا ،وہ لکھتا ہے کہ ’’ اسٹالین نے اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کے بل بوتے پر لینن کی وفات کے بعد بڑی کامیابی سے کمیونسٹ پارٹی کا
شیرازہ سمیٹے رکھا اور تیس سال تک ایک بڑی قوت کے سربراہ کی حیثیت سے اہم ذمہ داریوں کا سامنا کرتے ہوئے فیصلہ کن کردار ادا کیا ۔سرخ فوج کے سپاہی اسے سراہتے تھے اور مزاحمتی جنگجو اس کا نام ہونٹوں پر لیے اپنی جانیں قربان کرتے تھے ۔‘‘ ) یاداشتیں ، از آندرے گرومیکو، صفحہ123 (
کامریڈ اسٹالین بجا طور پر نہ صرف سوویت یونین بلکہ عالمی سوشلزم کا معمار تھاجس کی سعی پہیم سے کئی ایک خطوں میں سوشلزم فتحیاب ہوا ۔ یہی وجہ ہے کہ ماؤزے تنگ، ہوچی منھ، کم ال سنگ، انوار ہوژا سمیت عالمی کمیونسٹ تحریک کے قائدین نے ہمیشہ اپنے استاد کا ذکر احترام سے کیا ہے۔ ماؤزے تنگ اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’ آج بنی نوع انسان کی غالب اکثریت مصائب کا شکار ہے اور بنی نوع انسان صرف اسٹالین ہی کی بتائی ہوئی راہ پر چل کر اور ان ہی کی مدد سے ان مصائب سے چھٹکارہ حاصل کر سکتی ہے ۔ایسے دوست جو ہمارے ساتھ حقیقی ہمدردی رکھتے ہیں اور ہمیں بھائیوں کی طرح سمجھتے ہیں ،یہ کون لوگ ہیں ؟سوویت عوام اور اسٹالین ۔کوئی دوسرا ملک چین میں اپنی مراعات سے دستبردار نہیں ہوا ،صرف سوویت یونین نے ہی ایسا کیا ہے‘‘۔ ( چینی عوام کا دوست اسٹالین۔ منتخبات ماؤزے تنگ صفحہ 486)
دوسری عالمگیر جنگ کے بعد سوویت یونین نے راکھ کے ڈھیر سے تعمیر کا آغاز کیا ۔ 9فروری1946کو تیسرے پانچ سالہ منصوبے کا اعلان کیا گیا اور اس منصوبے نے بھی اپنے اہداف مقررہ وقت سے پہلے1950میں حاصل کر لیے۔دوسری عالمگیر جنگ کے بعد امریکی سامراج ایٹمی قوت کے نشے میں بدمست تھا مگر1949میں کامریڈ اسٹالین کی قیادت میں سوویت یونین نے پہلا ایٹمی دھماکہ کر کے اس میدان میں اس کی برتری ختم کر دی ۔1950میں جب امریکی سامراج کی ایماء پر مقبوضہ کوریا( جنوبی کوریا) کی کٹھ پتلی افواج نے عوامی جمہوریہ کوریا پر حملہ کیا تو یہ کامریڈ اسٹالین ہی تھے جنھوں نے عوامی جمہوریہ کوریا کو مدد فراہم کی ۔دیگر سامراجی ممالک کی افواج کے ہمراہ جب یانکی سامراج نے عوامی جمہوریہ کوریا پر باقاعدہ جارحیت کی تو سوویت یونین کی مدد سے چینی رضاکار کامریڈ کم ال سنگ کے شانہ بشانہ کھڑے تھے ۔یہاں تک کہ 1953میں امریکا کو ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
کامریڈ اسٹالین کی وفات کے بعد پارٹی میں سرائیت کر جانے والے روسی ترمیم پسندوں اور منحرفین کے سرغنہ خروشچیف نے ان کی وفات کے تین سال بعد فروری 1956میں بدنام زمانہ سات گھنٹے کی ’’ خفیہ تقریر‘‘ میں اسٹالین کی کردار کشی اور بے سروپا اتہامات کی ہر ممکنہ کوشش کر ڈالی جنھیں مغربی سامراجی میڈیا نے مزے لے لے کر شایع کیا ۔البتہ اسی ماسکو میں لینن اور اسٹالین کے فکری وارث البانوی انقلاب کے روحِ رواں اور ترمیم پسندی کے سیلاب کے سامنے ڈٹ جانے والے کامریڈ انور ہوژانے نومبر1961میں اکیاسی کمیونسٹ اور مزدور پارٹیوں کے اجلاس میں خروشچیف اورمقتدر ٹھگوں کے ٹولے سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ’’البانیہ کی مزدور پارٹی نے اسٹالین کے سوال پر حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کیا ۔ایک ایسے عظیم مارکسی کی بابت یہ درست اور احسانمدانہ رویہ تھا جس کی زندگی میں تو ہم میں سے کوئی بھی شخص ’’ اتنا بہادر‘‘ نہ تھا کہ سامنے آئے اور اس پر تنقید کرے مگر جس کے انتقال کے بعد اس پر کیچڑ اچھالی جانے لگی اور کیچڑ اچھلنے سے یہ تاثر پیدا کیا جانے لگا کہ سوویت یونین کے اس شاندار دور کا کوئی رہنما ،کوئی کھیون ہار نہ تھا جس میں دنیا کی پہلی سوشلسٹ ریاست وجود میں آئی، جب سوویت یونین بلوان بنا اور اس نے سامراجیوں کو شکست دے کر ٹراٹسکی نوازوں ،بخارن نوازوں اور زمینداروں کے پورے طبقے کی طاقت چھینی، جب بڑے پیمانے کی صنعت لگی اور معیشی اجتماعیت کی فتح ہوئی ۔غرضیکہ وہ دور جب سوویت یونین ایک عظیم الشان طاقت بنا اور سوشلزم رائج کرنے میں کامیاب ہوا ،جب اس نے دوسری عالمی جنگ لڑنے اور فاشزم کو شکست دینے میں بہادری کے وہ جوہر دکھائے جس کی داستانیں ہو شربا ہیں ۔وہ دور جب سوویت یونین نے ہماری اقوام کو آزاد کرایا اور ایک طاقتور سوشلسٹ برادری قائم کی ۔ اس دور کے کارنامے بے شمار ہیں ،مگر کیا اس دور میں قیادت کرنے والا کوئی نہیں تھا ؟۔البانیہ کی مزدور پارٹی سمجھتی ہے کہ اس سارے دور کے ذکر سے اسٹالین کے نام اور عظیم کام کا ذکر خارج کرنے کی جو نئی ریت چلی ہے یہ نہ درست ہے اور نہ مارکسزم کے مطابق ہے ۔ہم سب کو اسٹالین کے اچھے اور لازوال کام کے حق میں آواز بلند کرنی چاہیے ۔ جو نہیں کرتا وہ موقع پرست اور بزدل ہے ۔‘‘اور پھر اسی اجلاس میں کامریڈ انور ہوژ انے خروشچیف کے گل میخ میکو یان سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ ’’ میکویان نے کہا ہے کہ ہم اسٹالین پر ان کی زندگی میں تنقید اس لیے نہیں کر سکتے تھے کہ اسٹالین ہمارے ہاتھ کاٹ ڈالتے ۔ ہمیں یقین ہے کہ ہماری کھلی تنقید کی پاداش میں اب خروشچیف ہمارے ہاتھ نہیں کاٹیں گے ۔‘‘
بہر کیف ان الزامات کا پوسٹ مارٹم برسوں بعد2011 میں امریکا کے ممتازانقلابی دانشور پروفیسر گروورفر سوویت آرکائیوز کی مدد سے کرتے ہیں اور اپنی کتاب میں اسے جھوٹ کا پلندہ ثابت کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی سوویت آرکائیوز کا کوئی نام نہیں لیتا کہ ان دستاویزات سے کامریڈ اسٹالین اور سوویت یونین کے خلاف برسوں کیے گئے سامراج اور اس کے شامل باجوں کے جھوٹے پروپیگنڈے کی تصدیق نہیں ہوتی ۔جھوٹ کا وہی پلندہ جس کے بارے میں کامریڈ اسٹالین نے خود کہا تھا کہ ’’میں جانتا ہوں کہ میری موت کے بعد میری قبر پر جھوٹ کا پلندہ ڈھیر کیا جائے گا لیکن تاریخ جلد یا بدھیر بے رحمی سے اس کا صفایا کر دے گی ۔ ‘‘
خروشچیف سے لے کر گوربا چوف اور بورس یلین تک ترمیم پسندی اور انحرافات کی یہی دیمک تھی جو سوویت یونین کی بنیادوں کو چاٹ گئی درآں حالیکہ 1991میں سوویت یونین سمیت سوشلسٹ بلاک ہی منہدم ہو گیا ۔مارکس ، اینگلز ،لینن اور اسٹالین کے مجسمے گرائے گئے ، تاریخ کے خاتمے جیسامضحکہ خیز اعلان کیا گیا ،سرمایہ داری کی دائمی فتح کی نوید دی گئی اور لبرل جمہوریت جس کی پور پور خون میں ڈوبی ہے اسے واحد شافی نسخہ قرار دیا گیا ۔آج1903میں مستردہونے والے اور بیس کی دہائی میں متروک ہونے والے افکار کو سوشلزم کے نئے ورژن کے طور پر پیش کرنے کی ترمیم پسندانہ ریت بھی چلی ہے لیکن لا حاصل۔بھوک ، غربت ،جنگیں، قتل عام ، مذہبی انتہا پسندی ،فسطائیت ہی لبرل سرمایہ داری کی کوکھ سے جنم لیتی ہے ۔وقت کی کھسوٹی پر مارکس ، اینگلز ،لینن اور اسٹالین کے افکار ہی کھرے ثابت ہوئے اور ہو رہے ہیں ۔ اس انقلابی ورثے کے مقابل جتنے’’دیو پیکر‘‘ اصنام تراشے گئے اور تراشے جا رہے ہیں ان کی وقعت نقش بر آب بونوں سے زیادہ نہیں ۔طبقاتی مبارزے کے نئے میدانوں اور نئی حکمت عملیوں میں بھی ان انقلابی اساتذہ کے افکار بنیادی ماخذوں کا کام دیتے رہیں گے ۔پرولتاری مزاحمت کے نشان کے طور پر کامریڈ اسٹالین کی یاد تابندہ رہے گی ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“