(چھٹی برسی کے موقع پر خراجِ تحسین)
اسکول کے زمانے میں جب رسول بخش پلیجو کی تحریروں سے آشنائی ہوئی تو ان کے لکھے ہوئے مضامین کے ساتھ ان کو تصویر میں بھی دیکھا۔ اس وقت ایسا لگا کہ جیسے رسول بخش پلیجو کوئی روح ہیں۔ وہ ایک روح ہی تھے اس لئے اپنی تمام جدوجہدوں کو سمیٹے سرُ سنگیت کی دنیا میں پناہ گزین ہوگئے تھے۔میرے سامنے سندھ میں کوئی ایسی مثال نہیں کہ کسی دانشور نے کوئی موسیقی کا کلب بنانے کے بعد موسیقاروں کو نئی نئی دھنیں تخلیق کرنے کا بندوبست کیا ہو۔ شاید لطیف شناسی نے پلیجو سائیں کو سرُ سنگیت میں پوشیدہ طاقت کے پہلو سے آشنا کیا ہو۔
سندھ میں سائیں رسول بخش نے جس وقت آگہی کا پرچم بلند کیا اس دور میں سائیں جی ایم سید جیسا بڑا آدمی اپنا بے پناہ وجود رکھتا تھا۔ سید کے تناور برگد کے نیچے ایک نئے پودے کا اپنی اٹھان دکھانا کسی معجزے سے کم نہ تھا۔ ایک طرف سائیں جی ایم سید کی تحریک اپنے عروج پر تھی تو دوسری طرف ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے ہم جولی سندھی اشرافیہ کی سیاست کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ ایسے ماحول ایک انقلابی کی نئی بھرپور اور توانا آواز ابھری جس نے سید کے ڈیرے سے وابستہ اور ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست کے ہمنوا طبقے کو چونکادیا۔ درویش صفت رسول بخش واقعی کسی رسول کا بخشا ہوا تھا کہ وہ پیغمبروں کی طرح عملی جدوجہد پر یقین رکھتا تھا۔انہوں نے عام دہقانی عورتوں کے شعور کو تسلیم کرتے ہوئے جس سندھیانی تحریک کی بنیاد ڈالی ایسی تحریک کی کوئی بھی مثال برصغیر میں نہیں ملتی ہے۔کیا کسی سیاسی رہنما یا دانشور نے عام دہقانی عورت کی دانش کو تسلیم کیا تھا؟ ۔ شاید سائیں رسول بخش کا وژن صرف موجودہ دور کے لئے بلکہ اگلے زمانوں کے لئے تھا تو وہ ان بچیوں کے اذہان کو جدید فکر سے روشن کررہا تھا جنہیں کل ماں بن کر اس فکر کو اپنے بچوں میں منتقل کرنا تھا۔ وہ آگ کا الاؤ روشن کر کے وقتی طور پر آنکھوں کو خیرہ کرنے والی روشنی پھیلانے کے بجائے ایسے چراغوں کو روشن کررہا تھا جن بہت سے چراغ قطار در قطار گوٹھوں سے شہروں تک اپنی روشنی پھیلاتے جائیں۔ سندھیانی تحریک سے وابستہ ماؤں بہنوں کے دلوں میں نوُر بھرنے والے چراغ ایسے ہوں جنہیں ظلمت کے دیوتا بجھانے پر قادر نہ ہوں۔
سائیں رسول بخش گفتار کے غازی نہیں کردار کے غازی تھے اسی لئے لفظ “ پوریو” زندگی بھر اس کی جدوجہد کا محور رہا۔۔۔ وہ سوچ اور فکر سے زیادہ عملی جدوجہد پر فوکس کرتا تھے۔ پلیجو صاحب کی سیاست نے سوویت یونین کی اٹھان اور اس کی شکست و ریخت کا زمانہ دیکھا ہے۔ ہم بلاشبہ پلیجو صاحب کو تیسری دنیا کا انڈوجینس مارکسسٹ رہنما کہہ سکتے جو اس لحاظ سے ماؤزے تنگ کے نقش قدم پر بھی چل رہا تھا کہ وہ سمجھتا تھا کہ سندھ میں تبدیلی کسانوں کی شمولیت کے بغیر ناگزیر ہے۔
سائیں رسول بخش کو قدیم باشندوں یا قدیم تہذیب کا مارکسسٹ کوئی خوشامدانہ تعریفی لقب نہیں بلکہ یہ ایک حقیقت کا آئینہ دار ہے۔ سندھ ایک ایسی سرزمین ہے کہ جس کے ساتھ تاریخ کے انقلابات نے کچھ اس طرح کے ظلم ڈھائے تھے کہ یہاں کے قدیم فرزندوں کو نہ صرف اقلیت میں بدل دیا تھا بلکہ انڈس تہذیب کے ان بچے کچے وارثوں، میگھواڑ، بھیل اور کولہیوں کو اچھوت بنادیا تھا۔ سندھ کے مالک یہ میگھواڑ، بھیک اور کولہی صدیوں کی مسلسل دھتکار سے نفسیاتی طور پر خود کو کو سندھ میں باہر سے آکر حکمرانی کرنے والوں کے مقابلے میں اپنے آپ کو واقعی کمتر سمجھنے لگے تھے۔ ایک مشہور قول ہے کہ ہر انسان کو قید سے نکالا جاسکتا ہے مگر اس قیدی کو رہا کرانا ممکن نہیں جسے اپنے پیروں میں پڑی زنجیر اور ہاتھوں میں پڑی ہتھکڑیوں سے پیار ہوجائے۔ رسول بخش پلیجو ایک ایسا ساحر تھا کہ جس نے میگھواڑوں ، بھیلیوں اور کولہیوں کو سمجھایا کہ غلامی کی ان دیکھی زنجیروں سے پیار نہیں نفرت کی جاتی ہے۔ یہ ان کا پسی ہوئی اقوام کو ایک جذباتی سہارا تھا۔ان کی سیاسی تربیت اور ان کے دئیے ہوئے شعور کا نتیجہ تھا کہ وشنو مل میگھواڑ، ہمیرو مل میگھواڑ،وسند تھری ،دیال صحرائی ، پردیپ گلاب ، کبیر بھیل سارنگ بھیل ،لچھمی بھیل ، مگنو کولہی سندھ قومی تحریک کے چوٹی کے رہنما بن گئے۔ پلیجو صاحب کی تربیت نے نہ صرف مستضعف اقوام سے رہبران پیدا کئے بلکہ ان درماندہ اقوام کے عام لوگوں میں سیاسی شعور پیدا کرکے یہ احساس اجاگر کیا کہ وہ کسی بھی طرح ان سے کم نہیں جنہیں ان پر صدیوں سے حکمرانوں کے طور پر مسلط کردیا گیا ہے۔
سائیں رسول بخش پلیجو سندھ کے رئیسوں کی دعوت کو تو نظر انداز کردیتے تھے مگر کسی میگھواڑ، بھیل یا کولہی کی دعوت کو نہیں ٹھکراتے تھے۔ دہقانی مزاج رکھنے والے رسول بخش کے لئے دودھ کے ساتھ خشک روٹی ہی کافی ہوتی تھی، اس کی سنگت میں دسترخوان پر جو نظریات، افکار شاعری اور اس کی تشریح اور سرُ سنگیت کے گہرے سمندروں سے نکالے گئے نایاب موتی ہی اصل نعمت ہوتے تھے ۔ چھوت چھات کے خلاف عملی جدوجہد کا سب سے بڑا ثبوت رسول بخش پلیجو نے اس طرح دیا تھا کہ انہوں نے اپنے باورچی خانے میں ہمیشہ میگھواڑ اور کولہی باورچی رکھ کر دنیا کو دکھایا کہ انسان میں اونچ نیچ انسانیت کے خلاف سب سے بھیانک جرم ہے۔ پپلیجو صاحب کے اس عمل سے متاثر ہوکر سندھ کے بہت سے روشن دماغ و اعلیٰ ذات کے نظریاتی ساتھیوں نے ان کچلی ہوئی ذاتوں کے ہم نوالہ و ہم پیالہ ہونے کا رواج ڈالا۔ رسول بخش پلیجو نے شعور کی تحریک کو صرف سندھیانی تحریک کی صورت میں خواتین تک ہی محدود نہیں رکھا تھا بلکہ اس شعور کو بچوں تک پھیلانے کے لئے “سجاگ بار تحریک“ کے نوزائیدا پودے کو نظریاتی خوراک سے سینچا تھا۔ ایک دور میں “ سجاگ بار تحریک “ کے مرکزی صدر کبیر بھیل بنے, اس پر ملا طبقہ کو بہت تکلیف ہوئی تھی، ان کو یہ کب گوارا ہوسکتا تھا کہ ایک ہندو اور وہ بھی نچلی ذات کا مسلمان بچوں کا رہنما بنے۔
سائیں ساٹھ کی دہائی میں جب قومی جمہوری انقلاب کے خواب اس ڈگر پر اشرافیہ کی اجارہ داری کے باعث پورے نہیں ہوسکے تھے تو اس نازک دور میں سائیں رسول بخش نے سندھیوں کو پوسٹ کولونیل کنفیوژن سے نکالنے کی بھرپور کوشش کرتے ہوئے انہیں سندھی قومیت کی طاقت پر یقین دلوایا۔ رسول بخش پلیجو کے سیاسی نظریات کو ان کے ادبی نظریات کو سمجھے بغیر جاننا بہت مشکل ہے۔ سائیں رسول بخش نے بے تکان و بے انتہا لکھا ہے۔سائیں رسول بخش نے اپنے نظریات کی پہلی سیڑھی پر وڈیرہ شاہی کی مخالفت کرتے ہوئے یہ درس دیا ہے کہ یہ طبقہ سندھ کی قومی آزادی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور ایک طرح سے سندھ دشمن ہے۔اس کے بعد سائیں بتاتے ہیں کہ ان وڈیرہ شاہی کی پشت پناہی مڈل کلاس کرتی ہے یوں وہ بورژوا اور پھر پیٹی بورژوا کو اپنا ہدف تنقید بناتے ہیں۔ انہوں نے نہرو کو اس کی تبدیلیوں کی ناکامی کو اسی بنیاد پر ہدف تنقید بنایا کہ نہرو کی تبدیلیوں کی اساس بھی اشرفیائی طبقے کی تھی۔ رسول بخش پلیجو کی فکر کی توانائی کی معراج یہ تھی انہوں نے پاکستان کے سرخی پاؤڈر ٹائپ ترقی پسندوں پر کھل کر تنقید کی۔خاص طور سے پلیجو صاحب نے اپنے مضامین میں پنجاب کے ترقی پسند دانشوروں اور کراچی کے اردو اسپیکنگ کمیونسٹوں سے کھل کر مکالمہ اور ان پر دلائل سے تنقید کرتے ہوئے سندھ کی قومیت کے نظریہ کا دفاع کیا ہے۔رسول بخش پلیجو نے اپنے مضامین میں مارکس ، لینن اور ماؤ کی تصنیفات کے اقتباسات سے استفادہ کرتے ہوئے سندھ قومیت پر اپنا تھیسس قائم کیا ہے۔انہوں سندھ کے دشمنوں کو بھی اپنی تحریر میں نمایاں کیا ہے اور ان کی نشاندہی بھی کی ہے کہ جو دشمن تو نہیں مگر دشمن کے ہاتھوں استمعال ہو رہے ہیں اور انہوں نے وڈیروں میں بھی صاحب فکر افراد کی نشاندہی کی ہے جو سندھ قومی انقلاب کا حصہ بن سکتے ہیں۔ پلیجو صاحب نے کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر لکھے گئے تنقیدی مضمون میں پلیجو صاحب سندھ کے لیڈر سے نکل کر تیسری دنیا کے لیڈر کے طور پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سندھ کا دکھ صرف سندھ کا دکھ نہیں بلکہ تیسری دنیا کا دکھ ہے۔پلیجو صاحب کو اس بات پر راسخ یقین تھا کہ مزدور کسان مل کر ہی تبدیلی لا سکتے ہیں۔ البتہ پلیجو سائیں نے بہت احتیاط کے ساتھ سندھ دوست جاگیردار طبقہ کو بھی جدوجہد کا شریک مانا ہے مگر صرف مقصد کے حصول تک۔رسول بخش پلیجو کے انقلاب کا تصور صرف سندھ تک محدود نہیں انہوں نے پاکستان بھر کے کچلے ہوئے طبقات کو اس انقلاب کی جدوجہد میں شرکت کی دعوت دی ہے۔
کالا باغ ڈیم پر ٹی وی پر میں نے بہت سے مذاکرے دیکھیں ہیں مگر جس طرح سے سندھ کا کیس رسول بخش پلیجو نے لڑا اس کی مثال ملنا ممکن نہیں ہے۔ آج جس طرح سے تھرپارکر کی زمینوں کی بندر بانٹ ہورہی ہے، جس طرح تھر کے وسائل پر قبضہ کیا جارہا ہے یہاں تک کہ تھر کے ماتھے کے جھومر کارونجھر کو بھی بار بار سنگ فروشوں کے ہاتھوں بیچنے کی کوشش ہورہی ہے اگر سائیں رسول بخش پلیجو زندہ ہوتے تو سندھ ایک ایک فرزند اس لوٹ مار پر باہر نکل کر قبضہ گروپوں کی رات کی نیندیں حرام کردیتا۔
یوں تو پاکستان میں بہت سے سیاسی رہنما گزرے ہیں مگر کوئی بھی سیاسی رہنما اس درجہ کا صاحب مطالعہ و صاحب قلم نہیں تھا جیسے پلیجو صاحب تھے۔ ان کی لکھی ہوئی کتابیں ، مضامین ، تقاریر، انٹرویوز اور خاص طور سے کالا باغ ڈیم پر کئے گئے مذاکرے پاکستان بھر کے سیاسیات کے طالب علموں کے لئے مشعل راہ رہیں گے۔ موسیقی ، سر و سنگیت کو اپنی جدوجہد میں استمعال کرنے والا رسول بخش پلیجو دراصل ایک ایسا گڈریا تھا جس کی بھیڑوں کا غول بہت بکھر چکا تھا، وہ اپنی کسی بھی بھیڑ کو بھیڑئیے کی نذر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ ساری عمر ان بکھری ہوئی بھیڑوں کو خونخوار بھیڑیوں کے خطرات سے بچاتے رہا۔
(نیدر لینڈ کا رہائشی صفدر زیدی ایک نامور ناول نگار ہے۔ چینی جو میٹھی نہ تھی، بھاگ بھری اور بنتِ ڈاہر ان کے مشہور ناول ہیں)۔