کمپیوٹنگ کی دنیا کے 4 مشکل ترین مسئلے
سپر کمپیوٹر بہت طاقتور ہو گئے ہیں، اتنے طاقتور کہ ایک ہزار ٹریلین یاquadrillion آپریشنز فی سیکنڈ کی رفتار کو بھی عبور کرگئے ہیں۔ ایک کواڈ ریلین میں ایک کے بعد 15 صفر آتے ہیں۔ اس وقت دنیا کا تیز ترین سپر کمپیوٹر چین کا تیار کردہ Sunway TaihuLight ہے جس کی رفتار93 پیٹا فلوپس یا93 کواڈ ریلین فلوٹنگ پوائنٹ آپریشنز فی سیکنڈ ہے۔ یہ رفتار کتنی زیادہ ہے اس بات کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اگر دنیا میں موجود ہر شخص کے پاس ایک کیکولیٹر ہو جس پر وہ فی سیکنڈ ایک حساب (جیسے جمع یا تفریق) انجام دے ، تو 143 دن لگا تار یہ عمل کرنے کے بعد وہ اتنے حسابات انجام دیں پائیں گے جو Sunway TaihuLight صرف ایک سکینڈ میں کرڈالتا ہے۔ ایک عام پروسیسر کی رفتار عموما چند گیگا فلوپس فی سیکنڈ تک ہوتی ہے۔مثلاً 2.5گیگا ہرٹز کے سنگل کور پروسیسر کی رفتار 10 گیگا فلوپس تک ہوتی ہے۔
لیکن یہ بھوک ابھی ختم نہیں ہوئی۔ سائنس دان ایسے سپر کمپیوٹرز بنانا چاہتے ہیں کہ جن کی رفتار پیٹا فلوپس کی حد کو بھی عبور کرتے ہوئے ہیگزا فلوپس (exaflops) تک پہنچ جائے۔ لیکن وہ ایسا کیوں چاہتے ہیں؟
اتنی زبردست طاقت رکھنے والے سپر کمپیوٹرز کے باوجود کچھ ایسے پیچیدہ مسائل ہیں جنہیں حل کرنے کی کوشش میں سپر کمپیوٹرز کا بھی پسینہ نکل جاتا ہے۔ ان میں سے چار مشکل ترین مسائل یہ ہیں:
مجازی آب و ہوا
وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلیاں شدید سے شدید تر ہوتی جا رہی ہے۔ ہر سال ہی ایسا سننے میں آتا ہے کہ گرمی یا سردی کے پچھلے اتنے سالوں کا ریکارڈ ٹوٹ گیا اور یہ ریکارڈ ٹوٹنے کا سلسلہ پچھلے چند سالوں سے جاری ہے۔اگست 2014 ء نے تو پچھلے 135سالوں کے گرم ترین اگست ہونے کاریکارڈ قائم کر دیا۔اسی موسمیاتی تبدیلیوں اور ان کے اثرات کے بارے میں پہلے سے جاننے کے لیے سائنسدان مجازی ماحول بنانا چاہتے ہیں۔
موسمیاتی سرگرمیوں پر نظر رکھنے، موسم کی پیش گوئی کرنے جیسے کاموں کے لئے سپر کمپیوٹر کثرت سے استعمال کئے جاتے ہیں۔ دنیا بھر کے محکمہ موسمیات ان کمپیوٹرز کی مدد سے سیمولوشن تیار کرتے ہیں اور آنے والے کل کے بارے میں خاصی درست معلومات فراہم کرتے ہیں۔ محکمہ موسمیات کی ٹی وی پر پیش کردہ مختصر سی فلم جس میں بادلوں اور ہوا کو ادھر سے ادھر جاتے ہوئے دکھایا جاتا ہے، کو تیار کرنے کے لئے سپر کمپیوٹرز کو گھنٹوں لگ جاتے ہیں۔
آج کا سب سے بہترین سپر کمپیوٹر بھی موسمیاتی تحقیق کے لئے ناکافی طاقت رکھتا ہے۔ اگر کرہ ارض ایک تصویر ہو تو بہترین سپرکمپیوٹر ایک پکسل میں 14 مربع کلومیٹر کا احاطہ کرسکتا ہے۔ اگر سائنس دان ایسا سپر کمپیوٹر تیار کرنے میں کامیاب ہوجائیں جو کہ ہیگزا فلوپس فی سیکنڈ کی رفتار پر کام کرتا ہو تو ایک پکسل 1 مربع کلومیٹر کا احاطہ کرسکے گا۔ اگرچہ مرضی کے نتائج تو شاید پھر بھی سائنس دانوں کو نہ ملیں لیکن موسم کی پیش گوئی مزید درست ہوجائے گی۔
ڈیجیٹل خلیئے
مستقبل میں ادویات بنانے والی کمپنیاں ٹیوبس اور پیٹری ڈشز میں تجربات کرنے کی بجائے سپر کمپیوٹر سے کام لیا کریں گی۔ بیماریوں کے لیے ادویات بنانے کا کام الگورتھم سے لیا جائے گا۔ محقق ایسا سافٹ وئیر بنائیں گے جو مختلف کیمیائی اجزاء کے انسانی جسم پر اثرات بتائیں گے۔ سپر کمپیوٹر پر ڈیجیٹل ادویات کے ٹیسٹ کیے جا سکیں گے۔
اس مقصد کے لئے مالیکیولر ڈائنامکس نامی ٹیکنالوجی استعمال کی جاتی ہے۔اس طریقے میں انفرادی ایٹموں یا مالیکولز کی طبعی حرکت کی کمپیوٹر سمولوشن تیار کی جاتی ہے اور پھر ان پر دیگر ایٹم، مالیکول یا قوت لگا کر ردعمل دیکھا جاتا ہے۔اس ٹیکنالوجی کے ذریعے بیالوجی، کیمسٹری اور میٹریل سائنس کے مسائل حل کیے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے آج تک کے تیزرفتار ترین سپر کمپیوٹر سے بھی سائنسدان صرف اس قابل ہوئے ہیں کہ ایٹموں کے چھوٹے مجموعے پر ہی مالیکیولر ڈائنامکس کو آزما سکیں۔جبکہ انسانی خلیہ اربوں ،کھربوں ایٹموں سے مل کر بنا ہوتا ہے ، موجودہ کمپیوٹرز پر ان کا ماڈل بنانا انتہائی مشکل اور پیچیدہ ہے۔ امید ہے کہ مستقبل کے سپر کمپیوٹر زیادہ ایٹموں کے مجموعوں کی ماڈلنگ کر سکیں گے اور زیادہ کارگر ادویات بنائی جاسکیں گی۔
مستقبل کا ایندھن
ہم بطور ایندھن جن مادوں خاص طور پر ہائیڈرو کاربنز کا استعمال کرتے ہیں، وہ کیسے جلتے ہیں اس کے بارے میں ہمیں مکمل طور پر علم نہیں۔ احتراق (combustion) کا مطالعہ کرنے والے ماہرین اس معاملے میں اندازوں کے سہارے چلتے ہیں۔
موجودہ دور کے سپر کمپیوٹرز کے ذریعے الکحل کی طرح کے سادہ ایندھن کے جلنے کے عمل اور ردعمل کے ماڈل بنائے جا سکتے ہیں،مگر گیسولین اور بٹا نول (butanol) جیسے پیچیدہ ایندھن کے جلنے کے عمل اور ردعمل کے ماڈل بنانے کے لیے ہمیں بہت زیادہ طاقتور کمپیوٹر درکار ہونگے۔ سائنس دان چاہتے ہیں کہ یہ کام جلد کرلیا جائے تو اچھا ہے۔ کیونکہ دنیا میں معلوم تیل و گیس کے ذخائر تیزی سے کم ہورہے ہیں اور اگلی صدی میں ہائیڈرو کاربن فیول قدرتی طریقے سے شاید دستیاب نہ ہوپائے۔ اس لئے مصنوعی طور پر بنائے گئے ایندھن کی اہمیت دو چند ہوجاتی ہے۔
کائنات کی کہانی
طاقتور سپر کمپیوٹرز ہمارے کائنات میں وقوع پذیر ہونے والے ایسے واقعات کے اوپر روشنی ڈال سکتے ہیں جن تک رسائی ہمارے لئے ممکن نہیں۔ سائنس دان حتمی طور پر اب تک یہ نہیں جان پائے کہ کائنات کے بننے کا عمل کیسے شروع ہوا، کائنات کے ابتدائی چند سیکنڈز کے دوران کیا واقعات پیش آئے، ستارے کیسے بنتے ہیں اور ستارے کیسے مرتے ہیں۔
سپر نووا خاص طور پر سائنس دانوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔ یہ وہ ستارے ہوتے ہیں جو جسامت میں بہت بڑے ہوتے تھے اور موت کے بعد زبردست دھماکے سے پھٹ جاتے ہیں۔ اس دھماکے کے نتیجے میں اتنی توانائی پیدا ہوتی ہے کہ پوری کہکشاں اس کی وجہ سے روشن ہوجاتی ہے اور جب تک یہ دھماکہ ٹھنڈا پڑتا ہے اس وقت تک یہ اتنی توانائی خارج کرچکا ہوتا ہے جو سورج جیسے ستارے اپنی پوری زندگی میں مجموعی طور پر پیدا کرتے ہیں۔ ہمارے کائنات میں بھاری دھاتوں جیسے لوہا، سونا، چاندی کا اصل ماخذ بھی یہی سپر نووا ہیں۔
سائنسدان چاہتے ہیں کہ ایسا کمپیوٹر ماڈل بنایا جائے جو کہ سپر نووا بننے کے عمل کو سمجھنے ٘میں ان کی مدد کرے۔ لیکن ایسا اسی وقت ممکن ہے جب ہمارے پاس ایگزا اسکیل سپر کمپیوٹر ہو۔
اتنی زیادہ طاقت کے سپر کمپیوٹر حاصل ہونے کے بعد بھی ہو سکتا ہے کہ سائنسدانوں کے لیے مزید ایسے مسائل سامنے آئیں جن کو حل کرنے کے لیے سائنس دان مزید طاقتور کمپیوٹر کی خواہش کریں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“