چلیے مان لیا کہ یہ منصوبہ تھا بلکہ ایک قدم آگے سہی، سازش تھی! لندن میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی ملاقات ہوئی۔ سرگوشیاں کی گئیں، ایک دوسرے کی ہتھیلی پر ہتھیلی زور سے ماری گئی۔ دونوں نے اپنی اپنی آنکھ کا ایک ایک کونہ بھی میچا۔
یہ بھی مان لیا کہ یہ فساد تھا۔ تخریب تھی، یہ کوئی طریقہ نہیں کہ چند ہزار … بلکہ چند سو سر پھرے افراد جمع ہوکر حاکم وقت کے استعفیٰ کا مطالبہ کریں اور آئین اور جمہوریت کی توہین کریں۔ یہ بھی مان لیتے ہیں کہ پاکستان عوامی تحریک کے دھرنے میں شامل سب لوگ ادارہ منہاج القرآن کے ملازم ہیں۔ انہیں دھرنے میں بیٹھنے کا معاوضہ ملتا ہے۔ بلکہ کچھ کو تو زرعی زمینیں یعنی مربعے بھی الاٹ کیے گئے ہیں۔ ڈالروں کی بھرمار ہے۔ ساری رات ڈاکٹر طاہرالقادری کنٹینر میں ڈالر گنتے ہیں اور صبح تقسیم کرتے ہیں۔
یہ بھی درست تسلیم کرلیتے ہیں کہ عمران خان کی زبان ناشائستہ ہے۔ وہ ہر پارٹی ہر سیاست دان پر حملہ آور ہورہا ہے۔ اس کے اردگرد جو سیاستدان جمع ہیں وہ خود سٹیٹس کو کی علامت ہیں۔
یہ بھی مان لیتے ہیں کہ مافوق الفطرت غیبی قوتیں دھرنے کی پشت پناہی کررہی ہیں۔ کچھ سبزپوشوں کو تو رات کے اندھیرے میں بادلوں سے اترتے خود ان صحافیوں نے دیکھا ہے جو اس معرکے میں جمہوریت اور آئین کی خاطر تن من دھن لٹانے کو تیار ہیں۔ نون لیگ اور پیپلزپارٹی کے پڑھاکو قسم کے ارکان نے سکرپٹ بھی خود پڑھا ہے۔ بعض نے تو پڑھتے وقت کچھ خاص سطور ہائی لائٹ اور انڈر لائن بھی کی ہیں۔
یہ بھی درست تسلیم کرلیتے ہیں کہ عمران خان یہودی لابی کا ایجنٹ ہے۔ اس کے پاس ایسی واکی ٹاکی ہے جو براہ راست اسرائیل سے مربوط ہے۔ موشے دایان کو ڈیرہ اسماعیل خان کے مولانا صاحب نے زمان پارک میں چہل قدمی کرتے خود دیکھا ہے۔ شوکت خانم ہسپتال تعمیر ہی اسرائیل کے مستریوں نے کیا تھا جو دراصل موساد کے ایجنٹ تھے۔ جو نام نہاد یونیورسٹی عمران خان نے بنائی ہے اس میں ہر روز صبح کی اسمبلی میں زبور تلاوت ہوتی ہے۔ عمران خان کے بیٹے اسرائیل میں زیر تعلیم ہیں۔ دونوں ہر روز صبح لنچ بکس اٹھائے لندن سے تل ابیب آتے ہیں اور شام کو چھٹی کرکے واپس لندن پہنچ جاتے ہیں۔
یہ بھی مان لیتے ہیں کہ دھرنے میں فحاشی اور خلاف اخلاق مناظر عام ہیں۔ رقص و سرود سکھانے کی کلاسیں منعقد ہوتی ہیں، ریما اور نرگس پڑھانے آتی ہیں۔ خود عمران خان بھی لیکچر دیتے ہیں۔
یہ بھی درست ہے کہ خیبرپختونخوا میں حالات ابتر ہیں۔ پنجاب پولیس، وہاں کی پولیس کو دیانت داری سکھانے آئی تو عمران خان نے کوتاہ نظری کا ثبوت دیتے ہوئے اسے لاہور واپس بھیج دیا۔ اقربا پروری زوروں پر ہے۔ صوبے کا نظم و نسق عملاً عمران خان کے بیٹوں کے ہاتھ میں ہے۔ بیورو کریسی کی تعیناتیاں ، ترقیاں تبادلے جمائما کررہی ہیں۔ میانوالی گروپ چھایا ہوا ہے۔ جو شخص میانوالی کے محلہ ’’ ماڈل ٹائون‘‘ سے تعلق رکھتا ہو، اسے بڑا منصب سونپ دیا جاتا ہے۔ نیازی برادری‘ جو اپنے ناموں کے ساتھ بٹ‘ ڈار یا خواجہ لکھتی ہے، ہر شعبے پر ٹڈی دل کی طرح چھا گئی ہے۔
اس میں کیا شک ہے کہ آئین خطرے میں ہے۔ آئین کے سارے مطبوعہ نسخے پی ٹی آئی کے کارکنوں نے بازار سے خرید کر چھپا دیے ہیں تاکہ عوام آئین سے محروم ہوجائیں۔
یہ سب کچھ مان لیتے ہیں۔ سارے الزامات درست ہیں۔ لیکن تعجب اس بات پر ہے کہ گھبرانے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا پارلیمنٹ کے معزز ارکان ان جمہوریت دشمن فسادیوں کا بندوبست دوامی کرنے کے لیے کافی نہیں ؟ آخر جناب اچکزئی کی موجودگی میں پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ حاسدوں کو ان کا گورنر بھائی اور ایم این اے ، ایم پی اے رشتہ دار نظر آجاتے ہیں لیکن اندھوں کو یہ نظر نہیں آتا کہ ان کی چادر جسے وہ دیانت داری سے لپیٹتے ہیں، کتنی دبیز ہے۔ سب کچھ اس میں چھپ جاتا ہے۔ سید خورشید شاہ حلف اٹھانے کو تیار ہیں کہ بیٹے کی شادی پر انہوں نے کنڈا لگایا نہ آج تک انہوں نے کسی کی بھرتی‘ تقرری‘ تعیناتی‘ تبادلے اور بیرون ملک پوسٹنگ کے لیے سفارش کرکے دوسروں کا حق مارا۔ جناب امین فہیم لاکھوں کروڑوں روپے سالانہ ٹیکس دیتے ہیں اور ہر روز صبح سات بجے بیدار ہوکر وظائف و تسبیحات کرتے ہیں۔ پیپلزپارٹی پر خاندانی اجارہ داری کا الزام یوں بھی تہمت سے زیادہ نہیں اس لیے کہ بلاول تو بھٹو فیملی کا نہیں، زرداری خاندان کا وارث ہے۔ جمہوری کلچر کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ پارٹی ایک اور خاندان کو سونپ دی جائے۔
رہے شریف خاندان کے محلات تو اللہ کے بندو! وہ تو رائے ونڈ میں ہیں ہی نہیں۔ وہ تو جاتی امرا میں ہیں اور جاتی امرا بھارت میں ہے۔ شریف خاندان اپنی کاروباری سرگرمیوں کو نہ صرف حکومت سے بلکہ پاکستان اور پاکستانیوں سے بھی الگ رکھتے ہیں۔ سنا ہے شرق اوسط کے ایک ملک میں فیکٹری کے لیے غیر پاکستانیوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ انتہا کی یہ دیانتداری افسوس صد افسوس ! ایک دنیا کو معلوم ہے صرف عمران خان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے۔
یہ بات فہم سے ماورا ہے کہ جب عمران خان اور طاہرالقادری کے ساتھ عوام ہیں ہی نہیں اور یہ دونوں جعل سازی اور فریب کاری کے مرتکب ہورہے ہیں تو پھراسپغول کی بھوسی ٹنوں کے حساب سے کیوں استعمال کی جارہی ہے۔بقول ظفر اقبال ؎
کوئی گڑ بڑ اگر نہیں ہے تو پھر
کیوں لیے پھر رہے ہو ساتھ کموڈ
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“