انڈونیشیا کے شہر جکارتہ سے اڑنے والا سریوی جایا ائیر لائین کا بوئنگ 737 جہاز اڑنے کے چند منٹ بعد ہی ریڈار سے رابطہ منقطع کرگیا یعنی سمندر میں گر گیا اور مرنے والوں میں عملے سمیت تمام مسافر شامل ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا دوران ہوائی سفر ایسی کوئی تکنیک نہیں ہے کہ ایسی صورتحال میں مسافر جہاز چھوڑ سکیں جس کی ترغیب فلائیٹ کے آغاز میں دی جاتی ہے۔ کوئی بھی ہوائی حادثہ ہو کوئی بھی زندہ نہیں بچتا جبکہ عملہ جو مسافروں سے بھی زیادہ ٹرینڈ اور ویل ایکویپڈ ہوتا ہے بھی اپنی جان نہیں بچا سکتا۔
کار کے حادثات میں سیٹ بیلٹ اور ائیر بیگ جن کے استعمال سے ہماری قوم کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہونے والی اموات کو 75 فیصد تک روکتے ہیں جبکہ ہوائی سفر میں یہ صرف جھٹکے سے ہونے والے نقصان سے بچا سکتے ہیں جبکہ جہاز کریش کرنے کی صورت میں کوئی مدد نہیں کرسکتے۔
سفر کی ابتدا میں ایمرجنسی صورتحال میں جہاز سے نکلنے کے راستے بتائے جاتے ہیں کہ اگر جہاز کریش لینڈگ کرگیا ہے جو کسی رن وے کی بجائے میدان میں ہوسکتی ہے یا کسی طرح محفوظ طریقے پانی پر اتر گیا ہے جیسا کہ امریکہ میں ایک پائیلٹ نے دریائے ہڈسن میں طیارہ اتار دیا تھا تو یہ لائف جیکٹ آپ کو پہن کر باہر نکلنا ہے تاکہ ڈوبنے اور مزید چوٹ سے آپ کے جسم کو بچا سکے۔ عموما ایمرجنسی دروازے بھی تب کھولے جاتے ہیں جب جہاز رک جائے۔ یہ ایک آئیڈیل بچاو کی صورتحال ہے جس سے بہت کم واسطہ پڑتا ہے۔ زیادہ تر جہاز لینڈنگ یا فلائیٹ لیتے ہی گر جاتے ہیں اور پائیلٹ کو بہتر جگہ چننے کا موقع ہی نہیں ملتا۔
پچھلے پانچ سال میں ہونے والے حادثات میں صرف 9 فیصد حادثات دوران فل فلائیٹ ہوئے باقی سب لینڈنگ یا ڈیپارچر کے وقت اس لئے مہلک ثابت ہوئے۔
ایک سوال یہ ہے کہ جب دوران فلائیٹ معلوم ہوجاتا ہے جہاز گرنے والا ہے تو مسافروں کو پیراشوٹ کے ذریعے کیوں نہیں چھلانگیں لگوا دی جاتیں۔ تو جواب یہ ہے کہ کمرشل فلائیٹس میں پیرا شوٹ نہیں رکھے جاتے اس کی سب سے بڑی وجہ ان کا وزن ہے۔ اگر پیراشوٹ اور اس سے منسلک ہیلمٹ، الٹیمیٹر جمپنگ سوٹ اور اگر ممکن ہو تو آکسیجن سلنڈر بھی شامل کریں تو 200 مسافروں کی فلائیٹ کا وزن تقریبا 10000 کلو یعنی 10 ٹن بڑھ جائے گا جس کو تناسب کرنے کے لئے جہاز میں جگہ درکار ہوگی، انجن زیادہ پاورفل چاہیں ہونگے، مسافروں کی ٹکٹ پرائس میں اتنا اضافہ ہوگا کہ سب کہیں گے رہنے دو ہمیں ضرورت نہیں ہے۔ ہم سالوں سے سفر کررہے ہیں کبھی ایسا نہیں ہوا جو اب ہوگا۔
ایسی سہولیات سے لیس فلائیٹ کو پریمئیم فلائیٹ کہا جاسکتا ہے لیکن یہاں بھی بچنے کے چانسز کم ہونگے کہ پیراشوٹ پہن کر چھلانگ لگانا، لنگی پہن کر نہانے کے برابر نہیں ہے۔ اس کے لیے کم از کم 4 گھنٹے کی ٹریننگ اور بےشمار قسم کی پریکٹس درکار ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر ایک انسٹرکٹر کے ساتھ جمپ لگایا جاتا ہے جو دیار غیر سے وطن عزیز جاتے ہوئے بلاشبہ ساتھ نہیں ہوگا۔
پیراشوٹ جمپنگ کے لئے درکار لوازمات میں جہاز کی بلندی اور سپیڈ بنیادی فیکٹر ہے۔ عام کمرشل فلائیٹ 35000 فٹ کی بلندی پر جاتی ہے اور سپیڈ 600 میل فی گھنٹہ جبکہ ایک آئیڈیل فری فال جمپ کے لئے ہائیٹ 9000 سے 12000 فیٹ تک ہونی چاہئے اور جہاز کی سپیڈ 100 میل فی گھنٹہ کے لگ بھگ۔ بڑے سے بڑا کاریگر سکائی ڈائیور بھی 15000 فٹ بلندی سے زیادہ سے چھلانگ نہیں لگاتا کہ باہر آکسیجن کا لیول تقریبا زیرو، ائیر پریشر اتنا کہ پھیپھڑے پھٹ جائیں اور سردی مائنس 30 تک ہوگی۔ اس صورتحال میں ہائی پوکسیا ہونے کا تقریبا 100 فیصد چانس ہے جو آکسیجن کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے اور فوری بےہوشی یا موت نتیجہ نکل سکتا ہے۔
اگر آپ اس ناگہانی صورتحال میں پائیلٹ سے فرمائش کریں گے بھائی جہاز تھوڑا نیچے لے آو مجھے جمپ کرنا ہے تو وہ ضرور یہی کہے گا کہ تو آکر چلا لے میری بس ہے ادھر۔
اگر 12000 فٹ سے کم بلندی سے جمپ کرنا ہے تو 200 مسافروں کو یکے بعد دیگرے باہر نکالنے کے لئے جو نظام درکار ہے اس افراتفری صورتحال میں بالکل ممکن نہیں۔
اس لئے ہر ہوائی سفر سے پہلے اپنی ٹریول انشورنس لازمی کروائیں تاکہ لواحقین کو صبر جمیل کسی حد تک آسکے۔