کالم نگاری نہ ادب و شاعری ہے،نہ تقریر و خطابت کا نام ہے۔اور نہ سیاست کا،بلکہ یہ حکایت و داستاں سرائی ہے ۔یہ بیک وقت صحافت و ادب بھی ہے اور شاعری بھی،کالم نگاری داستاں گوئی بھی ۔یہاں تک کہ وہ تقریر و خطابت کی شعلہ سامانی کو اپنے دامن وسیع میں سمیٹے ہوئے ہے ۔کالم نگار کا قلم بھی شعلے برساتا ہے اور کبھی شبنم تو کبھی معاشرے کے ناسور پر نشتر لگاتا ہے اور کبھی دلوں پر مرہم بھی رکھتا ہے۔
کالم کے معنی و مفہوم :
کالم یا کالم نویسی فرانسیسی لفظ(Columna)اور لاطینی زبان کے لفظ(Colomne ) سے ماخوذ ہے۔جس کے معانی(کھمبا یا ستون )کے ہیں۔اخبار نویسی کے اس فن کی ابتدا جنگ اول کے آخری وقتوں میں ہوئی۔
کالم اخباری زبان کی قدروں کی شناخت کرتا ہے۔جتنی اچھی (خبر )ہوگی اتنا ہی کالم اچھا ہوگا۔اور اچھی خبر کی بنیاد حقیقت میں پانچ ڈبلیوز
(W )Why,What,When,Where,Who
اور تھوڑا بہت حصہ How کا بھی ہوتا ہے ۔اسی طرح اردو میں لفظ(ک)ہے ۔یعنی(کیا،کون،کب،کہاں،کیوں ) شامل ہیں ۔
کالم نویس کسی واقعے،حادثے وغیرہ کو اپنی علمی استعداد اور مشاہدے کے ذریعے کالم میں زیر تحریر لاتا ہے ۔
کالم نگاری کی اقسام:
ویسے تو کالم نگاری کی کئی اقسام ہیں ۔لیکن بنیادی یہی ہیں ۔جن سے اور قسمیں بنتی ہیں ۔
اسلوبی اقسام:
اسلوبی اقسام میں فکاہی کالم(مزاحیہ انداز )،سنجیدہ، اقتباسی ،ترکیبی مکتوبی،اور علامتی کالمز کو شامل کیا گیا ہے ۔
موضوعاتی اقسام:
اسی طرح طبی،دینی،قانونی،نفسیات،
اقتصادیات،کھیل پامسڑی(علم نجوم)اور فیشن پر لکھے گئے کالم وغیرہ ۔
مشاہداتی کالم'
سیاحت کے موضوع اور ڈائری نما کالمز بھی مشاہداتی کالم کہلاتے ہیں ۔
کالم نگاری کے بارے میں خیالات:
کالم نگاری کے بارے میں ابن انشاء کچھ اس طرح رقم طراز ہیں ۔"میں کالم کو(Essay ) مضمون سمجھتا ہوں جس طرح مضمون بے کراں چیز ہے کالم بھی ہے "
عطاء الحق قاسمی کے"کالم ایک تحریری کارٹون ہوتا ہے جس میں کالم نویس الفاظ سے خاکہ تیار کرتا ہے "
ماضی کے چند کالم نگار :
چراغ حسن حسرت،عبدالمجید سالک،نصراللہ خان،وقار انبالوی،ابراہیم جلیس اور شوکت تھانوی وغیرہ ۔
اسلوب کیا ہے ؟
اسلوب یا طرز_نگارش کو انگریزی میں(Style )کہتے ہیں۔اردو میں اس کے لیے "طرز یا اسلوب "کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔یہ افکار و خیالات کے اظہار و ابلاغ کا ایسا پیرایہ ہوتا ہے۔جو دلنشین بھی ہو اور منفرد بھی۔عربی اور جدید فارسی میں اس کو (سبک) کہتے ہیں۔ان تمام الفاظ کی اگر اصل پر غور کرنے سے ہی یہ انداذہ ہوسکتا ہے کہ اسلوب میں ترصیع یا صناعی(Ornamentation )کا مفہوم شامل رہا ہے۔
سب سے پہلے لفظ Style کو دیکھ لیں ۔یہ یونانی لفظ Stilus سے نکلا ہے۔جو ہاتھی دانت،لکڑی یا کسی دھات سے بنا ہوا ایک نوکیلا اوزار ہوتا ہے،جس سے موم کی تختیوں پر حروف و الفاظ یا نقوش کندہ کیے جاتے تھے۔
جدید فارسی اور عربی زبان میں اسٹائل کے لیے(سبک)استعمال ہوتا ہے۔اصل مصدری معنی میں عربی لفظ ہے۔(سبک،یسبک) یعنی(ضرب،یضرب )کے لغوی معانی ہیں دھات کو پگھلانا اور سانچے میں ڈھالنا۔یعنی کوئی خوش نما شکل دے دینا۔چنانچہ اس کا عربی میں مفہوم "کلام کو حشو و زوائد سے پاک کرنا "بھی ہے۔
ہندی میں اس مفہوم کو لفظ(شیلی) بولا جاتا ہے۔اگرچہ اس کی اصل لفظ شیل ہے جو اصول،برتاو،ڈھب اور ڈھنگ کا مفہوم ادا کرتا ہے۔شیلی کا مفہوم عین وہی ہے۔جو عربی میں اسلوب کا ہے۔
اردو میں اس کے لیے ایک لفظ(انداز )بھی مستعمل ہے۔
کالم نگار کی ذمہ داری:
کالم نگار معاشرے میں وجود پذیر ہونے والے نظریات و تحریکات کا بالا ستیعاب مشاہدہ کراتا ہے،کالم نگار اگر ظالم و مظلوم،حاکم و محکوم کے لئے تازیانہ ہے تو وہیں معاشرے کے مجبور و بے کس کے لئے شمع فروزاں بھی ہے۔ کالم نگاری صحافت کے دائرہ میں بھی آتی ہے ۔
کالم نگاری کا دائرہ کار:
کالم نگاری کا دائرہ کار اور دائرہ عمل اس قدر پھیلا ہوا ہے کہ اس کی سماجی و سیاسی،تہذیبی و تمدنی،اخلاقی اور ہمہ گیر وسعت اور معنویت سے کون انکار کر سکتا ہے ۔اس کے اعتراف میں اکبر الہ آبادی یوں گویا ہیں۔
کھینچو نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو
جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو
کالم نگار کے لیے ہدایات :
کالم نگار کو قاری کے وقت کی قدر و قیمت کو سامنے رکھنا چاہیے ۔
غیر ضروری طوالت،لفاظی اور افسانوی انداز سے اجتناب کرنا چاہیے۔
کالم میں دئیے گئے مواد کا تسلسل کسی قیمت جدا نہیں ہونا چاہئیے ۔
ذاتی انا سے بالاتر ہو کر ملک و قوم کی بہتری کے لیے لکھا جائے۔