اللہ خالق السمٰوٰت والارض اور فالق الحب والنواة، بدیع السمٰوٰت والارض نے ہر اچھی اور مفید چیز پیدا فرمائی۔ واشرقت الارض بنور ربھا۔ زمین بھی رب کے نور سے منور ہوئی۔ عدم روشنی کا نام اندھیرا ہے۔
آج کا موضوع یعنی کرپشن بھی اسی قسم سے تعلق رکھتا ہے۔
لغوی معنی:
انگریزی کی لغت میں ہر معاشرتی برائی اس لفظ کے مطالب میں سمائی دکھائی دیتی ہے۔
اس کی تشریح میں لغت میں ہر برا لفظ موجود ہے…بددیانتی، بدعنوانی، بے ایمانی، خرابی، گمراہی، سڑن، گلن، بد اخلاقی، بد قماشی، بداخلاقی عدم وضعداری، بدعنوانی، رشوت، ناپاکی، بے حیائی، زبان کا بگاڑ، بد کرداری، بد اعمالی، بد خصلتی، خیانت، چوری، حقوق غصب کرنا۔
ذرا سوچیں کہ ان سب خرابیوں کو جب ایک لفظ کرپشن میں سمویا جاتا ہے تو اس لفظ کی کیا اہمیت بن جاتی ہے اور یہ عمل معاشرے کا چہرہ کس طرح مسخ کرتا ہے اس کے خلاف جنگ دراصل جہاد ہے۔
حالاتِ حاضرہ:
ہم بڑے آرام سے کہہ دیتے ہیں کہ مغربی معاشرہ میں عدل و انصاف ہے، وہ لوگ اسلامی تعلیم پر عمل پیرا ہیں جبکہ اسلامی ممالک میں کرپشن انتہا کو پہنچی ہوئی ہے، ان کے معاشرہ میں امن و سکون ہے، مساوی حقوق دیئے جاتے ہیں اور مذہبی اور رائے کی آزادی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
یہ باتیں مجبور کرتی ہیں کہ اس موضوع کو مذہب کے سامنے رکھا جائے اور دیکھا جائے کہ خالقِ کائنات ہم سے کیا چاہتا ہے؟
مذہب اور کرپشن:
ابتدائے آفرینش سے خالق نے انسانیت اور روحانیت کی بقا کے لیے تعلق باللہ کی اہمیت کے پیش نظر سلسلہء انبیاء کا آغاز فرمایا۔
توحید باری تعالیٰ وہ کلمہء واحد ہے جس کی طرف تعالوا الٰی کلمةِِ سوآءِِ بیننا و بینکم۔ والی آیت قرآنی توجہ دلاتی ہے۔ ایک خالق، ایک مالک، ایک رب، ایک قادر و قدیر کی طرف ہی سب کی توجہ ہونی چاہیے اور اس کے فرامین کو ہی مدنظر رکھنا چاہیے۔
گو اس وقت میں پرانا عہد نامہ اور نیاعہد نامہ اپنے مضمون کے ثبوت کے طور پر پیش کر سکتا ہوں وید اور گیتا اور گرنتھ کے حوالہ جات بھی دے سکتا ہوں اور بدھ کی تعلیمات دھم چک پوتن سُت یعنی سات ابدی سچائیاں کے حوالہ جات سے اپنے مضمون کو مزین کر سکتا یوں، ارسطو کی بوطیقا بھی میرے مدنظر ہے اور میکاولی کی شیطان صفت کتاب The Prince کے مضامین بھی از بر ہیں لیکن میں ان سب کی نسبت احسن القصص پر مشتمل قرآن کریم کو ہی ترجیح دیتا ہوں جس کی لفظی و معنوی ثقاہت ہر معاملہ میں ہمیشہ اول درجہ پر رہی ہے۔ مستشرقین بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں۔
قرآن کریم اور کرپشن:
انتہائی اعلی پیرایہ میں قرآن کریم نے مختلف اقسام خیانت بیان کی ہیں اور ضرورتِ انبیاء کی طرف نہ صرف توجہ دلائی ہے بلکہ سلسلہء انبیاء کی افادیت کو کرپشن جیسے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے سے جوڑا ہے اور زوائد سے پاک کر کے مختصر لیکن جامع انداز میں قصص کی حقیقت کو پوری ذمہ داری سے بیان فرما کر تاقیامت محفوظ کر دیا ہے۔
قرآن کریم محض مذہبی صحیفہ نہیں بلکہ ایک ضابطہء حیات ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخ و سیرت اور روایات و اصول و اسلوبِ روایات کا اعلی و افضل و اکمل و احسن مجموعہ ہے۔ دنیا کی ہر ایک مشکل اور مصیبت کا نقشہ کھینچنے اور ہر ایک مسئلہ کا آسان ترین قابلِ عمل حل پیش کرنے میں لاثانی و بے نظیر ہے اگر کسی کو اس میں ذرا برابر بھی شک ہو تو میرے ساتھ کسی بھی مسئلے پر محض قرآنی حوالے سے بات کر کے دیکھ لے۔ میں بڑے ادب سے اپنے ہر دعویٰ کی دلیل قرآن کریم سے پیش کر سکتا ہوں۔ الحمدللہ
ترے عشق سے ملے ہیں مجھے جذب و مستئ دل
ترا لفظ لفظ شاید مرا جام جام ٹھہرا
(منیب)
کرپشن کی اقسام:
کرپشن دو قسم پر منقسم ہے۔
1: انفرادی یعنی باہمی
2:. اجتماعی یعنی ایسی کرپشن جس سے ایک سے زائد لوگ متاثر ہوں۔
انفرادی کرپشن:
یہ ایسی خیانت اور بددیانتی ہے جو آپس میں۔جُڑے ہوئے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ کرتے ہیں۔ قرآنِ کریم نے اس کی مثال بھی شرک سے دی ہے۔ یعنی معاشرہ فردِ واحد سے تشکیل نہیں پاتا بلکہ معاشرہ کی اکائی میاں بیوی ہیں۔ میاں بیوی اگر ایک دوسرے سے خیانت کرتے ہوئے باہمی حقوق ادا نہیں کرتے نہ ہی اپنے فرائض ٹھیک طرح سے ادا کرتے ہیں تو وہ گھر کی بنیاد ہی کرپشن پر رکھ رہے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ جو اپنے منکوحہ جوڑوں کے علاوہ دوسرے مردوں اور عورتوں سے جنسی روابط بڑھاتے ہیں ان کو بھی اللہ تعالی نے مشرک کہا ہے۔ وہیں سے کرپشن کی ابتدا ہو جاتی ہے۔ اس میں بدنظری، تقریب زنا، زنا، ولد الزنا، خیانت باہمی وغیرہ جیسی کرپشن جنم لیتی ہے جو آگے جا کر ایک غلیظ معاشرہ قائم کرنے کا باعث بنتی ہے۔
2: اجتماعی کرپشن:
یہ کرپشن دراصل انفرادی کرپشن کا ہی نتیجہ ہو جس میں قوم اجتماعی طور پر قعرِ مذلت میں گری ہوتی ہے۔
کرپشن شاخسانے:
زمین میں زلازل کیوں آتے ہیں؟ دریاوں کو اس قدر پانی کون مہیا کرتا ہے کہ وہ اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود اسے سنبھالنے سے قاصر ہو کر انسانی بستیوں کو ًرق کر دیتے ہیں؟ سمندروں میں جوار بھاٹے کا ذمہ دار کون ہے؟ جزائر کے سینہ پر آباد انسانیت کس کے حکم پر پانی میں خس و خاشاک کی طرح بہہ جاتی ہے؟ کیا یہ سب ازخود ہو جاتا ہے؟ کیا کائنات کی تخریب و تعمیر خود بہ خود انجام پاتی ہے؟ نہیں بلکہ ایک مسبب الاسباب ہستی ہے جو یہ سب نظام چلا رہی ہے جس کا ذاتی نام " اللہ" ہے۔
لمحہء فکریہ:
کیا خالق اپنی تخلیق کو بے دردی سے نابود کر سکتا ہے؟ کیا کوئی مصور اپنے شاہکار کو ظلم کی راہ سے پھاڑ پھینکتا ہے؟ کیا کوئی مصنف اپنی تصنیف کو خوشی سے حوالہء نار کر سکتا ہے؟ تو کیسے ممکن ہے کہ خالق کون و مکاں اپنی قدرت و قوت تخلیق کے شاہکار انسان کو جسے احسن تقویم کے سانچے میں ڈھالا ہے، زمین پر پٹخ کر توڑ دے تو کبھی بے رحم طوفانوں کے دھارے پر بے یارومددگار چھوڑ دے، کبھی چٹانوں، ٹیلوں اور انہی کے تعمیر کردہ مکانوں کے اندر ہی زندہ درگور کر دے اور کبھی سمندری طوفانوں اور دریائی سیلابوں کے ذریعہ خس و خاشاک کی طرح بہا دیتا ہے اور کبھی متعفن لاشوں کو چیل کووں اور گِدھوں کا رزق بنا دیتا ہے۔ یہ لمحہء فکریہ ہے!
انسان کے اندر سے اگر انسانیت عنقا نہیں ہو گئی، اس کے عقل و شعور پر مجرمانہ غفلت کے دبیز پردے نہیں پڑ گئے، اس کے ضمیر کو حرص و ہوس نے بے حس نہیں کر دیا اور مسِّ شیطان نے مخبوط الحواس نہیں کر دیا تو یہ سوال قابل غور ہے۔
کیا ہم یہ سوچ کر کہ ہمارا خدا رحمان ہے، رحیم ہے۔ ستار اور غفار ہے، اس کے قوانین کو توڑتے جائیں اور احکام خداوندی کا مذاق اڑاتے جائیں اور بدکرداری سے اس کے عفو و درگزر کو ناجائز طور پر آؓزماتے جائیں اور وہ خاموش تماشائی کے طور پر بے بسی بیٹھا رہے اور سرزنش بھی نہ کرے؟
اول وہ انبیاء بھیجتا ہے نذیر اور بشیر بنا کر۔ اگر کوئی قوم اُملی لہم پڑھے اور اِنّٙ کیدی متین کو نظرانداز کر دے اور مجموعی مزاج بگڑ جائے تو اللہ تعالی کے ہاں تطہیرِ اقوام کے تمام اسباب موجود ہیں:
فطرت افراد سے اغماض تو کر لیتی ہے
کرتی نہیں ملت کےگناہوں کبھی معاف
یاد رہے کہ افراد ہی اقوام کے اجزائے ترکیبی ہوا کرتے ہیں۔ ان کے اخلاق و اطوار اور عادات و خصائل ہی اقوام کی پہچان ہوا کرتے ہیں۔ سبب یہ ہے کہ جب افراد کے عقائد و افکار پر بدی کی قوتوں کا تسلط ہو جائے تو اقوام ابلیس کا آلہء کار بن جاتی ہیں اور غیضِ الٰہی کو بھڑکانے کا سبب بنتی ہیں اور اللہ کا عذاب ایسی اقوام پر نازل ہو کر انہیں تباہ کر دیتا ہے۔
تاریخ کے جھروکوں میں جھانکتے رہنے والے قارئین بخوبی جانتے ہیں کہ دنیا کے تختہ پر وقفہ وقفہ سے نظر آنے والے عذاب الٰہی انسان نو خبردار اور سابقہ تباہ شدہ اقوام کا انجام بعد کی آنے والی نسلوں کو متنبہ کرتا ہے کہ جو نصیحت پکڑے وہ ناگہانی آفت کا شکار ہو کر شہید لیکن جو احکامِ الہی کو توڑے وہ منتظر رہے کہ کب عابِ الٰہی اس کی گردن توڑے۔
گاہے گاہے بازخواں:
گاہے گاہے باخواں قصہء پارینہ را کے تحت ہم دیکھتے ہیں کہ اقوام گزشتہ جب کرپشن کی انتہائی سطح پر پہنچے تو رحمانیت کے جوش کے تحت اللہ نے ڈرانے والے بھیجے۔ ولکل قوم ھاد۔ والی آیت بتاتی ہے کہ ہر ایک قوم کو متنبہ کرنے والا مبعوث کیا گیا۔
جب بھی کسی قوم میں جھوٹ بددیانتی خیانت، ظلمت و گمراہی، ماپ تول میں کمی، گناہِ کبیرہ کی کثرت، سود خوری، قتل و غارت گری، ناانصافی، ظلم و تعدی، غاصبانہ طرزِ عمل، انفرادی اور قومی سطح پر جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے کلیہ پر عمل کرتے ہوئے ایک دوسرے کا استیصال وغیرہ جیسے اعمال عام یو گئے اللہ رب العزت نے وہاں اپنا ڈرانے والا مبعوث فرمایا تاکہ لوگ توبہ کر کے نیکی کا رستہ پکڑیں اور توحید کے جھنڈے تلے اکٹھے ہو کر صراطِ مستقیم اور جادہء ایمان کو اختیار کریں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ احسن القصص نے ان تمام اقوام کا احوال ہمارے سامنے رکھا۔
اقوام سابقہ اور ان کی تباہیاں:
جب ہم گزشتہ امم کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی قسم کی کرپشن میں حد سے بڑھی یوئی قوم کو اول زبان و وجودِ انبیاء معصومین کے ذریعہ تنبیہ کی گئی جو ایمان لائے اور توبہ کر کے جماعت مسلمین میں داخل ہو گئے وہ بچائے گئے اور جنہوں نے کرپشن کا بازار گرم رکھا وہ پیس دیئے گئے، پانی کا عذاب ان پر آیا، سنگریزوں کا عذاب آیا یا دوسرے کسی ذریعہ سے انہیں صفحہء ہستی سے مٹا دیا گیا۔ لیکن ایمان لانے اور توبہ کرنے والی قوم حضرت یونس علیہ السلام می قوم کو معاف بھی کر دیا گیا کیونکہ قرآن کریم سے ثابت ہے کہ عذاب کی پیشگوئی کو وعید کہتے ہیں اور وعید توبہ اور صدقہ و خیرات نیز اعمال صالحہ سے مشروط ہوتی ہے۔
1: قومِ نوح :
قرآن کریم نے نوح علیہ السلام کو آدمِ ثانی قرار دیا ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام کے واقعہ کا کر اجمالی و تفصیلی طور پر قرآنی کریم میں تینتالیس جگہ مذکور ہے۔ ہاں سورہ الاعراف میں تدصیلی ذکر موجود ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو راہِ حق کی طرف بلایا لیکن قوم بے اپنی امارت اور تفاخر کی وجہ سے حقارت کے سبب پیغام کو رد کر دیا۔ جس قدر تبلیغ کرتے اسی قدر قوم کی جانب سے بغض و عناد میں سرگرمی ظاہر ہوئی۔ ایذا رسانی، اب و شتم، اور دشمنی کا بازار گرم ہوا اور قوم نے صاف صاف کہہ دیا کہ تم کسی بھی طرح وُد، سواع، یغوث ، یعوق اور نسر جیسے بتوں کی پرستش نہ چھوڑو اور بالآخر زچ ہو کر کہہ اٹھے:
یا نوح قد جادلتنا فاکثرت جدالنا فاتنا بمآ تعدنا ان کنت من الصادقین۔ (ہود:ع3)
اے نوح تو نے بہت بحث کر لی اور خوب جم کر بحث کی۔ اب بحث چھوڑو اور جس عذاب کا وعدہ تم کرتے ہو وہ لے آ ہم پر۔
گو حضرت نوح علیہ السلام نے فرمایا کہ میں۔عذاب لانے پر قادر نہیں لیکن میرا خداقادر ہے۔ چنانچہ اللہ نے فیصلہ صادر فرما دیا۔ نوح کو کشتی بنانے کا حکم ہوا عذاب کا وقت قریب آیا۔ ایمان والے کشتئ نوح میں سوار ہوئے اور گھاٹا پانے والے حضرت نوح کے صلبی بیٹے سمیت ٹھٹھہ اڑا رہے تھے۔ حضرت نوح کا ایک ہی اعلان تھا اپنے بیٹے کو مخاطب کر کے کہا کہ:
لا عاصم الیوم من امر اللہ الا من رحم۔
آج اللہطکے حکم کے مقابل بچانے والا کوئی نہیں۔ آج وہی بچے گا جس پر خدا رحم فرمائے گا۔
پھر وقت کی آنکھ نے دیکھا کہ سب کرپٹ غرق کر دیئے گئے اور کشتی جودی پہاڑ پر فروکش ہوئی۔
یہ پہلی قوم تھی جو سرکشی کی وجہ سے نابود کر دی گئی۔ گویا کرپشن کی سزا قومی تباہی کی صورت میں ظاہر ہوئی۔
2: قوم عاد:
3000قبل مسیح میں موجود یہ قوم خلفاءِ قومِ نوح قرار پائی۔ ابن قتیبیہ کی کتاب معارف کے صفحہ 10 کے مطابق عاد کی مرکزی آبادی عرب کے اعلی حصہ یعنی یمن حضرموت میں سواحلِ خلیج فارس سے حدودِ عراق تک وسیع دکھائی دیتی ہے۔
عاد اپنی سطوت و جسمانی قوت و صولت کے گھمنڈ میں ایسے مخمور تھے کہ خالق کو بھول کر اپنے تراشیدہ بتوں کے حضور سجدہ ریز ہوتے، ہر قسم کی کرپشن میں مبتلا ہو گئے اور "خلو" خاندان میں مبعوث ہونے والے حضرت ھود علیہ السلام کو خبطی کہنے لگے۔ تکبر اس قوم کو لے ڈوبا۔
قرآن کریم میں سات جگہ قوم ھود کا ذکر اور ان کی قبیح حرکات و اعمال کا ذکر 9 مقامات پر قرآن کریم نے فرمایا ہے۔ سورہ الاعراف، ھود، شعراء، مومنون، فُصلت، احقاف، الذاریات، القمر اور الحاقہ میں حضرت ھود علیہ السلام اور عاد قوم کا ذکر ملتا ہے۔
حضرت ھود علیہ السلام نے بڑے عبرت آمیز اور موعظت انگیز گراں مایہ پند و نصائح سے قوم کو سمجھایا لیکن بے فائدہ رہا۔ یہ لوگ ظلم سے باز نہ آئے۔ چنانچہ سورہ حٰم السجدہ کے مطابق قوم عاد کو پہلے خشک سالی کے ذریعہ متنبہ کیا گیا لیکن باز نہ آنے پر بادِ صرصر کا عذاب دے کر تباہ کر دیا گیا۔
عاد عبرت کا نشان ہے۔ ہم نے ایک بے فائدہ نحس ہوا کو بھیجا کہ جس شے پر اس کا گزر ہوتا اس کو بوسیدہ ہڈیوں کی مانند بنا دیتی۔ (الذاریات:20)
پس ظالمانہ کرپشن اور نافرمانی بالآخر تباہی پر منتج ہوئی۔
3: قوم ثمود:
مدینہ کے شمال میں میدان جوف اور وادئ القرٰی میں آباد قوم ثمود کا پایہء تخت حجر تھا۔ اس علاقہ کو حضرت صالح علیہ السلا۔ کی وجہ سے مدائنِ صالح بھی کہا جاتا ہے۔
9 ہجریبمیں تبوک جاتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس شہر سے گزر ہوا۔ آغازِ اسلام میں یہ شہر یہود کے قبضہ میں تھے اور یہاں ان کے بڑے بڑے قلعے تھے جنہیں عیدِ نبوت میں ہی اسلام نے زیرِ نگیں کر لیا تھا۔ (تاریخ ارض القرآن از سید سلیمان ندوی)
قرآن کریم میں حضرت صالح علیہ السلام کا تین سور میں آٹھ مقامات پر ذکر آیا ہے۔ سورہ الاعراف میں 3 بار، ھود میں چار بار اور شعراء میں ایک بار۔ جبکہ قوم ثمود کا ذکر مندجہ ذیل سور میں ملتا ہے: الاعراف، ھود، حجر، فُصلت، النجم، القمر، الحاقہ اور الشمس۔
ثمود علاقہ حجر میں آباد تھے۔ عرب کا مشہور مورخ مسعودی لکھتا ہے:
ورممہم باقیة و آثارھم بادیة فی طریق من ورس من شام۔
(جلد نمبر 3 صفحہ 139)
یعنیبشام سے حجاز جانے والا مسافر رستے میں ثمود کے مٹے ہوئے نشان اور بوسیدہ کھنڈرات ملاحظہ کر سکتا ہے۔
حجر یعنی حجرِ ثمود کا مقام مدین شہر سے جنوب مشرق میں خلیج عقبہ کے سامنے واقع ہے۔ ان کی تباہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ہجرت سے پہلے ہوئی۔ بعض مستشرقین کے مطابق ثمود ان عمالقہ میں سے تھے جنہیں شاہِ مصر احمس نے شہربدر کیا تھا لیکن قرآن کریم اور مفسرین قرآن کریم نے ثابت کیا ہے کہ عاد اور ثمود اقوام دراصل سامی اقوام میں سے ہیں۔ بہرحال سنگ تراشی میں ان اقوام کو کمال حاصل تھا۔ اسی بنا پر انہوں نے پہاڑ تراش کر بے نظیر عمارات تعمیر کیں۔
یہ ایک مغرور اور سرکش قوم۔تھی جو شرک کی ظلمت کے ساتھ ساتھ ہر قسم کی کرپشن میں ملوث تھی اور تنبیہ کے باوجود ایمان نہ لائی نہ ہی کرپشن سے توبہ کی اس پر مستزاد یہ کہ حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی کونچیں کاٹ کر براہِ راست عابِ الہی کو دعوت دی۔ سورہ الذرایات سے معلوم ہوتا ہے کہطان پر الصاعقہ اور صیحة یعنی بجلی کی کڑک اور زوردار چیخ کا عذاب آیا جس کی وجہ سے یہ لوگ پہاڑوں کے اندر بنے مکانوں میں ہی ہلاک ہو گئے۔
سورہ الاعراف کی آیت 91 بتاتی ہے کہ ان پر دوسرا عذاب شدید زلزلہ کا بھی آیا تھا۔
پس کرپشن نہ چھوڑنے پر اللہ نے ان کی پکڑ کی۔
4: حضرت لوط علیہ السلام کی قوم:
یہ قوم دریائے اردن کی ترائی میں شام کے جنوب میں آباد تھی جس کا پایہء تخت سدوم تھا۔ اس قوم میں کمینہ خصلت اور بدکرداری والی کرپشن عروج ہر تھی۔ مسافروں کو لوٹنا، مہمانوں سے ہر چیز چھین لینا اور اغلام پرستی ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ چنانچہ حاران بن تارح کے فرزند اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام کو ان کی مبعوث کیا گیا۔
سدوم کی باسی یہ قوم فواحش اور معصیتوں میں مبتلا تھی۔ سرکش، متمرد و بداخلاق اور بداطوار نہایت درجہ قبیح لوگ تھے۔ حضرت لوط علیہ السلام نے ان کو بے حیائی، خباثت اور کرپشن سے روکا لیکن یہ باز نہ آئے جس کے نتیجے میں اس قوم پر سنگریزوں کا عذاب آیا، بستیاں الٹ دی گئیں، آبادی بے نشان ہوگئی، ایک عجوبہء روزگار سمندر اُبل آیا اور قیامت تک کے لیے یہ سرزمین دنیا کی پست ترین زمین بن کر رہ گئی۔
5: اصحاب الاخدود (خندق والے):
سورة البروج میں اس واقعہ کا تفصیلی ذکر ملتا ہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے کہ یہ لوگ فارسی تھے۔ ان کے بادشاہ نے محارم کے ساتھ نکاح جائز قرار دے کر حکم نامہ جاری کر دیا۔ علما نے اس قبیح حرکت کو ماننے سے انکار کر دیا جس پر اس نے سب علما کو اکٹھا کیا اور ایک گڑھا کھدوا کر اس میں پھینک کر آگ جلوا کے ان کا جلا کے مار دیا۔ سو ان کے لیے بھی قرآن کریم نے اس ذلیل ترین کرپشن پر عذاب مقدر کر کے تباہ کر دیا۔
6: فرعون اور آلِ فرعون:
حضرت موسیٰ علیہ السلا۔ کو بنی اسرائیل کا نجات دہندہ بنا کر بھیجا گیا۔ فرعون لدا بنا بیٹھا تھا وہ بنی اسرائیل کے لڑکوں کو مروا دیتا اور لڑکیوں کو زندہ رکھتا اور سلبِ حیا کا موجب بھی بنتا تھا۔ اس واقعہ کی تفاصیل سے قرآن کریم بھرا پڑا ہے۔ فرعون کو اس کی اس کرہشن پر تنبیہ کی گئی لیکن وہ باز نہ آیا اور بالآخر غرقِ دریائے نیل ہو کر عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔ اہرام مصر میں آج بھی فراعین مصر کی ممیاں جہاں ان کی شان و شوکت کی غماز ہیں وہاں عبرت کا نشان بھی ہیں۔
7: اصحاب الایکہ:
ناپ تول میں کمی والی کرپشن میں مبتلا اس قوم کی طرف حضرت شعیب علیہ السلام کو مبعوث کیا گیا۔ بت پرستی نے انہیں توحید سے بھی دور کر دیا تھا چنانچہ انہیں زلزلہ اور آگ کے عذاب سے ہلاک کر دیا گیا۔
دور حضرت نبی آخر زماں صلی اللہ علیہ وسلم:
حسنِ یوسف دمِ عیسیٰ ید بیضیٰ داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
لازم تھا کہ نبی آخر زماں ایسے وقت میں تشریف لاتے جبکہ ہر ایک قسم کی کرپشن انتہا کو پہنچ جاتی کیونکہ جتنا بڑا مرض اُتنا بڑا ڈاکٹر!
خون ارزاں ہے جان سستی ہے
یار یہ کس طرح کی بستی ہے؟
ظلمتیں یوں رگوں میں اُتری ہیں
نور کو آنکھ اب ترستی ہے
احمدمنیب
اس کے تحت دنیا کی خشکی اور تری فساد سے بھر گئی۔ ظھر الفساد فی البر والبحر کا نظارہ پیش ہو رہا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نور ظہور ہوا۔ جہالت کی انتہا ہو چکی تھی۔ بیٹیاں زندہ درگور ہو رہی تھیں۔ ناپ تول میں کمی کی جا رہی تھی۔ جھوٹ خیانت بددیانتی فحاشی بدکرداری عروج ہر تھی۔ شبِ زفاف کے قصے سفید خونی چادروں کو پھیلا پھیلا کر محافل میں بڑے فخر سے سنائے جاتے تھے۔ ایسے میں غارِ حرا سے نور کی وہ کرن پھوٹی جس نے ساری دنیا کو تہذیب و تمدن سے آگاہ کیا۔
قرآن کریم ہر دور میں قابلِ عمل کتاب ٹھہری کیونکہ اس نے جو دعاوی پیش کیے ان کے دلائل بھی سمجھائے اور سات بڑی اقوام کی بدکرداریوں اور ان کے انجام سے آگاہ کیا۔ اور حل بھی بتایا کہ ہر ایک قسم کی کرپشن سے بچنے کا حل یہ نہیں کہ دوسرے کی کمزوری کی نشان دہی کرو بلکہ محاسبہ کا عمل اپنے گھر سے شروع کرو۔
ہر قسم کی کرپشن کو بیان کرنے کے بعد، سابقہ اقوام کی بدعنوانیوں اور ان کے بھیانک انجام کو بیان کر کے مضمون کو ادھورا چھوڑ دینا قرآن کریم اور صاحبِِ قرآن کریم کا شیوہ نہیں۔ ہر قسم کی کرپشن اور بدعنوانیوں کو دور کرنے کے لیے انبیاء علیہم السلام پر نازل کی۔جانے والی شرائع خصوصاٙٙ قرآن و سنت کو دیکھنا پڑے گا۔
حضرت آدم ؑ پر چار احکام نازل ہوئے:
1: کھانے کے لیے روٹی،
2: پہننے کے لیے کپڑے،
3: رہنے کے لیے مکان اور
4: پینے کےلیے صاف پانی
حضرت موسیٰ علیہ السلام تک احکام شریعت کی تعداد دس ہو گئی اور قرآن کریم میں اللہ تعالی نے کم از کم سات سو احکام نازل فرمائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر عمل کر کے دکھایا۔
آج لوگ عذر پیش کرتے ہیں کہ جھوٹ، سود اور دھوکہ کے بغیر کاروبار نہیں چل سکتا۔ تو گویا وہ بزبان حال کہہ رہےہوتے ہیں کہ نہ تو قرآن کریم قابلِ عمل رہا ہے اور نہ سنت رسول ( نعوذباللہ) حالانکہ جو ضلالت و جہالت ظہور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تھی وہ آج نہیں اور آج جو علم و دانش کا منبع و سرچشمہ قرآن کریم ہے وہ بھی اس وقت نہیں تھا اس کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صادق اور امین اور صدوق کے القاب سے پکارا جاتا تھا۔ آپ ؐ وہ واحد تاجر تھے جو اپنی اشیا کے حسن اور عیب دونوں بتایا کرتے تھے۔
چونکہ قرآن کریم ذکرِ الہی اور آنحضرت مجسم قرآن ہیں جن کے بارہ میں فرمایا کہ:
لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنة۔
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں وہ سب کر کے دکھلایا جو قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے نازل فرمایا۔
آج ہم کرپشن کو اگر دور کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں احکامِ قرآنی اور اُسوہء رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنا ہو گا۔ ہمیں خود احتسابی کے عمل سے سب سے پہلے خود کو گزارنا ہو گا۔ دوسروں کی آنکھ کا تنکا دیکھنے کی بجائے اپنی آنکھ کا شہتیر دیکھنا ہو گا۔ اگر ہر کوئی اپنا کردار درست کر لے تو سارا معاشرہ سدھر سکتا ہے۔ ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ کیا ہم متقی ہیں کیونکہ اللہ تعالی نے اچھائی اور نیکی اور اپنا ولی ہونے کا معیار یہی بیان فرمایا ہے کہ:
ان اکرمکم عند اللہ اتقٰکم۔
اور خطبہء حج الوداع کا مضمون بھی مستحضر رکھنے کی ضرورت ہے۔
حرفِ آخر:
اگر ہم قرآن کریم کی ایک آیت کو اچھی طرح سمجھ لیں تو ہمارا یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے:
ان اللہ یامر بالعدل والاحسان و ایتائ ذے القربی و ینھی عن الفحشآء والمنکر والبغی یعظکم لعلکم تذکرون۔
(سورة النحل:91)
یعنی اللہ حکم دیتا ہے کہ عدل و انصاف قائم کرو بلکہ اس سے بڑھ کر ایک دوسرے کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آو اور اس سے بھی بڑھ کر ایک دوسرے کو ایسا سمجھو جیسا قریبی رشتہ دار۔ اللہ تعالی تمہیں فحاشی، ناپسندیدہ اور سرکشی والی باتیں کہنے اور ان پر عمل کرنے سے روکتا ہے۔ وہ تمہیں وعظ کرتا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔
پس اگر ہم۔دیکھیں کہ کرپشن کیا ہے؟ تو اس ایک آیت میں استعمال ہونے والے تین الفاظ اس کے سب معانی کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ ان سے دور رہنا اور عدل سے کام لینا، باہمی احسان کا سلوک کرنا اور ایک دوسرے سے بے لوث محبت کرنا اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند کرو جو اپنے لیے ہسند کرتے ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم کرپشن پر قابو نہ پا سکیں۔