(Last Updated On: )
Abstract:
Colonel Muhammad Khan was a Army Officer and a War Veteran. He was the renowned writer of the urdu literature and was a natural humourist and did not need amusing stories to make readers laugh. "Bazm-e-Aaraiyaan" is his third book, a collection of assorted prose pieces, some of which are a tad serious albiet thought provoking. Colonel Muhammad Khan also translated quite a few English humourous pieces but these were not mere translations and were adaptations and were as the sub title of the book suggests "Bidesi Mizah Pakistani Libaas Mein" in 1992.
انسانی شعور میں اظہار کے متنوع پیرائے موجود ہیں، ان میں ایک انتہائی مؤثر اسلوب ظرافت اور مزاح بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دُنیا کی کسی زبان کا ادب طنز ومزاح کے اسلوب سے خالی دکھائی نہیں دیتا۔ اردو زبان وادب کے ارتقائی ادوار میں بھی طنزومزاح کے حوالے سے عمدہ اور کامیاب نمونے دکھائی دیتے ہیں۔ اردو نظم ونثر کی کوئی صنف بھی ان کیفیات سے مبّرا نظر نہیں آتی، البتہ طنزومزاح کی نوعیت اور کیفیت کبھی زیر لب تبسم، تو کبھی ہنسنے اور کبھی فلک شگاف قہقہہ لگانے پر مجبور کرتی ہے۔ دُنیا غم وآلام اور دُکھوں کا گہوارہ ہے۔ غم والم سے نجات کے لیے انسانی ذہن نے ایک مثبت، مستقل اور اجتماعی ادبی حل بھی ایجاد کرلیا جسے مزاح کا نام دیا گیا جو بتدریج ہر زمانے میں ارتقائی مراحلطے کرتے ہوئے آج ایک مستند اور باقاعدہ فن اور تہذیب کا مرتبہ حاصل کرچکا ہے۔
کرنل محمد خان کا شمار اردو ادب کے اُن گنے چنے مزاحیہ ادب تخلیق کرنے والے تخلیق کاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے ادب کو ادب برائے ادب کے بجائے ادب برائے زندگی کے پیش نظر رکھا ہے۔ اردو مزاح نگاری کی تاریخ میں کرنل محمد خان کا فن سنجیدہ توجہ کا حامل ہے کیونکہ ان کا فن محض وقت گزاری کا وسیلہ نہیں بلکہ ایک سنجیدہ عمل ہے۔ ہر بڑا فنکار اپنے عہد کے لیے نئے پیمانے متعین کرتا ہے اور پہلے سے موجود روایت کی از سرِ نو تشکیل کرتا ہے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ بڑا ادب خود کسوٹی بن جاتا ہے اور اس کسوٹی کے بعد میں آنے والوں کی تخلیقات کو پرکھا جاتا ہے۔ بلاشبہ کرنل محمد خان اپنے عہد کی ایک ایسی ہی کسوٹی ہے جس میں نہ صرف یہ کہ پہلے سے موجود روایت جمع روایات ہوگئی ہیں بلکہ جدید اسلوب سے انہوں نے اس کی خوبصورت تشکیل بھی کی ہے۔
انہوں نے ’’بجنگ آمد‘‘، ’’بسلامت روی‘‘ اور ’’بزم آرائیاں‘‘ کی صورت میں اردو ادب کو سنجیدہ مزاح کے بہترین نمونوں سے مالا مال کیا ہے۔ کرنل محمد خان کے اسلوب کی خصوصیات اس کی خیال آفرینی، فکر انگیزی اور لطافت وشگفتگی ہے جو انہیں دوسرے مزاح نگاروں سے ممتاز کرتی ہے۔
کرنل محمد خان کی پہلی تصنیف ’’بجنگ آمد‘‘ اُن کی زمانہ جنگ میںگزاری ہوئی داستان حیات ہے۔ اس میں انہوں نے جہاں بہت سی ہونی اور انہونیوں کے ذکر کے ساتھ ساتھ بہت سے پُر لُطف یادگار اور قابل ذکر واقعات، ادوار اور یارانِ دلدار کا ذکر ہے وہاں انہوں نے اپنی اس تصنیف کی معرفت اور اپنی خوش بیانی کی بنا پر اس کی ایسی تصویر کھینچی ہے کہ اس نے ان سب کو داستان جاوداں بنا دیا ہے۔ اس کتاب کا پس منظر دوسری جنگ عظیم ہے۔ کرنل محمد خان سرکاری اُمور کی بجا آوری کے دوران بیرون ممالک کے دورے بھی کرتے رہے، انہوں نے بیرون ممالک کے ایک نجی اور دوسرکاری دورے کیے اور ان تینوں سفروں پر مشتمل ایک یادگار سفرنامہ ’’بسلامت روی‘‘ کے نام سے قلمبند کیا جو اُن کی ریٹائرمنٹ کے چھ سال بعد ۱۹۷۵ میں منصہ شہود پر آیا۔ کرنل محمد خان کی یہ سب سے ضخیم کتاب ہے جو تین سو صفحات پر مشتمل ہے۔
ڈاکٹر غلام جیلانی برق ’’بسلامت روی‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’وہی بیجنگ آمد والی حلاوت، لطافت، ظرات، سلاست، بانکپن اور شگفتگی ہے، فرق ہے تو یہ کہ اس زبان کا چٹخارہ یعنی شعریت اور ادبیت زیادہ ہے اور اس میں بے ساختہ پن زیادہ ہے۔‘‘(۱)
کرنل محمد خان ’’بسلامت روی‘‘ کے بارے میں اپنے مقدمہ میں لکھتے ہیں:
’’خوش قسمتی سے یہ کتاب سفرنامے سے زیادہ آدمی نامہ ہے۔ اس میں مقامات کا ذکر کم اور شخصیات کا زیادہ ہے اور شخصیات کا رنگ وہی ہوتا ہے جو مصنف کو نظر آئے کہ جو میر پوریوں کو دکھائی دے پھر شخصیات میں بھی اکثریت صنف لطیف کی ہے اور صنف لطیف میں تو یقینا اکثر حسینوں کی ہے۔‘‘(۲)
کرنل محمد خان نے اس کتاب میں زیادہ حسیناؤں کا ذکر کیا ہے۔ کرنل محمد خان کسی بھی حسین چیز کے دلدادہ ہیں، وہ خوبصورتی خواہ کسی بشر میں ہو یا قدرت کے حسین نظاروں میں یا کسی کے شخصی کردار میں غرض حسن کسی بھی رنگ میں ہو، وہ اُس سے بچ کر آگے نہیں بڑھ سکتے۔ اس کتاب میں مصنف نے کرداروں کے اصل نام نہیں بدلے، البتہ چند ایک کو کسی مصلحت کے تحت فرضی نام سے مخاطب کیا ہے۔
کرنل محمد خان کی زیر بحث تصنیف ’’بزم آرائیاں‘‘ ہے جس پر ہمیں بحث کرنا ہے۔ ’’بزم آرائیاں‘‘ میں انہوں نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کے واقعات کو بہت تفریحی انداز میں قلمبند کیا ہے کتاب کا طرز تحریر نثری ومزاحیہ ہے۔ کہیں کہیں موقع کی مناسبت سے اشعار سے تحریر کو حسن عطا کیا۔ جو مصنف کی شاعری سے شغف کو بھی واضح کرتا ہے۔ مصنف نے ’’بزم آرائیاں‘‘ کے مضامین کو عشقسانے، انشائیے اور مصنف بیتی کے ناموں سے منسوب کیا ہے اور اسی طرح تین اقسام میں مختلف مضامین کو تقسیم کیا گیا ہے۔ عشقسانے کے تحت عشقیہ واقعات کو افسانے کے انداز میں بیان کیا ہے۔ انشائیے کے تحت کچھ عمومی واقعات جبکہ مصنف بیتی کے تحت مصنف نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے چند واقعات کو مزاحیہ انداز میں بیان کیا ہے۔ مصنف نے اپنی تصانیف ’’بجنگ آمد‘‘ اور ’’بسلامت روی‘‘ کے برعکس اس میں متفرق مضامین جمع کیے ہیں۔ کرنل محمد خان ’’بزم آرائیاں‘‘ کے بارے میں کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں:
’’بجنگ آمد کا موضوع میری لیفٹینی تھی، یعنی یہ کہ کب اور کیسے نازل ہوئی اور بعداز نزول مجھ پر کیا گزری، ’’بسلامت روی‘‘ سفر فرنگ کی روداد تھی۔ موجودہ کتاب متفرق مضامین کا مجموعہ ہے لیکن اس میں الوداعی باب میں یہ بتانا مقصود ہے کہ جب ایک روز یہ خاکسار یکایک ایک عام آدمی سے مصنف بن گیا تو اس کے بعد اس پر کیا بیتی۔‘‘(۳)
متفرق مضامین کا خاصا ہے کہ ان کے مزاج بھی یقینا ملے جلے مضامین کا مجموعہ ہے۔ ان میں تسلسل کا مزہ تو نہیں ہوتا مگر تنوع کی چاشنی پائی جاتی ہے کرنل محمد خان کے مزاج میں بے فکری اور فکر مندی دونوں اس وجہ سے پائی جاتی ہیں کہ بعض باتیں وہ کھُل کر کہتے ہیں اور بعض جگہ خاموشی مصلحت کوشی بن جاتی ہے۔ اپنے ایک مضمون ’’کار بکاؤ ہے‘‘ میں انہوں نے اپنے مصرف میں رہنے والی کار کا احوال کچھ انداز سے بیان ہے کہ قاری کے چہرے پر پڑھتے ہوئے بے ساختہ زیر لب تبسم پھیل جاتی ہے۔
جب انہیں اپنے ولایت کے دورے پر جانے سے پہلے اپنے استعمال میں رہنے والی ایک خستہ کار کو فروخت کرنا پڑا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کار ایسی نہیں تھی جو خود بخود فروخت ہوجاتی ہو۔ بلکہ اس متاع ہنر کے ساتھ ہمارا اپنا بکنا بھی لازم تھا۔ یعنی اس کار کو بیچنے کے لیے پانچ سالہ منصوبہ درکار تھا مگر ان کے پاس دورے پر جانے کے لیے تین دن رہ گئے تھے۔ اس طرح انہوں نے ایک تین دن کا کریش پروگرام بنایا، جس کا مختصر خلاصہ یہ تھا کہ آج اگر اخبار میں اشتہار دیا جائے اگلے روز خریدار آجائے اور تیسرے روز گاہک تیس ہزار کے ساتھ آپہنچے۔ کرنل محمد خان نے اپنے قلم سے بکاؤ کار کا نقشہ کھینچتے ہوئے الفاظ کی شگفتگی بکھیر دی ہے لکھتے ہیں:
’’ایک کار، خوش رفتار، آزمودہ کار، قبول صورت، فقط ایک مالک کی داشتہ، مالک سمندر پار جارہا ہے۔‘‘(۴)
چونکہ اُن کی کار خاصی پرانی تھی۔ اشتہار پڑھ کر جب کسی صاحب نے مصنف سے رجوع کیا تو انہوں نے کار کی ساخت کو دس سال پرانی ہونے کی وجہ سے کھل کھلا سچ بولنے سے اعتراز کیا اور انہوں نے گاہک سے جھوٹ بولنے کے بجائے کار کی تاریخ پیدائش سن عیسوی کے بجائے سال ہجری ۱۳۷۷ ہجری میں بتائی تو گاہک نے متاثر ہوتے ہوئے کہا کہ ـآپ تو بڑے صالح مسلمان معلوم ہوتے ہیں۔ بہر حال بات فروخت تک نہ پہنچ سکی۔ مصنف کو اسی طرح کے دو اور فون بھی آئے لیکن کار کی عمر رفتہ اور سفر گزشتہ کا ذکر سن کر گفتگو کا سلسلہ ٹوٹتا رہا۔ مصنف نے ’’کار بکاؤ ہے‘‘ میں لطیف شگفتگی کے جو پھول کھلائے ہیں اس سے ہر پڑھنے والے کے چہرے پر تبسم پھیل جاتی ہے۔
’’شرابی کبابی‘‘ میں وہ ایک حسینہ کے بارے میں خامہ فرسائی کررہے ہیں جس کی عمر بیس اکیس برس تھی اور اس کا خاوند فوج کے کسی اہم عہدے پر تعینات تھا اور حادثے کا شکار ہوگیا تو وہ دوشیزہ مصنف کے پاس پہلے پہل اپنے کاغذات تصدیق کروانے کے لیے آتی ہے پھر یہی رہ رسم بڑھتی بڑھتی دیگر کاموں کے کروانے تک پھیل گئے۔ اسی طرح وہ مصنف کو کسی کام کی غرض سے اپنا پاس بک دیتی ہے تو جب دوشیزہ نے اپنا پرس کھولا تو مصنف کی قوت حِس نے اسے طبلہ عنبر سے تشبیہ دی گویا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مصنف کا دل اس خاتون کے لیے سراپا احترام وتحسین بنتا چلا گیا۔ اُسے اس کا اصلی حسن اس کے شگفتہ مزاج، شائستہ عادات اور شیریں گفتار میں نظر آتا تھا۔ اس شیرینی سے بھی واضح تر حقیقت اس کا شباب تھا جو اس کی بے وقت بیوگی کی وجہ سے سوگوار سا تھا اور اُسے بجا طور پر شریک زندگی کی ضرورت تھی۔ مصنف خود کو چند خانگی مجبوریوں کی وجہ سے اس شرکت سے معذور تھا لیکن حالات کے پیش نظر ان سے ہمدردی ضروری تھی۔ جب مصنف نے اپنے ایک دوست کیپٹن ’’ش‘‘ سے اس کہانی کو سُنا تو کہا کہ تمہاری مشکل آسان ہوگئی ہے، خاتون تمہاری محبت سے شفا پائے گی اور بالآخر کیپٹن ’’ش‘‘ اس کے قریب ہوتا گیا اور ایک دن کہنے لگا میں نے تمہاری خاطر ایک کارنامہ انجام دیا ہے یعنی عارضی طور پر ’’مز ’’خ‘‘ کی محبت کا رُخ کسی دوسرے شخص کی طرف موڑ دیا ہے کیپٹن ش کے ہونٹوں پر ایک اوباشانہ تبسم نمودار ہوا اور بولا دولہا تمہارے سامنے کھڑا ہے۔
مصنف کرنل محمد خاں نے یہاں انسان کی ہوس اور فطرت کو نہایت فنکارانہ انداز میں بیان کیا ہے اُن کے نزدیک موسم اور انسان کا کوئی اعتبار نہیں، یہ کسی بھی وقت بدل سکتے ہیں۔ مصنف نے اپنے اس دوست کی چالبازی اور انسانی ہوس کو بے نقاب کرنے کے لیے اپنے مضمون ’’شرابی کبابی‘‘ میں الفاظ کے ذریعے کیپٹن ش کے کردارو کو تار تار کرکے پیش کیا ہے۔
کرنل محمد خان اپنے مضمون ’’سفارش طلب‘‘ میں معاشرے سے پائی جانے والی عام برائی اور بیماری جس کو عام لوگ معمولی سمجھتے ہیں وہ سفارش ہی تو ہے جب ہم کسی حق دار کا حق چھین کر اپنے کسی نالائق اور نکمے عزیز کو دلواتے ہیں۔ مصنف نے سفارش کرنے کو ڈاکا ڈالنے کے مترادف کہا ہے کیونکہ یہ حق دار شخص کے ساتھ ظلم وزیادتی ہے اس سے سو ء ظن اور کینہ معاشرہ میں فساد بپا ہوتا ہے اور اگر سفارش کرنے سے کسی کا حق ضائع نہ ہو یا کسی کو نقصان نہ پہنچے تو پھر سفارش کرنا جائز ہے۔
مصنف لکھتے ہیں:
’’دیکھو چودھری، سفارش کرکے تم نے کسی دوسرے کا حق اپنے مولوی کے لونڈے کو دلانا تھا اور کسی کا حق چھیننا ہی ڈاکہ ہے۔‘‘(۵)
اس مضمون میں کرنل محمد خان نے اس عام پھیلتی ہوئی بیماری کی احسن طریقے سے قلم وقرطاس کے ذریعے سے مذمت کی ہے۔ وہ اس فعل کو عام بیماری سے تشبیہ دیتے ہیں۔ مصنف کے نزدیک سفارش کی مکروہ ترین شکل غالباً وہ ہے جس میں سفارش طلب اپنی بیوی کو استعمال میں لاتا ہے، ممکن ہے بیوی بیچاری کا اس میں کوئی قصور نہ ہو، لیکن سفارش طلب کی غیرت اتنی بے قصور نہیں ہوتی اور سفارش قبول کرنے والے کے لیے تو یہ آزمائش کی کڑی گھڑی ہوتی ہے۔ اس تحریر میں مصنف نے سفارش طلب سے نمٹنے کے کئی طریقے بتائے ہیں۔
اس مضمون میں مصنف کا قلم فن کی بلندیوں کو چھوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ الفاظ عام فہم مگر چبھتے ہوئے تیروں کی طرح قارئین کو دیر تک سوچنے اور ہنسنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ افسانہ ’’قدر ایاز‘‘ میں مصنف نے اپنے ماضی اور حال کو احسن بیان کیا ہے۔ جس میں اُس نے گاؤں کی زندگی کو شہر کی چونکا چوند زندگی پر برتری دی ہے کہ علی بخش، کرنل محمد خان کو فوج کی طرف سے ملازم ملا تھا ایک دن کرنل محمد خان کے بیٹے سلیم کے چند دوست اُسے ملنے آئے تو علی بخش نے انہیں ـڈرائینگ روم کے بجائے برآمدے میں بٹھا دیا اور انہیں کو کا کولا نہ پلایا، جس کے ضمن میں سلیم نے علی بخش کو خوب ڈانٹا۔ اگلے روز علی بخش نے کرنل صاحب کو شکایت کردی کہ سلیم میاں نے اپنے دوستوں کے سامنے توہین کی ہے اور اسے دیہاتی گنوار نہ جانے کیا کیا کہا ہے۔ اس مضمون میں کرنل محمد خان نے دیہاتی لفظ کا خوب صورت انداز میں دفاع کیا ہے۔ دیہات کے لوگوں کی مہمان نوازی، ملن ساری، خود اخلاقی، خوش مزاجی، سادہ لوحی اور بے لوث محبت کو جس طرح الفاظ کے قرینے میں پرویا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے اس افسانہ میں مصنف اپنے آپ کو ایک دیہاتی کے روپ میں پیش کرکے سلیم میاں کے اندر گاؤں والوں کے لیے نفرت کے جذبات کو محبت اور عقیدت میں بدل دیتا ہے۔ یہاں مصنف کو اپنے بیٹے سلیم میاں کے اس معمولی جھگڑے کے بعد سلیم اور علی بخش برابر کھڑے نظر آرہے ہیں، جن کے درمیان کوئی تفاوت، بڑائی یا فرق نہیں۔
مصنف جب اپنی دیہاتی زندگی کی روداد سُنا کر خاموش ہوتے ہیں تو سلیم میاں عالم مبہوت سے نکل کر اپنے باپ کو حیرانی سے دیکھتا ہے۔
’’سلیم اورعلی بخش دونوں کی آنکھیں نم تھیں اور دونوں میں ایک دیہاتی کے لیے محبت کی چمک تھی۔ ایاز اپنے اصلی لباس میں بھی ایسا معیوب نظر نہیں آتا تھا۔‘‘(۶)
سلطان محمود غزنوی جس طرح اپنے ملازم ایاز کی باتوں کو برتری دیتا تھا مصنف نے اپنے بیٹے کے برابر اپنے ملازم کو برتری دے کر اپنے آپ کو ایک عظیم انسان کے روپ میں پیش کیا ہے۔ افسانہ کی آخری لائنوں میں ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود ایاز کی سچی تصویر نظر آرہی تھی۔ کرنل محمد خان کا قلم یہاں الفاظ کے موتی پروتا ہوا نظرآتا ہے۔
معاشرتی زندگی کے تضادات، بے اعتدالیاں، مناقشات اور انصاف کشی کے اعصاب شکن اثرات ان کے افسانوی مضامین کے موضوعات ہیں۔
کرنل محمد خان نے اپنی ظرافت نگاری سے جہاں چہروں پر مسکراہٹیں بکھیری ہیں وہاں ان مسکراہٹوں کے پیچھے انسان کو اُس کا اصلی چہرہ دکھانے کی سعی کی ہے۔ انہوں نے اپنے ان مضامین میں سماجی برائیوں جہالت، پس ماندگی، غربت وافلاس، نسل کشی، دہشت گردی اور انسان کی دو رنگی چالوں کے خلاف نفرت کا اظہار کرکے قاری کے لیے حوصلے اورسکونِ قلب کا ذریعہ پیدا کیا ہے۔ اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے تلخ وشیریں تجربات ومشاہدات کو ان افسانوں جن کو انھوں نے مضامین کا نام دیا ہے کے قالب میں ڈھال کر قارئین کو اس ذائقے کے بارے میں حقیقی شعور وآگہی فراہم کی ہے جس نے تخلیق کار کو اپنی طرف متوجہ کیا۔
ان کی تحریروں میں یہ صداقتیں قاری کو احتسابِ ذات پر مائل کرتی ہیں۔ ان افسانوں کے جذبات کی روانی، سیلانی مزاج انسانوں کے جذبات کی بے کرانی، غم واندوہ کی حشر سامانی، انبوہ عاشقاں کی فتنہ سامانی اور سب سے بڑھ کر دہشت گردی کے نتیجے میں مرگ ناگہانی کا بیان زندگی کی حقیقی معنویت کو واشگاف خیر اور شر کے متحارب رویوں اور مختلف طبقات کی زندگی کی متصادم کیفیات کو نہایت احسن انداز میں بیان کیا ہے۔
کرنل محمد خان نے مصلحت اندیشی، تذبذب، گومگو اور موقع پرستی کا کوئی داغ اپنے شفاف دامن پر نہیں لگنے دیا۔ انہوں نے اپنی زندگی کو محنت شاقہ سے سنوارا اور اس میں نکھار پیدا کیا۔ وہ تعلقات اور مراعات کی بیساکھیوں سے ہمیشہ بے نیاز رہے۔ ان کی تصانیف قوس قزح کے رنگوں سے مزین ہیں۔ مصنف کے اسلوب کا جائزہ لینے سے یہ تاثر قوی ہوجاتا ہے کہ انسان کی زندگی بھی ایک کہانی ہوتی ہے جس کا آغاز تو اس وقت ہوتا ہے جب وہ پہلی بار اس دُنیا کو دیکھتا ہے۔ اس کے بعد تجربات اور مشاہدات کا غیر مختتم سلسلہ انسان کے دم آخریں تک جاری رہتا ہے۔ اُن کی زندگی کی یادیں مستقبل کے محقق کے لیے تاریخ اور ظرافت کے مسلسل عمل کو سمجھنے میں بے حد معاون ثابت ہوں گی۔
حوالہ جات
۱۔ کرنل محمد خان، فن اور شخصیت، بریگیڈیر محمد اسماعیل صدیقی، اکادمی ادبیات، اسلام آباد، ۲۰۰۸، ص:۱۲۹
۲۔ محمد خان، کرنل، بسلامت روی، غالب پبلشرز، لاہور: ۱۹۹۲ء، ص:۱۶
۳۔ محمد خان، کرنل، بزم آرائیاں، پیش لفظ، غالب پبلشرز، لاہور: ستمبر ۱۹۸۰ء، ص:۱۸
۴۔ محمد خان، کرنل، بزم آرائیاں، غالب پبلشرز، لاہور: ۱۹۸۰ء، ص:۳۶
۵۔ ایضاً، ص:۵۰
۶۔ ایضاً، ص:۸۶