کرنل کو کوئی خط نہیں لکھتا
جب ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی کاالائنس فقط ایک دن بعد بکھر گیا، فاروق ستار ڈرامائی انداز میں سیاست چھوڑنے کے ایک گھنٹے بعد سیاست میں پلٹ آئے، اور مصطفی کمال اور انیس قائم خانی کو ایک دھواں دار پریس کانفرنس کے لیے سر جوڑ کر بیٹھنا پڑا،تب خبروں کی اس ریل پیل میںایک خبر دبئی سے بھی آئی تھی، محور جس کا سابق صدر پرویز مشرف تھے۔ اُن کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کی جانب سے 23جماعتوں کا گرینڈ الائنس قائم کرنے کا اعلان کیا گیاتھا۔ایم کیو ایم اور پی ایس پی کے معاملے میں توالائنس کا مشترکہ نام منتخب کرنے کی نوبت نہیں آئی۔ البتہ پرویز مشرف نے اپنے الائنس کے لیے پاکستان عوامی اتحاد کے نام کی منظوری دے دی تھی۔گو اس کا منشور پیش نہیں کیا گیا، مگر عام خیال یہی ہے کہ اس کا بنیادی مقصد مسلم لیگ کے مختلف دھڑوں کو اکٹھا کرنا ہے۔
اس الائنس کی تشکیل کے موقع پر سابق صدر نے پی ایس پی اور ایم کیو ایم الائنس کے بکھرنے پر بھی تبصرہ کرنا ضروری جانا۔ صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا، تجاویز پیش کیں،ساتھ کہا؛ وہ ایم کیو ایم اور پی پی ایس میں سے کسی بھی دھڑے کی قیادت سنبھالنے میں دل چسپی نہیں رکھتے۔یہاں تک کہ اگر دونوں ایک ہوگئے، تب بھی اُنھیں یہ عہدہ قبول نہیں۔دل چسپ امر یہ ہے کہ اُن کی جماعت کی جانب سے ماضی میں ،کہیں ڈھکے چھپے اور کہیں واشگاف الفاظ میں اس خواہش کا اظہار کیاجاچکا ہے۔
جمعے کے روز جب پے درپے ہونے والی پریس کانفرنسوں، فاروق ستار اور مصطفی کمال کے سنسنی خیز انٹرویوز کے درمیان پرویز مشرف کے گرینڈ الائنس کی خبر دم توڑ رہی تھی، میرے ذہن میں کولمبیا کے نوبیل انعام یافتہ ادیب گیبرئیل گارسیا مارکیز کا شہرہ آفاق ناول”کرنل کو کوئی خط نہیں لکھتا“ گردش کر رہا ہے۔ یہ انوکھی تخلیق، جسے مارکیز نے عسرت کے زمانے میں پیرس کے ایک سرد فلیٹ میں لکھا ، جسے وہ اپنی بہترین تخلیق گردانتا تھا، کولمبیاکی خانہ جنگی میں انقلابی فوج کے ایک تجربہ کار کرنل کے گرد گھومتی ہے، جو گذشتہ پانچ عشروں سے ، ایک ساحلی قصبے میں مقیم، اپنی پنشن کا منتظر ہے۔ بے انت انتظار کا یہ زمانہ کرنل غربت، اپنی بیمار بیوی، ایک لڑکا مرغ کے ساتھ گزار رہا ہے، جو اُس کے بیٹے کی نشانی ہے، جسے چند برس قبل مارشل لا کے زمانے میں پمفلٹ بانٹتے ہوئے قتل کر دیا گیا تھا۔
قصبے میں ہر جمعے کو ڈاک آتی ہے۔اور ہر جمعہ وہ اِس امید پرڈاک خانے جاتا ہے کہ شاید پوسٹ ماسٹر اس کے ہاتھ میں ایک خط تھما دے، جس میں اطلاع ہو کہ اس کی پنشن جاری کر دی گئی ہے، مگر ایسا نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ اگر کوئی کردار پوچھ بیٹھے کہ کرنل کے لیے کوئی خط نہیں؟ تو پوسٹ ماسٹر اپنے کام نمٹاتے نمٹاتے کہہ دیتاہے: کرنل کو کوئی خط نہیں لکھتا!
مارکیز کا یہ ناول دراصل ایک ایسے شخص کا قصہ ہے، جو فقط بیس برس کی عمر میں کرنل کے عہدے پر فائز ہوگیا تھا، جو انقلابی فوج کا خرانچی تھا، جو تمام سرمایہ دو ٹرنکوں میں، خچر پر لاد کر چھ روز کا صبر آزما سفر کر کے اس مقام پر پہنچا تھا، جہاں امن معاہدہ ہونا تھا، اور انقلافی فوج کے ماسٹر جنرل کرنل اریلیانو بائندہ نے خود اُن ٹرنکوں کی رسیدیں دی تھیں۔ کبھی وہ اس قدر اہم ہو ا کرتاتھا، مگر امن معاہدے کے بعداب وہ ہزاروں ریٹائر سپاہیوں کی طرح ایک سپاہی تھا، جسے سرکار نے قانونی تحفظ اورپنشن دینے کا وعدہ کیا تھا، مگرعشرے گزر جانے کے باوجود پنشن کا وعدہ وفا نہیں ہوا ، اورکرنل سماج اور سسٹم کے لیے غیرمتعلقہ ہوگیا۔
تو جب پرویز مشرف نے 23 جماعتوں کا الائنس قائم کرنے کا اعلان کیا، اُس کے نام کی منظوری دی ، ایم کیو ایم اور پی ایس پی کے الائنس کی سربراہی سنبھالنے سے متعلق بے زاری ظاہر کی، تو مجھے مارکیز کا یہ لافانی ناول یاد آگیا۔ سابق صدر کی حالیہ کوششوں کے پیچھے پاکستانی سیاست میں متعلقہ ہونے کی خواہش کارفرما ہے۔ اِسی خواہش کے باعث، کچھ برس قبل اپنے خیرخواہوں کے مشورے نظر انداز کرتے ہوئے وہ پاکستان چلے آئے تھے، جہاں شدید مشکلات اُن کی منتظر تھیں۔ عدالتی اور قانونی کارروائیاں کبھی اُن کے” درخشاں ماضی“ اور کبھی بیماری کی برکت سے ٹلتی رہی، آخر کمر درد کا بہانہ بنا کر وہ ملک سے رخصت ہوئے۔یہ وہ زمانہ تھا، جب ہر دوسرے دن ” شکریہ راحیل شریف“ کا ٹرینڈ ٹوئٹر پر ٹاپ پر ہوا کرتا تھا۔پرویز مشرف نے بھی ”علاج کی سہولت“کے لیے بیرون ملک جانے کا کریڈٹ جنرل راحیل شریف ہی کو دیا۔
گو پرویز مشرف جانتے ہیں کہ سیاست میں اُن کا کوئی مستقبل نہیں کہ اب وہ غیرمتعلقہ ہوچکے ہیں، اُن سابق جنرنیلوں کی طرح، جو تمام تر کوشش کے باوجود دفاعی تجزیہ کاری تک محدود رہے، مگرشایدیہ نادیدہ قوتوں سے وابستہ امید ہے، جو اُنھیں سرگرم رکھتی ہے۔ شاید وہ سمجھتے ہیں کہ اگر کراچی میں کوئی نیا سیٹ اپ بنا، تو انھیں مرکزی کردار نبھانے کا موقع ملا سکتا ہے، کیا خبر وقت کس کے حق میںانگلی اٹھائے۔ ممکن ہے، کوئی بڑا عہدے مل جائے۔تو یہ سرگرمی بے سبب نہیں۔اور پھر یہ امکانات کی دنیا ہے صاحب۔ انسان کی بھلائی شجر سے پیوستہ رہنے میں ہے۔
اصل خبر یہ ہے کہ فاروق ستار اور مصطفی کمال اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے باوجود اتحاد کے لیے رضامند ہیں، بات چیت آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔گویا مسئلہ اسکرپٹ نہیں، اس کی عکس بندی کا تھا، بالخصوص ایم کیو ایم پاکستان کے لیے، جسے اپنے ووٹرز کی جانب سے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا، اور سارے ملبہ اکیلے فاروق ستار پر آن گرا۔ تو الائنس امکانی ہے۔ اور اسی امکان سے ،غیرمتعلقہ ہونے کے باوجود ،پرویز مشرف نے اپنی امیدیں باندھ رکھی ہیں، گو پوسٹ ماسٹر بارہا کہہ چکا ہے کہ کرنل کو کوئی خط نہیں لکھتا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔