قہوہ یعنی کافی (Coffee) دنیا میں وسیع پیمانے پر استعمال ہونے والا مشروب ہے۔ یہ کافی کے پودے کے بھنے اور پیسے ہوئے بیجوں سے حاصل ہوتا ہے۔ گرم یا ٹھنڈا یہ دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ چاۓ کے مقابلے میں کافی میں کیفین کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے۔ یہ پینے والے کو تازہ دم کر دیتی ہے۔ اور نیند بھگا دیتی ہے۔
قہوہ
قہوہ
قسم
گرم اور سرد (عام طور پر گرم)
اصل ملک
ایتھوپیا
متعارف
اندازہ پندرہویں صدی (مشروب)
رنگ
گہرا بھورا، خاکستری، سیاہ، ہلکا بھورا، سفید
کافی کے پودے کا اصل وطن ایتھوپیا ہے۔ وہاں سے یہ عرب آیا اور اسے قہوہ کہا گیا سلطنت عثمانیہ کے دور میں یہ یورپ پہنچا اور پھر ساری دنیا میں مقبول ہو گیا۔
کہا جا تا ہے کہ خالد نام کا ایک عرب ایتھوپیا کے علاقہ کافہ میں ایک روز بکریاں چرا رہا تھا۔ اس نے محسوس کیا کہ اس کے جا نور ایک خاص قسم کی بوٹی کھانے کے بعد چاق و چوبند ہو گئے تھے۔ چنانچہ اس نے اس درخت کی بیریوں کو پانی میں ابال کر دنیا کی پہلی کافی تیار کی۔ ایتھوپیا سے یہ کافی بین یمن پہنچے جہاں صوفی ازم سے وابستہ لوگ ساری ساری رات اللہ کا ذکر کرنے اور عبادت کر نے کے لیے اس کو پیتے تھے۔ پندرھویں صدی میں کافی مکہ معظمہ پہنچی، وہاں سے ترکی جہاں سے یہ 1645 میں وینس (اٹلی) پہنچی۔ 1650 میں یہ انگلینڈ لائی گئی۔ لانے والا ایک ترک پاسکوا روزی (Pasqua Roseee) تھا جس نے لندن سٹریٹ پر سب سے پہلی کافی شاپ کھولی۔ عربی کا لفظ قہوہ ترکی میں قہوے بن گیا جو اطالین میں کافے اور انگلش میں کافی بن گیا۔
کافی پینے کے شوقین افراد کیلئے یہ بات خوش آئند ہے کہ کافی اگر اعتدال میں پی جائے تو اس کے کئی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ یہ جتنی ذائقہ دار ہوتی ہے، اتنی ہی فائدہ مند بھی ہے، آئیے اس بارے میں جانتے ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق روزانہ 3سے 5 کپ کافی پینے سے جگرکے کینسر یا اس کے کام نہ کرنے کا خطرہ 40فیصدتک کم ہوجاتا ہے۔سائنسدان کا کہنا ہے کہ کافی اور ہربل چائے کا استعمال جگر کی بیماری ’سروسس‘ (Cirrhosis) سے بچاتا ہے۔ یہ بیماری جان لیوا بھی ثابت ہوتی ہے۔کافی کے اندر کیفین نامی ایک مادہ ہوتا ہے جوکہ دماغ کی کارکردگی بڑھاتا ہے۔ کافی پینے سے ذہن کے خلیات کو نشوو نما ملتی ہے، وہ زیادہ توانائی پیدا کرتے ہیں جس سے ذہن صحت مند اور توانا رہتا ہے۔ کافی سے ذہن کو پہنچنے والے چند فوائد میں یادداشت بہتر ہونا اور ردعمل میں تیزی آنا شامل ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق دن بھر میں کافی کے چار یا اس سے زائد کپ پینے والی خواتین میں ڈپریشن ہونے کے امکانات 20فیصد تک کم ہو جاتے ہیں
دنیا بھر میں کافی کے پودوں کو لاحق خطرات کا پہلی بار تفصیلی اندازہ لگایا گیا ہے جس میں یہ امر سامنے آیا ہے کہ کافی کے 124 پودوں میں سے 60 فیصد پودے معدوم ہونے کے قریب ہیں۔
کافی کی سو سے زائد اقسام کے پودے قدرتی طور پر جنگلوں میں اگتے ہیں جن میں وہ دو اقسام بھی شامل ہیں جو پینے والی کافی کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ دنیا میں پانچ میں سے ایک پودے کو معدومی کا خطرہ ہے۔
رائل بوٹینیک گارڈنز، کیو کے ڈاکٹر آرون ڈیوس کہتے ہیں کہ 'اگر جنگلی اقسام نہ ہوتیں دنیا کو آج پینے کے لیے اتنی کافی نہ ملتی۔‘
'کیونکہ اگر آپ کافی کی کاشتکاری کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہم نے کافی کی فصل کو مستحکم بنانے کے لیے جنگلی اقسام کا استعمال کیا ہے۔'
سائنس ایڈوانسز' جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق جنگلی کافی کے تحفظ کے لیے 'ناکافی' اقدامات کیے گئے، جن میں وہ اقدامات بھی شامل تھے جو طویل المدت عالمی طور پر کافی کی پیداوار کے لیے 'انتہائی اہم' سمجھے جاتے ہیں۔
تحقیق سے یہ سامنے آیا ہے کہ جنگلی کافی کی 75 اقسام کو معدومی کے خطرے کا شکار سمجھا گیا ہے، 35 کو کوئی خطرہ نہیں اور بقیہ 14 کے بارے میں کوئی فیصلہ کن رائے دینے کے لیے بہت کم معلومات دستیاب ہیں۔
اس کے علاوہ، یہ بھی پتا چلا کہ جنگلی کافی کی مختلف اقسام کا 28 فیصد غیرمحفوظ علاقوں میں اگتی ہیں اور ان میں سے تقریباً نصف سیڈ بینکس میں محفوظ ہیں۔
اسی حوالے سے گلوبل چینج بیالوجی کی ایک اور تحقیق کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے جنگلی 'عربیکا' کافی کو باضابطہ طور پر خطرے سے دوچار (آئی یو سی این کی سرخ فہرست) قسم قرار دیا جا سکتا ہے۔