یہ ایک ایسا آپریشن ہے جو ان سماعت سے محروم لوگوں کا کیا جاتا ہے جو آلہ سماعت لگانے سے بھی آواز نہ سن سکتے ہوں۔ ان کے کان کے بیرونی درمیانی یا اندرونی کسی بھی حصے میں کوئی خرابی ہو، اور بہت زیادہ ہو۔ اور کان سے دماغ تک آواز کی لہروں کو سگنل بنا کر لے جانے والی ایک باریک سی نالی ( Auditory Nerve) ٹھیک ہو۔ اگر وہ بھی خراب ہو تو یہ آپریشن نہیں کیا جا سکتا۔
یہ آپریشن چند دن کی عمر سے لیکر عمر کے کسی بھی حصے میں ہو سکتا ہے۔
جیسے ہی بچہ پیدا ہو۔ اسکی حرکات و سکنات سے محسوس کریں وہ آواز سن رہا ہے؟ ہلکی سی تالی بجا کر اسکی آنکھوں کا جھپکنا دیکھ لیں۔ ہلکا سا بھی کوئی شک پڑے کہ آواز بچہ ہی نہیں سن رہا تو۔ اسکی سماعت کا ٹیسٹ فوراً کروائیں۔ ٹیسٹ کا نام ہے ASSR جو کسی بڑے شہر سے ہوگا۔ لاپرواہی ہر گز نہ کریں اگر سماعت کا نقصان آلہ سماعت لگانے سے دور ہو سکتا ہو تو فوراً چند دن کی عمر میں ہی کسی ماہر آڈیالوجسٹ سے مشورہ کرکے آلہ سماعت لگوا لیں۔ اور اگر اس سے ریکوری نہ ہو سکتی ہو تو مزید کچھ ٹیسٹ کروا کر کوکلئیر امپلانٹ کی طرف جائیں۔
کوکلئیر امپلانٹ ایک الیکٹرونک ڈیوائس ہے۔ جو سماعتی محرومی کو جزوی طور پر بحال کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ آلہ سماعت کے برعکس جو آواز کو ایمپلی فائی کرتا ہے ایک کوکلئیر امپلانٹ کان کے ڈیمج حصے کو بائی پاس کرکے آواز کے سگنلز کو ڈائیریکٹ آڈیٹری نرو میں پہنچا دیتا ہے۔
کوکلئیر امپلانٹ میں ایک اعلی کوالٹی کا ساؤنڈ پروسیسر استعمال ہوتا ہے۔ جسے کان کے پیچھے لگایا جاتا ہے۔ اس پروسیسر کا کام آواز کے سگنلز کو وصول کرکے کان کے پیچھے ہی اسکن کے اندر آپریشن کرکے لگائے ہوئے ریسیور تک بھیجنا ہے۔ وہ ریسیور ان سگنلز کو کان کے اندرونی حصے میں آپریشن سے لگائے گئے مصنوعی کاکلیا میں بھیجتا ہے جو آڈیٹری نرو کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔
یہ سگنل آڈیٹری نرو میں ایک ارتعاش پیدا کرتے ہیں۔ جن سے بننے والی لہریں کان سے دماغ تک چلی جاتی ہیں۔ بلکل ویسے ہی جیسے آپ کھڑے پانی میں ایک پتھر پھینکتے ہیں اور اسکی لہریں خود ہی بڑی دور تک بنتی چلی جاتی ہیں۔ دماغ ایک خود کار نظام کے تحت ان لہروں کو الفاظ بخشتا ہے۔ آواز کی پہچان کرتا ہے اسکے کم یا زیادہ ہونے کا تعین کرتا ہے اور ان الفاظ کو معنی عطا کرتا ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ کوکلئیر امپلانٹ سے سنی گئی آواز کبھی بھی حقیقی کان سے سنی گئی آواز جیسی صاف اور واضح نہیں ہو گی۔ اسے سمجھنے کے لیے ایک نئے مرحلے سے گزرنا ہوتا ہے جسے سپیچ تھراپی کہا جاتا ہے۔
کم سے کم ایک سے ڈیڑھ سال کی متواتر سپیچ تھراپی کے بعد ایک کوکلئیر امپلانٹ والا بچہ یا بڑا فرد ان مصنوعی آوازوں کو الفاظ معنی دینے کے کسی حد تک قابل ہوتا ہے جو اسے تین الیکٹرونک ڈیوائسز ملکر سناتی ہیں۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ آپریشن کروا لیا اب بچہ سننے اور بولنے لگ جائے گا یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ اور وہ غریب والدین جنکو فری میں کوئی ادارہ یا مخیر حضرات 20 لاکھ کا کوکلئیر امپلانٹ کروا دیتے وہ سپیچ تھراپی کا شعور اور اسکے اخراجات نہ افورڈ کرنے کی وجہ سے لگے ہوئے پیسے بھی ضائع کر دیتے ہیں۔ جتنے پیسے آپریشن پر لگتے ہیں اس سے آدھے بعد کی بحالی پر لگتے ہیں۔ ڈاکٹر سر پیٹ کے رہ جاتے ہیں مگر لوگ سپیچ تھراپی دو چار ماہ سے زیادہ نہیں کرواتے اور وہ بندہ جسکا آپریشن ہوا اب درمیان میں آجاتا ہے۔ نہ وہ مکمل بہرہ ہے نہ کوئی بات سن کر مکمل سمجھ سکتا ہے۔ بس جو سنتا ہے وہ اسکے لیے شور ہے۔
کو کلئیر امپلانٹ ایک کان اور دونوں کانوں کا بھی ہوتا ہے۔ یعنی ایک کان کی بجائے دونوں کانوں میں ہی خرابی بہت زیادہ ہے اور دونوں کان امپلانٹ کے لیے موزوں ہیں تو دونوں کانوں کا آپریشن کرکے مشینیں اندر لگا دی جاتی ہیں۔ اور عموماً دونوں کانوں میں کوکلیا چھوٹے بچوں جن کی عمر 6 سے 12 ماہ ہو ان کو لگائے جاتے ہیں۔
کوکلئیر امپلانٹ کا فائدہ کیا ہوتا ہے؟
لوگ سال دو سال کی سپیچ تھراپی کے بعد آواز کو ہونٹوں کی جنبش سے جوڑ کر سمجھنے لگتے ہیں
روز مرہ کی آوازیں سننے لگتے ہیں جیسے ہارن پرندوں بادل موبائل فون کی گھنٹی وغیرہ
شور میں بھی اب جدید پروسیسر کام کی آواز پراسس کرکے سنا دیتا ہے
وہ آنے والی آواز کی سمت کا تعین کر لیتے ہیں
وہ ٹی وی ریڈیو سینما یا موبائل کی آواز اور کسی حد تک لاؤڈ اسپیکر آن کرکے فون بھی سن سکتے ہیں۔
یعنی وہ اس آپریشن کے بعد بھی سو فیصد بحال نہیں ہونگے۔ مگر نارمل سماعت کے قدرے قریب ضرور آجائیں گے۔ باتیں بھی کریں گے مگر میرے اور آپ جیسی وہ باتیں نہیں ہونگی۔ ہو بھی سکتی ہیں اگر سپیچ تھراپسٹ بہت ہی ماہر ہو اور سپیچ تھراپی کا دورانیہ لمبا ہو۔
کون لوگ اس امپلانٹ کے اہل ہوتے ہیں؟
سب سے پہلے وہ جو اس امپلانٹ کی حقیقت کو سمجھتے ہوں کہ اس آپریشن سے بچے نے سو فیصد کبھی بھی ٹھیک نہیں ہوجانا۔
جن کی موٹی ویشن بہت زیادہ ہو کہ وہ امپلانٹ کے بعد بحالی کے سارے عمل میں شامل ہونگے اور پیسے لگانے کے قابل بھی ہوں اس چیز کا شعور بھی رکھتے ہوں۔
میڈیکلی سب کچھ ٹھیک ہو کہ کوکلیا امپلانٹ سے ان کے جسمانی توازن میں کوئی مسئلہ نہ ہو۔ یاد رہے کہ کان کے اندرونی حصے کا کام ہمیں آواز سنانے کے ساتھ چلتے ہوئے ہمارا توازن قائم رکھنا بھی ہے۔
آلہ سماعت سے کوئی فائدہ نہ ہو سکتا ہو۔ اور سماعت کا نقصان شدید ہو جو آپریشن کے بغیر کسی بھی طرح ناقابل علاج ہو۔
آپریشن سے پہلے کے کام۔
آپ کے بچے کی سماعت گویائی اور توازن کا ٹیسٹ ہوگا
ایک فزیکل معائنہ ہوگا جس میں اندورنی کان کو اچھی طرح دیکھا جائے گا۔
ایک ایم آر آئی اور سی ٹی سکین دماغ کے ان حصوں کی تصاویر کے لیے کیا جاتا ہے جہاں آپریشن ہونا۔
ایک سائیکلاجیکل ٹیسٹ بھی بڑے لوگوں کا کیا جاتا ہے کہ وہ اس سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں کہ نہیں۔
ماہرین ہی ان سب چیزوں کو دیکھنے کے بعد فیصلہ کرتے ہیں کہ کس کو کاکلیا لگانا ہے اور کس کو نہیں۔ ہر بچہ اسکے لیے اہل نہیں ہوتا سو باتیں دیکھ کر یہ میجر سرجری کی جاتی ہے۔ پیسے آپ کے اپنے ہیں یا کسی کے ضائع کرنے سے بہتر ہے وہاں لگیں جہاں ان کا کچھ فائدہ بھی ہو۔
نتائج کیا حاصل ہوتے ہیں؟
ہر فرد ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ اسکے گھر کا ماحول، تعلیم و شعور، مالی حالات اور علاقہ مختلف ہے۔ یہ ایک ایسا آپریشن ہے جو پیسے لگا کر کرانا تو آسان ہے مگر اسکے بعد اسکی بحالی کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔
جب بھی کسی کو اس آپریشن کے لیے گائیڈ کریں یہ ضرور دیکھیں وہ فیملی کیسی ہے۔ سارا مضمون آپ پڑھ چکے تو جان گئے ہونگے کن کو یہ آپریشن فائدہ دے سکتا ہے اور کتنا دے سکتا ہے۔ حکومت پاکستان ہر سال یہ آپریشن سینکڑوں بچوں کا مفت کرواتی ہے۔ اور وزیر اعظم پاکستان خود اس آپریشن کے فنڈز جاری کرتا ہے۔ ملک ریاض بھی ہر سال 25 سے 50 آپریشن کرواتا ہے۔ اور بھی کئی ادارے اب یہ آپریشن کروانے اور کرنے لگ گئے ہیں۔ آپ ان اداروں کو خط لکھ کر یا فون کرکے ساری معلومات لے سکتے ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...