پنسیلوینیا کی اسمبلی نے 1999 میں جینیات کی اخلاقیات پر بحث شروع کی۔ بائیوایتھکس کے ماہر آرتھر کیپلن کو بلایا گیا کہ وہ قانون سازی میں راہنمائی کریں۔ ابتدا کچھ اچھی نہیں رہی۔ کیپلین نے اسمبلی ممبران سے کچھ سوالات کئے۔ جینز کہاں ہوتی ہیں؟ پنسنلوینیا کی بہترین سیاستدان جو اس پر قانون بنانا چاہتے تھے، وہ اس کا جواب نہیں دے سکے۔ ایک چوتھائی نے کہا کہ دماغ میں۔ اتنے نے ہی کہا کہ جنسی اعضاء میں۔ زیادہ تر نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ کیپلین کا مشورہ تھا کہ “جینیات پر قواعد و ضوابط بنانے کا کام سیاستدانوں کے حوالے کرنا خطرناک ہے”۔
جینیات اور ڈی این اے کی ٹیکنالوجی سے مکمل لاعلمی کے باوجود کئی لوگ اس کے ایتھکس کے بارے میں خاصی مضبوط رائے پھر بھی رکھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جینیات کے متنازع موضوعات میں سے ایک کلوننگ ہے۔ اس تنازعے کی جلتی آگ پر سکاٹ لینڈ کی سائنسدانوں نے تیل کی بالٹی پھینک دی۔ فروری 1997 کو تاریخ کے مشہور ترین جانور کی پیدائش کا اعلان کیا گیا۔ ایک بھیڑ کے چار سو بیضے لئے گئے۔ ان سے بجلی گزاری گئی اور ان میں سے بیس ایمبریو بن گئے جو ڈونر کے کلون تھے۔ ان کو چھ روز ٹیست ٹیوب میں رکھ گیا اور پھر یوٹیورو میں۔ انیس آگے نہیں بڑھے لیکن ان میں سے ایک زندہ رہ گیا۔ اس سے پیدا ہونے والی بھیڑ ڈولی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت انسانی جینیوم کا پراجیکٹ الگ سے چل رہا تھا۔ اس پیدائش نے تہلکہ مچا دیا۔ طرح طرح کی باتیں ہونے لگیں۔ خوف، کا عنصر سب سے زیادہ تھا۔ پرانے انسانوں کو واپس زندہ کرنے کے امکانات گپ شپ کا حصہ بننے لگے۔ کلون کی افواج، اعضاء کے فارم بنانے کے لئے کلون پیدا کرنا فکشن کے کاموں تک پہنچ گیا۔
ڈولی نے عام زندگی گزاری۔ اگرچہ یہ اتنی صحتمند نہیں تھی لیکن نارمل زندگی تھی۔ سائنسدانوں کے مطابق ڈولی پیدائشی طور پر عمررسیدہ خلیے رکھتی تھی۔ ڈولی نے چھ بچوں کو جنم دیا۔ چھ سال کی عمر میں پیٹن روس وائرس کی وجہ سے ہونے والے پھیپھڑوں کے کینسر کی وجہ سے ڈولی کا انتقال ہو گیا۔ یہ اوسط عمر سے نصف تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی ایسی وجہ نہیں کہ سائنسدان اس پر تمام میڈیکل مسائل پر قابو نہ پا لیں اور مکمل طور پر صحتمند کلون پیدا نہ ہو جائیں۔ کئی لوگ اصولی طور پر اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ جینیاتی ڈیٹرمنزم ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ یہ غلط ہے۔ یعنی بائیولوجی اور شخصیت کا انحصار صرف ڈین اے پر نہیں ہے۔ ہر نئی جینوم سیکونسنگ کے ساتھ ہم جانتے جا رہے ہیں کہ جینز یقین پر نہیں امکانات پر بات کرتی ہیں۔ جینیاتی اثر اتنا ہے اور صرف اتنا ہی ہے۔ یعنی جینز میں یہ لکھا ہو گا کہ مجھے پارکنسن کی بیماری ہونے کا امکان آبادی کی اوسط سے تینتیس فیصد زیادہ ہے (عام آبادی میں یہ ڈیڑھ فیصد ہے جبکہ مجھ میں دو فیصد)۔ اسی طرح جینیات شخصیت کو طے کرتی ہیں لیکن ان کے سیٹ پوائنٹ نہیں بلکہ ایک رینج۔ اتنا ہی اہم یہ کہ ایپی جینیٹکس پر ہونے والی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ ماحول کس طرح اس چیز کو تبدیل کرتا ہے کہ جینز کیسے کام کرتی ہیں۔ ہر پھونکا گیا سگریٹ، ہر چھوڑا ہوا کھانا، اس پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔
اور ہاں، کلوننگ کو تو ویسے بھی نہیں روکا جا سکتا، یہ تو ہمیشہ سے ہو رہی ہے۔ اگر آئیڈنٹیکل جڑواں دیکھے ہوں تو وہ ایک دوسرے کے کلون ہیں۔ اگر تکنیک پرفیکٹ ہو تو کلون ٹیکنالوجی کے ساتھ بھی ایک باپ اور اس کے کلون بیٹے میں زیادہ سے زیادہ اتنی ہی مماثلت ہو سکتی ہے جتنی دو جڑواں بھائیوں میں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک انسان خود زندگی میں اپنے خلیے بدل رہا ہے، اپنی زندگی میں کتنی ہی بار تمام ایٹم ری سائکل کر چکا ہے۔ پھر بھی وہ اپنے آپ کو ایک یونٹ سمجھتا ہے۔ ایک شخص اپنی یادوں اور سوچوں کا تسلسل ہے۔ کلون کی یادیں اپنے والد سے مختلف ہوں گی، مختلف موسیقی سنے گا۔ مختلف ہیرو بنائے گا۔ مختلف کھانے، مختلف کیمیکل، مختلف ٹیکنالوجی، اس کے دماغ کی اپنی ہی وائرنگ ہو گی۔ ذوق اور پسند جدا ہو جائے گی۔ مزاج الگ ہو جائے گا۔ سوائے سطحی چیزوں کی مماثلت کے، اور کچھ بھی یکساں نہیں ہو گا۔ ڈی این اے ہمارا خاکہ تیار کرتا ہے لیکن ان امکانات کی حد میں ہم کہاں جاتے ہیں۔ کونسی بیماریاں پکڑتے ہیں، کیا ساخت رکھتے ہیں، تناوٗ کے لمحات میں کیا کرتے ہیں، مایوسی کا سامنا کیسے کرتے ہیں۔ یہ سب صرف ڈی این اے سے ہی طے نہیں ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا یہ کلوننگ کے حق میں دلائل ہیں؟ بالکل بھی نہیں، بلکہ اس سے بالکل متضاد۔ اس کو کرنے کا کوئی عملی فائدہ ہی نہیں۔ بچپن میں انتقال کر جانے والے بچے جیسا دوسرا بچہ پیدا کرنا تا کہ وہ غم بھلا سکیں۔ ہٹلر یا آئن سٹائن کو واپس لانا تا کہ ان کا تجزیہ کیا جا سکے۔ اس طرح سے ممکن ہی نہیں۔ تو اگر کلوننگ یہ کام نہیں کر سکتے اور یقینی طور پر نہیں کر سکتی تو پھر کلوننگ ایک دلچسپ لیکن بے معنی تجربہ ہے۔