’کلینک‘ کا ٹیکا
پچھلے دنوں کالم لکھ لکھ کر میرا گلا خراب ہوگیا لہذا ڈاکٹر کے پاس جانا پڑا۔انہوں نے ٹارچ سے میرے حلق میں روشنی ڈالی ۔ میں نے بے اختیار پوچھا’’ڈاکٹر صاحب میرے حلق میں روشنی ڈالنے پر کچھ روشنی ڈالیے‘‘۔فرمایا’’گلا پک گیا ہے‘ کوئی دوائی استعمال کی؟‘‘۔ میں نے اثبات میں سرہلایا اور دوائی کا نام بتایا۔ اطمینان سے سرہلا کر بولے’’بالکل ٹھیک کیا‘‘۔ پھر بولے’’نمک پانی کے غرارے بھی کیے ہوں گے؟‘‘۔ جواب دیا ’’جی ہاں‘‘۔انہوں نے کچھ دیر سوچا پھر پاس پڑا ہوا پیڈ اٹھا کر پنسل سنبھالی اور پوچھا’’کوئی اینٹی بائیوٹک بھی استعمال کی ؟‘‘۔ میں نے سچ سچ بتا دیا کہ فلاں اینٹی بائیوٹک کی ایک خوراک لے چکا ہوں۔ڈاکٹر صاحب کے چہرے پر طمانیت پھیل گئی۔ پیڈ پر کچھ لکھا اور میری طرف بڑھا دیا۔میں نے کاغذ پر نظر ڈالی‘ دونوں دوائیاں میرے والی ہی لکھی ہوئی تھیں اور نیچے نوٹ تحریر تھا کہ تین وقت نمک پانی کے غرارے کریں۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور ایک ہزار روپے فیس ادا کرکے گھر آگیا۔ الحمدللہ ڈاکٹر صاحب کے نسخے کی بدولت اب میرا گلا بالکل ٹھیک ہے۔
یہ ڈاکٹر صاحب ایک لحاظ سے میرے فیملی ڈاکٹر ہیں۔ گھر میں کسی کو کوئی تکلیف ہواِنہی ڈاکٹر صاحب سے رابطہ کیا جاتاہے۔یہ اتنے اچھے ڈاکٹر ہیں کہ کئی دفعہ جب خود اِنہیں کوئی تکلیف ہو تو مجھے فون کر کے پوچھ لیتے ہیں کہ’’وہ پیٹ درد میں فوری آرام کے لیے آپ کون سی دوائی لیتے ہیں؟‘‘۔میرے گھر والوں کو میری اِس عادت سے شدید چڑ ہے‘ وہ کہتے ہیں ڈاکٹری نسخے کے بغیر کوئی دوائی استعمال نہیں کرنی چاہیے۔ میں بتا بتا کر پھاوا ہوگیا ہوں کہ سردرد کی صورت میں دس روپے کی دوگولیاں کھانے سے مجھے راحت مل جاتی ہے لیکن ڈاکٹر کے پاس جاکر وہی دو گولیاں کھانے سے خرچہ ’ایک ہزاردس روپے‘ ہوجاتاہے جس کے بعد مجھے سردرد کا تو آرام آجاتا ہے لیکن بلڈ پریشر لو ہوجاتاہے۔ اس کے باوجود مجھ پر دباؤ ہے کہ چاہے کچھ بھی ہو‘ ڈاکٹر کے پاس جانا ضروری ہے۔
مجھے ڈاکٹروں کی قابلیت پر کوئی شک نہیں‘ لیکن اپنی قابلیت پر بھی کوئی شک نہیں۔مثلاً مجھے پتا ہے کہ نیند نہ آرہی ہو تو کون سی گولی کارآمد ہے‘ جسمانی طور پر فٹ رہنے کے لیے کون سے وٹامنز لینے چاہئیں۔کھانسی کا سیرپ کون سا ہے‘ بخارمیں کون سی میڈیسن تیز اثر دکھاتی ہے۔بدہضمی کا کیا علاج ہے۔ ڈاکٹر صاحب بھی مجھے یہی چیزیں لکھ کر دیتے ہیں‘ ہاں آج کل وہ ذرا محتاط ہوگئے ہیں یعنی سردرد کی جو گولی میں استعمال کرتا ہوں وہی گولی وہ کسی اور کمپنی کی لکھ دیتے ہیں تاکہ اُنہیں کوئی عام ڈاکٹر نہ سمجھا جائے۔یہ ہمارا مشترکہ نفسیاتی مسئلہ ہے۔تجربہ کرکے دیکھ لیجئے۔مہنگا ڈاکٹر کبھی سستی میڈیسن نہیں لکھے گا۔۔۔اور ہمیں آرام بھی مہنگی دوائی دیکھ کر آئے گا۔میرے والے ڈاکٹر صاحب چونکہ مجھ سے دوستانہ ماحول میں بات چیت کرلیتے ہیں لہذا ایک دن میں نے پوچھ ہی لیا کہ’’ ڈاکٹر صاحب! معذرت چاہتا ہوں ‘ آپ کے ہاتھ میں شفا وغیرہ تو ہے نہیں ! آپ کی فیس بھی زیادہ ہے پھر بھی آپ کے کلینک پر مریضوں کا رش کیوں لگا رہتاہے؟‘‘گلے سے سٹیتھوسکوپ نکال کر مسکراتے ہوئے بولے۔’’ایک مثال سے سمجھاتاہوں، فرض کیا کہ میرے پاس ایک مریض آتاہے جسے شدید سردرد ہے، اب ا س کی تین چار وجوہات ہوسکتی ہیں ‘ نیند کی کمی‘ ہائی بلڈ پریشراور ڈپریشن وغیرہ۔ میں تفصیل جاننے کے چکر میں نہیں پڑتا‘ تینوں ممکنہ وجوہات کی دوائی دے دیتا ہوں‘ کوئی نہ کوئی نشانے پر لگ جاتی ہے ۔۔۔ اللہ للہ خیرصلٰی۔‘‘ میں نے بمشکل غصہ دبایا’’لیکن سارے ڈاکٹر آپ جیسے نہیں ہوتے‘ اچھا یہ بتائیں کہ یہ تو ہوگئے چھوٹے موٹے امراض۔ کوئی بڑا کیس آجائے تو کیا کرتے ہیں‘ مثلاًکینسر‘ گردے میں پتھری‘ دل کے امراض‘ برین ٹیومر وغیرہ۔ ‘‘ ڈاکٹر صاحب نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگائی’’دیکھئے میرے پاس ہر قسم کا مریض آتاہے‘ اور جو ایک دفعہ آجاتاہے اُسے مایوس لوٹانا میرے لیے ممکن نہیں۔ لہذا یہ جن امراض کاآپ نے ذکر کیا ہے اگر اِن کا مریض پہلی سٹیج پر میرے پاس آجائے اور مجھے پتا چل جائے کہ معاملہ گڑبڑ ہے تو میں دو دفعہ بلا کر اُن سے فیس لیتا ہوں اور پھر کسی متعلقہ ڈاکٹر کو ریفر کر دیتا ہوں۔‘‘ میں چونکا’’تو پھر آپ نے مجھے ایک سال پہلے دماغی امراض کے ڈاکٹر کے پاس کیوں ریفر کیا تھا‘ مجھے تو دماغ کا کوئی مسئلہ نہیں‘‘۔ڈاکٹرصاحب نے آہ بھری’’مسئلہ آپ کونہیں اُس ڈاکٹر کو تھا‘ میرا سالا ہے‘ نیا نیا کلینک کھولا تھا اور مریضوں کی تعداد بہت کم تھی۔‘‘میں نے مٹھیاں بھینچیں اور خود پر کنٹرول کرتے ہوئے پوچھا’’کیا کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ آپ کو کوئی تکلیف ہوئی ہو اور آپ خود بھی کسی ڈاکٹر کے پاس گئے ہوں؟‘‘۔ آہ بھر کربولے’’اِس علاقے میں کوئی اچھا ڈاکٹر ہے ہی نہیں۔‘‘ پھر یکدم بوکھلائے’’میرا مطلب ہے میں کھانے پینے میں بہت پرہیز کرتاہوں لہذا کبھی کوئی ایسی بڑی تکلیف نہیں ہوئی۔‘‘یہ سن کر میرے ذہن میں ایک اور سوال ابھرا’’ڈاکٹر صاحب چھوٹی موٹی تکالیف کے لیے کس قسم کی پرہیز کرنی چاہیے؟‘‘۔ ڈاکٹر صاحب نے عینک نیچی کرتے ہوئے مجھے گھورا’’ پہلی بات تو یہ کہ یہ سوفیصد ڈاکٹری مشورہ ہے اور فیس کا متقاضی ہے اور دوسرے یہ کہ ایسے مشورے دے کر میں نے کلینک نہیں بند کروانا۔‘‘بات میں دم تھا لہذا میں نے بھی اصرار نہیں کیا ۔
اپنے اردگرد دیکھئے‘ گلی محلوں میں دھڑا دھڑا ڈاکٹرز کے کلینک کھلتے جارہے ہیں جہاں دو سوروپے میں چیک اپ بھی ہوتا ہے اور دوائی بھی ملتی ہے۔ یہ دوائی کبھی مریض بازار سے نہیں خرید سکتا کیونکہ یہ ساری گولیاں کھلی ہوتی ہیں۔ساتھ تین چھوٹی چھوٹی پلاسٹک کی بوتلوں میں لال‘ نیلا ‘ پیلا سیرپ ہوتاہے جس سے ہر مرض کا علاج ہوجاتاہے۔کھلی گولیوں کے پیچھے بھی ایک فلسفہ ہے۔دوا ساز کمپنیوں کے میڈیکل ریپ جو نسخے فری میں ڈاکٹروں کو فراہم کرتے ہیں ان پر ’’برائے فروخت نہیں‘‘ کے الفاظ انگلش میں نمایاں ہوتے ہیں ۔ یہ اس لیے دیے جاتے ہیں تاکہ ڈاکٹر حضرات مریض کو مفت میں یہ دوائی دے کر رزلٹس حاصل کریں۔لہذا نہ یہ کسی میڈیکل سٹور پر بیچے جاسکتے ہیں نہ کسی مریض سے ان کے پیسے وصول کیے جاسکتے ہیں ۔ لیکن ہاں۔۔۔اگر یہ گولیاں پتے سے نکال لی جائیں تو پھر کوئی اِنہیں پہچان نہیں سکتا کہ یہ سیمپل والی ہیں یا برائے فروخت۔گلی محلوں میں اکثر ڈاکٹرز یہی گولیاں استعمال کرتے ہیں۔ مفت کے اس مال کا ثواب کمپنی کی بجائے ڈائریکٹ ڈاکٹر کو جاتاہے۔آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ کوئی ٹیسٹ کرانا ہو تو کئی ڈاکٹر لیبارٹری کا نام تک تجویز کر دیتے ہیں اورپھر زور دیتے ہیں کہ اسی لیبارٹری کا ٹیسٹ بہترین ہوتاہے۔آپ لیبارٹری جاتے ہیں ‘ وہاں نسخہ دیکھتے ہی ایک نوجوان لڑکا یا لڑکی سب سے پہلے ڈاکٹر صاحب کانام کمپیوٹر میں درج کرتاہے۔یہ گویا ایک طرح کی رسید ہوتی ہے کہ ’مال پہنچ گیاہے‘۔ڈاکٹر‘ میڈیسن کمپنی‘ میڈیکل سٹور اور لیبارٹری۔۔۔یہ چارعناصر ہوں تو ہوتا نہیں نقصان۔۔۔!!!
اللہ رحم کرے اُن مریضوں پر جو ایسے ڈاکٹروں کے ہتھے چڑھتے ہیں اور بچ جائیں تو ساری زندگی بچوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ خاندان میں ایک ڈاکٹر ضرور ہونا چاہیے تاکہ انسانیت کی خدمت کرے نہ کرے کم ازکم گھر والوں کی مشکل آسان کرتارہے۔۔۔!!!
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔