کلفٹن کے فلیٹ والی بھوت آنٹی
( کراچی کی رہائشی ایک خاتون کی سو فیصد سچی آپ بیتی )
ہم ہم گلشن اقبال بلاک پندرہ میں رہتے تھے
بہت کھلا ہوادار گھر کبھی نہیں سوچا تھا کہ اتنی اچھی جگہ کو چھوڑ کر ایک دو سو گز کے فلیٹ میں رہنا پڑے گا
لیکن اولاد کے سامنے اپنا آرام کوئی معنی نہیں رکھتا – یہ سن 2006 کی بات ہے- میری بڑی بیٹی کا پریپ 1 میں کلفٹن کے ایک کانوینٹ اسکول میں داخلہ ہوگیا تو ایک ساڑھے تین سال کی بچی کے لئے گلشن سے روز کلفٹن آنا آسان نہیں تھا – وہ کمزور پھول سی بچی ۔۔۔
پھر میرے دبنگ سسر نے اعلان کردیا کہ یا تو اسکول بدلو یا گھر۔۔۔
دادا سے پوتی کی تکلیف برداشت نہیں ہوتی تھی اور میں بھی 4 مہینے کی دوسری بچی کے ساتھ بڑی بچی کو اسکول لانے لیجانے میں بے حال تھی!
پھر فیصلہ یہ ہوا کہ اسکول بہت اچھا ہے اور مقدر سے داخلہ ہوا ہے لہذا گھر بدلا جائے گا یہ بات میرے ساس سسر کے لئے دکھ کا باعث تو تھی لیکن میرے شوہر بھی بات کی حیثیت سے اپنی بیٹی کا سوچ رہے تھے
ہم نے کافی مکان دیکھے لیکن میں خود بھی کبھی اکیلی نہیں رہی تھی اور پھر میرے ساتھ دو ننھی بچیاں تو یہ فیصلہ ہوا کہ فلیٹ کافی محفوظ ہوتے ہیں گھر کے مقابلے میں لہٰذا ہم نے ایک فلیٹ کا سودا کیا ایک ہندو فیملی سے جو خود سکھر میں رہائش پذیر تھے اور یہ فلیٹ خالی پڑا تھا اور فلیٹ کے لاونج میں چنیوٹی کام کے ایک بے حد خوبصورت چہار کونے والے جنگلے میں مندر بنا رکھا تھا
میں نے برملا لاونج میں وہ مندر دیکھتے ہی ناگواری کا اظہار کیا تھا
تیز رنگ و روغن سے آراستہ دیواریں مجھے ایک نظر نہیں بھائی تھیں
میرے شوہر نے کہا تم 2 مہینے بعد یہ فلیٹ دیکھنا اور اس بیچ تم یہاں بلکل نہیں آو گی ۔ واقعی 2 مہینے بعد نقشہ ہی کچھ اور تھا میرا دل باغ باغ ہو گیا لیکن قدرتی طور پر میں وہاں اس قدر عبادت گزار ہوگئی تھی جیسے میں ہر وہ نقش مٹا دینا چاہتی ہوں جو مندر کی پوجا پاٹ میں ہوا۔ تہجد بھی کئی بار نصیب ہوئی سورہ بقرہ 40 دن تک بلا ناغہ پڑھی۔ سورہ مریم ہر عشاء کے بعد شروع شروع میں تو کچھ نہیں ہوا
ہماری اپنی سیپریٹ چھت تھی میں مغرب کے بعد کبھی بھی فلیٹ میں نہیں رکتی تھی ماسی ہماری چائے چھت پر لگا کر جاتی تھی اور میں بچوں کو لیکر وہیں رہتی جب تک آصف گھر نہیں آجاتے ۔۔اس وقت تک بچے کھیلتے رہتے اور میں فون پر لگی رہتی ۔۔۔۔ٹائم گزر جاتا
پھر میرے آہستہ آہستہ گھر سے انسیت ہونے لگی۔
مغرب کے وقت ڈر لگتا تھا پتہ نہیں کیوں چھٹی حس کچھ بتاتی تھی
میری کوشش رہتی کہ اس وقت چھت پر رہوں لیکن پھر کبھی کوئی کام ہوتا یا کچھ اور وجہ میں نے خود کو ایڈجسٹ کر لیا اور ٹی وی وغیرہ لگا کر رونق کر لیتی۔
اسٹار پلس اور انڈیا کے ڈراموں سے مجھے سخت ترین نفرت ہے میرے گھر میں کوئی ملازم بھی انڈین ڈرامے نہیں دیکھ سکتا ۔
ایک دن ماسی کوئی ایسا ڈرامہ دیکھ رہی تھی جس میں بھجن وغیرہ زور و شور سے چل رہا تھا میری جان جل کر رہ گئی میں آپے سے باہر ہوکر چیخی بند کرو یہ منحوس آواز سارے گھر میں نحوست پھیل رہی ہےمیرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ کسی اور مخلوق کو میری بات بری لگ سکتی ہے۔ کچن میں ایک روشندان تھا وہاں سے ہوا کی ایسی آوازیں انا شروع ہوگئی کہ رگوں میں خون جمنے لگاجیسے کہ ٹھیلہ سوزوکی اسٹارٹ کرنے کی کوشش کر رہا ہو کوئی بہت کھٹارا سی ، کبھی تیز آواز کبھی مدھم کبھی سناٹا، پھر ایک نئی مشکل آن پہنچی مجھے عین مغرب کے وقت ایسی نیند آتی کہ لاکھ کوشش کے باوجود میں جاگ نہ پاتی ۔ کتنی بھی کوشش کرلوں میں بے دم ہوجاتی اور اس پر غضب یہ کہ لائیٹ چلی جاتی ۔ میری آنکھیں کھلی ہوتیں لیکن جسم بے جان ۔ ایک رات تو حد ہوگئی ۔ میں اپنے بیڈ پر سو رہی تھی آصف بھی بے خبر سو رہے تھے مجھے کچھ گرمی سی لگی پنکھے کی زیادہ ہوا پیروں کی طرف آ رہی تھی اس لیے میں نے تکیہ سرہانے سے اٹھا کر پیروں کے سائیڈ رکھ لیا اور سو گئی ۔ کچھ ہی دیر بعد میں نے چہرے کو گھما کر آنکھیں پوری کھول دیں اور ایک عورت کو بیڈ کے بلکل اس کونے کے ساتھ کسی کرسی پر بیٹھے دیکھا جو ہمارے گھر کی کرسی نہیں تھی
۔ میں آج بھی اسکا چہرہ ایسے امیجن کرسکتی ہوں جیسے وہ کل کی بات ہو۔ اسکی لمبی موٹی چوٹی تھی اور بال ایک سفید ایک کالا ایسے مکس ہوئے وے تھے۔ آنکھیں بہت بڑی بڑی اور حیرت سے پھٹی ہوئی ۔ مجھے جھک کر سر سے پیر تک دیکھ رہی تھی ۔ ناک نقشہ بلکل کھڑاذرا بھاری جسامت لیکن بے ڈول ہرگز نہیں اور بیٹھے ہوے ہونے کے باوجود اندازہ ہو رہا تھا کہ لمبی بھی ہوگی ۔ ۔ سفید ساڑھی، ماتھے پر بندیا، بڑے بڑی پھٹی ہوئ آنکھیں جو جھپک نہیں رہی تھیں۔ کمرے میں ایک عجیب سی تیز اور بھاری خوشبو جس میں ایک طرح کی چراند بھی شامل تھی۔ ایسی ہی بھاری خوشبو مجھے اس دن بھی محسوس ہوئ تھی ب ہم پہلی مرتبہ اس فلیٹ میں داخل ہوئے تھے۔ میری اور اسکی آنکھیں آمنے سامنے تھیں میری زبان گنگ تھی میرا جسم بے جان تھا میرے دل کی دھڑکن بے قابو تھی میں نے اپنی پوری قوت یکجا کر کے اپنے ہاتھ سےآصف کی ٹانگ کو ٹٹولا کہ اسکو چٹکی نوچ کر جگا سکوں لیکن اسکی ٹانگ میرے ہاتھ سے دور تھی میری اور اس عورت کی آنکھیں مستقل ملی رہیں بنا آنکھ جھپکے۔ یقین کریں میری جو حالت تھی وہ بیان سے باہر ہے۔ پھر تو یہ معمول بن گیا۔ میرا چین و سکون سب لٹ گیا۔
میری امی رہنے آئیں وہ سو رہی تھیں دوپہر کے وقت اور میں اپنے کمرے میں لیٹی تھی ماسی استری کر رہی تھی بچے بھی وہیں کہیں کھیل رہے تھے ۔۔کہنے کا مقصد یہ کہ اچھی خاصی چہل پہل تھی کہ اتنے میں امی کے گھگھیا کر چیخنے کی آوازیں آئیں کون ہو کون ہو؟۔۔۔اور مجھے سمجھنے میں ایک سیکنڈ بھی نہیں لگا کہ امی نے بھی ان آنٹی کے دیدار کر لئے ہیں ۔ میں بستر سے کود کر امی کے پاس بھاگی تو امی نے ڈرے ہوئے خوفزدہ لہجے میں بتایا کہ ایک عورت ان پر جھکی ہوئی ان کو گھور رہی تھی بس پھر کیا تھا میں نے پٹر پٹر پورا حلیہ بیان کر کے پوچھا امی ایسی تھی امی نے کہا ہاں بلکل ایسی ۔ پھر امی بھی کچھ دن رہ کر چلی گئیں اور پھر میں تھی اور وہ فلیٹ ۔ میں نے تو پھر خوب رونا دھونا شروع کر دیا۔ آصف کے ساتھ اسکے گھر آتے ہی روز۔ وہ پریشان ہو جاتا تسلیاں دیتا اور کبھی کبھی تنگ بھی آجاتا۔ میری بس ایک ہی رٹ کہ مجھے نہیں رہنا یہاں ۔۔۔خدا کے واسطے کہیں اور چلو ان جن آنٹی سے بہتر تو تمہاری امی تھیں ڈر تو ان سے بھی لگتا تھا مگر وہ تھیں تو انسان ۔ آصف مجھے ڈانٹ کر کہتا بچوں کا کھیل نہیں ہے گھر بدلنامیں ماسی کے گلے لگ کر اکثر رویا کرتی ایک وہ ہی ہمدرد نظر آتی تھی ۔۔۔
میں اسکی منتیں کرتی کہ خدا کے لئے آصف کے آنے تک رک جاو لیکن وہ بیچاری مجبور تھی وہ کہتی باجی میرے دونوں بچے گونگے بہرے ہیں میں جب گھر جاتی ہوں تو گلی میں بھٹک رہے ہوتے ہیں اور انکا باپ جو کسی چمڑے کی فیکٹری میں کام کرتا تھا وہ 12 بجے کے بعد آتا تھا میں اسکی مجبوری سن کر چپ ہوجاتی وہ مجھے ہر طرح کی تسلی دیکر چلی جاتی ۔ مغرب کے قریب وہ ہی میں نا چاہتے ہوئےسوجاتی اور پھر کبھی ایسا محسوس ہوتا جیسے میرے چہرے پہ کسی کا ہاتھ ہے اور میں ہل بھی نہ پاتی ۔ ایسے میں کئی بار ایسا بھی ہوا کہ لائیٹ چلی گئی ۔ میں جیسے حالات جنگ میں تھی ۔ میری ایک نہ چلتی تھی نہ جن آنٹی کے آگے نہ آصف کے آگے۔ روز روز کے اس ہنگامہ نے مجھے ہلکان کردیا تھا۔ روزآصف کے آتے ہی بس یہ ہی رونا دھونا ۔ وہ کبھی تو بہت پیار سے سمجھاتا اور کبھی جھنجھلا جاتا کہ تم ہر کسی سے یہ جن بھوت کے قصے شئیر کرتی ہو یہ گھر بدنام ہوجائے گا اور کوئی خریدے گا بھی نہیں ۔ گھر ایک دو دن میں نہیں بکتے دیکھتے ہیں کرتے ہیں کچھ ۔ اور میں زچ ہوکر کہتی اللہ کرے وہ آنٹی تم کو دکھائی دیں تو پتہ چلے مجھے تو گھونٹ کر مار دو میں تو ذکر بھی نہیں کروں کسی سے بس اکیلی سہتی رہوں ۔ ایک دن میری بڑی بچی دوسرے کمرے سے روتی ہوئی آئی اس کو بھی بھوت انٹی نظر آ گئی تھیں حالانکہ میں نے بچوں سے کبھی اس بارے میں کوئ ذکر تک نہ کیا تھا۔اس دن میرا خوف ہوا ہوگیا ۔ اور میں خود ایک چڑیل نما چیز بن گئی ۔ مجھے نہیں معلوم کیا ہوا کہ دو دو ہاتھ کرنے کی دل میں سوچ لی کہ یا تو تم نہیں یا پھر میں نہیں۔ میں شام کو ماسی کے جانے کے بعد اکثر بچوں کو چھت پر کھیلتے چھوڑ کر اکیلی فلیٹ میں آکر بیٹھ جاتی اور زور زور سے ان آنٹی کو مخاطب کرتی۔ مجھے نہیں معلوم یہ حوصلہ کہاں سے آیامیں انکو سمجھاتی کہ میری طرف سے کوئی دل آزاری ہوئی ہو تو میں معذرت چاہتی ہوںیہ گھر مجھ سے پہلے آپکا ہےہوسکتا ہے کہ ہماری وجہ سے آپکو تکلیف پہنچی ہو ۔ لیکن کسی بھی مذہب میں یہ کہاں جائز ہے کہ آپ دوسروں کو تکلیف پہنچائیں ۔ آپ حوصلہ رکھیں اور اپنے خدا سے دعا کریں کہ خیریت کے ساتھ ہمارا بندوبست کہیں اور ہوجائےاور میری بھی اپنے اللہ سے آپکے لئے نیک خواہشات ہیں لیکن ہمکو تنگ مت کریں۔ کوئی ایسا الفاظ بھی استعمال نہ کروں کہ آپکو برا لگےپھر مجھ میں ایک اعتماد سا آگیامجھے ایسا لگا جیسے ان حرکتوں میں کمی آئی ہے جو پہلے مجھے بہت زیادہ محسوس ہورہی تھیں ۔ اب میں آصف کو بھی زیادہ منہ نہ لگاتی اب مجھے اپنی مشکلات کو خود فیس کرنا آگیا تھا۔ وہ پوچھتا بھی آج کچھ نہیں ہوا؟
آج دن کیسا گزرا تو میں تنک کر جواب دیتی کیسا گزرتا ٹھیک گزرا جیسا بھی گزرا تم سن کر کیا کروگے ۔۔۔
میں یہ سوچ کر بات کرتی کہ میری ہر بات وہ آنٹی سن رہی ہین۔ پھر جیسے قدرت ہم پر مہربان ہوگئی میرے شوہر کا نارتھ ناظم آباد والا گھر جو کئی سال سے بکنے کے لئے اسٹیٹ ایجنٹ کے پاس تھا اور اسکی 90 لاکھ سے زیادہ قیمت نہ لگتی تھی اسکی ڈیڑھ کروڑ کی آفر آگئی۔ وہ گھر بک گیا تو ہم نے دوسرا گھر دیکھنا شروع کیا اور اب وہ آنٹی میری سہیلی ہوں جیسے میں انکو اکیلی بیٹھ کر سب تفصیل بتایا کرتی ۔ جو گھر پسند آتا وہ ڈھائی تین کروڑ سے کم کا نہیں ہوتا اور فلیٹ اب خریدنا نہیں تھا پھر یہ فیصلہ ہوا کہ یہ فلیٹ بھی بیچ کر اسکے پیسے ملا کر دوسرا گھر خریدا جائے۔ اسٹیٹ ایجنٹ کو کہنے کے بعد فلیٹ دیکھنے والوں کی لائیں لگ گئی ۔ روز کئی فیملیز آتیں اور بہت پسند کرتیں لیکن ریٹ وہ کم لگاتیں جوہم کو قبول نہ تھے۔ پھر ایک پشاور کی پٹھان فیملی جو بہت پڑھے لکھے سلجھے ہوئے لوگ تھے ۔ سودا ڈن ہوگیا وہ گھڑی کی چوتھائی میں یہ فلیٹ خریدنا چاہتے تھے ۔
آصف گھر پر نہیں تھے اسکے باوجود وہ میرے ہاتھ پر 4 لاکھ کا چیک رکھ گئے کہ اب یہ فلیٹ آپ کسی اور کو نہیں دکھائینگی ۔ شاید کروڑ سے کچھ اوپر سودا ہوا ۔ میں بڑی پریشان کہ کیا کروں مجھے تو ان کو ہینڈل کرنا بھی نہ آئے خیر جب آصف آئے تو میرا فق چہرا دیکھ کر پوچھا اب کیا ہوا؟ ۔۔۔تو میں نے وہ چیک انکے حوالے کردیا۔ آصف نے اسٹیٹ ایجنٹ کو فون کیا اور مبارکباد جیسے لفظ سنکر میں مطمئن ہوگئی کہ شکر ہے کوئی حماقت سرزد نہیں ہوئی مجھ سےلیکن بہ مشکل دو دن بعد ہی وہ آدمی اور اسکی بیگم منہ لٹکائے آئے۔ ہم رات کا کھانا کھا رہے تھے اور میں جب چائے لئے کمرے میں پہنچی تو یہ الفاظ سنے کہ چلیں نصیب میں نہیں تھا اللہ مالک ہے ۔۔۔
میں بجھ سی گئی بعد میں تفصیل پتہ چلی کہ وہ پیسوں کا بندوبست نہیں کرسکتے اور سودا منسوخ ہوگیا ۔ آصف نے انکا چیک انکے حوالے کردیا اور وہ شرمندہ شرمندہ چلے گئے۔ اور میں دوبارہ پریشان ہوکر بیٹھ گئی ۔ پھر اسکا سودا ایک مسلمان فیملی میں ہوا اور انکو ٹوٹ کر فلیٹ پسند آیا اور پھر دو دن بعد وہ سودا منسوخ۔ میں اور آصف حیران کہ یہ کیا ہورہا ہے ۔ اب آصف بھی میری باتوں کا یقین کرنے لگے تھے اور کہا یار کہیں وہ تمھاری جن آنٹی تو ایسا نہیں کر رہیں کہ انکو یہ فیملیز پسند نہ ہوں ۔ پھر سودا ہوا اور پھر منسوخ۔ جب تیسری بار ایسا ہوا تو ایک دوپہر میں بہت روئی کہ یہ کیا ہورہا ہے؟ اور اس کے بعد آپ حیران ہونگے کہ ایک ہندو فیملی آئی اور ایک کروڑ 20 لاکھ میں سودا ڈن ہوگیا۔ پھر تو کوئی شک ہی نہ رہا کہ پچھلے سودے کیوں منسوخ ہورہے تھے۔ میں نے انکی بیگم کو باتوں باتوں میں بتایا کہ یہ فلیٹ بہت خوش قسمت ہے اور یہاں آکر انہونی خوشیاں ملی ہیں توآصف مجھے گھورتے رہے کہ شاید میں اپنی جن آنٹی سہیلی کا ذکر نہ کردوں ۔ لیکن میں اتنی بھی پاگل نہیں ۔ وہ فلیٹ اس ہندو فیملی کے ہاتھوں ساتھ خیریت کے بکا۔ ہم نے دوسرا گھر خریدا جو پچھلے 5 سال سے بند پڑا تھا اور میری ٹینشن کی کوئی انتہا نہ تھی کہ ابھی تو ایک جن آنٹی سے دو دو ہاتھ کرکے ہلکان ہوئی ہوں اب یہاں کوئی جن انکل نہ مل جائیں لیکن اللہ کا شکر ہے یہاں بہت سکون ہے۔ آپکو یہ سن کر حیرت ہو شاید کہ وہ ہندو فیملی بھی اب بنگلہ میں شفٹ ہوچکی ہے اور وہ فلیٹ دوگنی قیمت میں انہوں نے فروخت کیا اور آج وہ فلیٹ پھر خالی پڑا ہے۔
آپ کو چاہئے؟
(نوٹ: یہ بھوت آنٹی کی تصویر ہم نے پنجاب کالج آف آرٹس کی فارغ التحصیل فائن آرٹس تجربہ کار گریجویٹ ایک خاتون سے بنوائی ہے۔ جن خاتون نے اس بھوت آنٹی کی کہانی بیان کی ے ان کو دکھا کر تصدیق کرلی ہے کہ کافی حد تک نہیں بلکہ وہ انٹی بالکل ایسی ہی تھیں۔)
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔