یاسمین گریجویشن کی پڑھائی کررہی تھی۔ ساتھ ہی وہ روزآنہ ٹیوشن کلاس بھی جایا کرتی تھی۔ وہ بہت پڑھائی میں بہت ہوشیار تھی۔ اُس کے والدین بہت خوش تھے ۔ کیوں کہ اپنی لاڈلی بیٹی کو اعلیٰ تعلیم دینا، انکا خواب تھا۔ جس کی تکمیل کی راہ پر یاسمین گامزن ہوچکی تھی۔ وہ اپنے دوست احباب اور رشتے داروں میں فخریہ انداز میں بیٹی کی تعریف کیا کرتے تھے۔
ٹیوشن کلاس میں اسکی دوستی سُریش سے ہوگئی تھی۔ دونوں ایک ساتھ پڑھائی کرنے لگے تھے۔ انکی یہ دوستی محبت میں کب بدل گئی پتہ ہی نہیں چلا۔ آپس میں تحفے تحائف دینے سے رِشتہ مضبوط ہوگیا۔ وہ درجہ بہ درجہ آہستہ آہستہ آگے بڑھتے گئے۔ فون پر چیٹِنگ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ، بات چیت ۔۔۔۔۔۔۔ ، پھر ڈیٹِنگ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شروع ہوئی۔ ایک دن اُنکی 'محبت' انتہا کو پہنچ گئی۔ اُس دن یاسمین اپنی عفت و عصمت کا گوہر لٹا چکی تھی۔
اب یاسمین کی، ایک ہی تمنا تھی کہ "سُریش اُس سے جلد از جلد شادی کرے۔ "جِس کا سُریش نے یاسمین سے وعدہ کیا تھا۔" بات کرنے پر سُریش نے کہا میں تیار ہوں۔ مگرکیا تمھارے والدین ، مجھ سے شادی کی اجازت دیں گے؟ " اس لیے ہم کورٹ میرِج کر لیتے ہیں۔
یاسمین نے فوراً ہاں کہا۔ سُریشن نے کورٹ میرج کی تمام پروسیس مکمل کی اور میجسٹریٹ کے پاس یاسمین کے ذریعے شادی کی درخواست داخل کردی۔ سُریش نے اُس درخواست کی ایک کاپی اپنے پاس رکھی۔ اُس نے وہ کاپی اپنے دوست کو فارورڈ کی جس میں دونوں کے فوٹو اور پتہ درج تھا۔ سُریش نے اپنے دوست سے کہا ، کہ "اس درخواست کو خوب سوشل میڈیا پر وائرل کردو۔" دوست نے سُریش کی بات پر عمل کیا۔ اس نے واٹساپ ، ٹیوٹر ، انسٹاگرام ،فیس بک اور ہائک وغیرہ پر بہترین پوسٹ بناکر ڈال دیں ۔
"چونکہ شادی کے لئے کورٹ میں داخل کی گئی درخواست کو ایک ماہ تک نوٹس بورڈ پر لگایا جاتا ہے۔ تاکہ اس درخواست کی تصدیق ہوجائے۔ اور اگر کسی کا اعتراض ہوتو وہ کورٹ میں عرضی پیش کرسکے۔ " سوشل میڈیا پر وائرل یاسمین کا فوٹو، ایک غیر مسلم لڑکے ساتھ دیکھکر اُسکے اہلِ خانہ و رشتے دار سب حرکت میں آگئے۔
والد نے خود کو سنبھالتے ہوئے۔۔۔۔۔۔ نرم لہجے میں کہا، میری لاڈلی، پیاری۔۔ بیٹیا تجھ پر ہمیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فخر ہے۔ ہماری محبت کا تم نے یہ کیسا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صلہ دیا؟ اپنے مذہب ،و تہذیب کا ذرا بھی خیال نہیں کیا؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماں نے روتی صورت بنا کرکہا، "بیٹی تو میری جان ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری گڑیا ہے۔۔۔۔۔ بیٹی میری ممتا کی محبت۔۔۔۔۔۔۔۔ میں کونسی کمی رہ گئی تھی کہ تونے زندگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے سب سے قیمتی فیصلے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے بارے میں مجھے بتانا گوارہ نہ کیا۔۔۔۔۔۔۔
ساتھ میں موجود دیگرافراد نے بھی یاسمین ۔۔۔۔۔ کو سمجھایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یاسمین نے اپنی دی ہوئی درخواست واپس لے لی۔ اس طرح یاسمین کے گھر والوں،رشتے داروں و دیگر افراد نے شادی رُکوادی۔ وہ سب اسے کامیابی، سمجھ کرخوش ہو رہے تھے۔
سُریش کو "کلیٖن چیٖٹ" مل گئی۔ سُریش اپنے منصوبے میں کامیاب ہو چکا تھا۔ اسے تو "آم کے آم گٹھلیوں کے دام " مل گئے تھے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...