کلاڈ گیوکس
افسانہ ؛ وکٹر ہیوگو
اردو قالب ؛ قیصر نذیر خاورؔ
( وکٹر ہیوگو نے ' Claude Gueux ' نامی یہ کہانی 1834ء میں لکھی تھی ۔ یہ ’ کرائم فکشن‘ کی اولین مثالوں میں شمار ہوتی ہے ۔ اس کہانی سے پہلے اس نے اپنا مختصر ناول ’ سرگزشت اسیر‘ ( Le Dernier Jour d'un Condamné) 1829 ء میں لکھا تھا جو موت کی سزا کے خلاف تھا ۔ مارچ 1832ء میں اُس نے اِس ناول کا ایک طویل پیش لفظ لکھا اور اپنے دستخطوں کے ساتھ اسے شائع کروایا تھا ۔ ' کلاڈ گیوکس ' کہانی کا تسلسل تیس سال بعد اس کے ناول ’ مفلوک الحال‘ (Les Misérables) کی شکل میں نظر آتا ہے جو 1862ء میں منظر عام پر آیاتھا ۔ وکٹر ہیوگو کی ان تینوں تحریروں کا تعلق ’ ایوجین فرانکوئیس ویڈوک ، جولائی 1775ء تا 1857ء کی زندگی کے حالات ، جو ایک سابقہ فوجی، سابقہ مجرم ، فرانس کی ’نیشنل پولیس‘ (Sûreté Nationale) بنانے اور بعد ازاں فرانس میں پہلا نجی جاسوسی ادارہ کھڑا کرنے والا تھا ، سے بھی جڑا ہوا ہے ۔ ویڈوک کے حالات زندگی نے دیگر کئی ادیبوں کی تحریروں پر اثر ڈالا جن میں بالزاک اور ایڈگر ایلن پو اہم ہیں ۔ وکٹر ہیوگو کی اس کہانی کے انگریزی میں ایک سے زائد ترجمے ہوئے ۔ میں نے یہاں اصل ٹیکسٹ کے ساتھ جس ترجمے سے استفادہ حاصل کیا ہے وہ نوٹنگم سوسائٹی نے 1907 ء میں کیا تھا ۔ )
کلاڈ گیوکس ایک غریب محنت کش تھا ۔ اسے اپنی عورت اور اس کے بچے کے ساتھ پیرس میں رہتے آٹھ سال ہو گئے تھے۔ وہ تعلیم حاصل نہ کر سکا تھا یہاں تک کہ وہ پڑھ بھی نہیں سکتا تھا البتہ وہ جماندرو ہوشیار اور ذہین تھا اور معاملات پر گہرائی سے غور و فکر کیا کرتا تھا ۔ سردیاں حسب معمول اپنے ساتھ علائم لے کر آئیں ، ۔ ۔ ۔ روزگار کا فقدان ، خوراک کی قلت اور بالن کی کمی ۔ وہ ، اس کی عورت اور بچہ سردی سے جمنے اور خوراک کے فقدان کا شکار ہو گئے۔ وہ چور بن گیا ۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس نے کیا چرایا تھا ۔ اہم بات یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں اس نے اپنی عورت اور بچے کے لئے تین دن کے لئے خوراک اور بالن تو مہیا کر دیا تھا لیکن خود اسے پانچ سال کی قید کی سزا ہو گئی تھی ۔ اسے کلیئرواکس لے جایا گیا ۔ ۔ ۔ جس کے خانقاہ سے جڑے گرجا گھر کو زنداں میں بدل دیا گیا تھا ، اس کے حجرے محبس بنا دئیے گئے تھے اور اس کی قربان گاہ مجرموں کو لٹا کرتشدد کے لئے برتی جانے لگی تھی ۔ اسے کہتے ہیں ترقی ۔
ایماندار محنت کش کلاڈ جسے حالات نے چور بنا دیا تھا ، ایک متاثر کر دینے والے حلیے کا مالک تھا ، ۔ ۔ ۔ کشادہ ماتھا جس پر فکر مندی کے باعث لکیریں موجود رہتیں ، گہرے رنگ کے بال جن میں چاندی کے تار چمکتے تھے ، گہری آنکھیں جن سے کرم پھوٹتا تھا ، جبکہ چہرے سے مستقل مزاجی اور عزت نفس کا امتزاج جھلکتا تھا ۔ وہ بولتا تو کم ہی تھا لیکن اسے دیکھ کر احساس ہوتا تھا کہ اس کی عزت اور اطاعت کی جائے ۔ وہ ایک مناسب شخصیت کا حامل تھا لیکن اس کے ساتھ معاشرے نے کیا کیا آئیے دیکھتے ہیں ۔
جیل کے کارخانے میں ایک انسپکٹر تھا جو کبھی بھی نہ بھولتا تھا کہ وہ اپنے ماتحتوں کا ایک ’ جیلر‘ بھی ہے ۔ وہ ایک ہاتھ سے انہیں اوزار پکڑاتا جبکہ دوسرے سے ان کو زنجیر میں بھی جکڑتا ۔ وہ ایک ایسا ’ ظالم ‘ تھا جس نے اپنے خیالات پر خود سے بھی کبھی مکالمہ نہ کیا تھا اور دوسرے تو ان پر التجا بھی نہ کر سکتے تھے ۔ وہ ’ اٹل‘ سے زیادہ ’ سخت ‘ تھا اور بسااوقات وہ ایک مسخرہ لگتا تھا ۔ وہ ایک اچھا باپ اور خاوند بھی نہ تھا ، ظالم نہ بھی کہیں تو برا ضرور کہہ سکتے ہیں ۔
وہ ایسے مردوں میں سے تھا جن کو کبھی کوئی نیا خیال آتا ہی نہیں اور جو ہر طرح کے جذبے سے عاری ہوتے ہیں سوائے نفرت اور انتقام کے ، جو انہیں لکڑی کے ایسے بالے بنا دیتے ہیں جو ایک طرف سے تو گرم ہو جاتے ہیں لیکن ان کی دوسری طرف ٹھنڈی ہی رہتی ہے ۔ یہ بندہ اپنے اڑیل پن کی وجہ سے مشہور تھا ، اسی ہٹیلے پن کی وجہ سے مغرور اتنا تھا کہ اپنا مقابلہ نپولین سے کرتا تھا ، ۔ ۔ ۔ کیا خود فریبی تھی ، کہاں موم بتی کی ٹمٹاتی لو اور کہاں ایک ستارہ ۔ جب اس کے سر میں کوئی خیال سما جاتا تھا ، خواہ وہ کتنا ہی بیہودہ کیوں نہ ہو ، وہ اسے عملی جامہ ضرور پہناتا تھا ۔ جیل میں پیش آئے ایسے سانحے جو اپنے ساتھ بربادی لاتے ، کا اگر گہرائی میں جایا جائے تو یہی سامنے آئے گا کہ یہ اس کے اڑیل پن ، قابلیت کے فقدان اور اپنے اختیارات پر اندھے یقین کی وجہ سے پیش آتے تھے ۔
تو صاحبو ! کلیئرواکس کی جیل کے کارخانے میں ایسا ہی انسپکٹر تعینات تھا ، ۔ ۔ ۔ ہٹ دھرم اور ایسا چقماق جسے سماج نے دوسروں پر لاد رکھا تھا ، جسے توقع تھی کہ وہ ان قیدیوں کی اصلاح کا باعث بنے گا لیکن ایسے چقماق کی رگڑ سے جو شعلہ جنم لیتا ہے وہ بے قابو آگ ہی کی شکل اختیار کرتا ہے ۔
کلاڈ جلد ہی انسپکٹر کی نظروں میں آ گیا ، جسے قیدی نمبر مل چکا تھا اور وہ کارخانے میں بھی بھیج دیا گیا تھا ۔ انسپکٹر نے کلاڈ کی ہوشیاری اورذہانت کو بھی بھانپ لیا تھا اور اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کے ساتھ اپنا سلوک وضع کیا تھا ۔ وہ اسے اکثر اداس دیکھ کر ( جسے وہ اس کی بیوی کا غم سمجھتا تھا ) ، اس کاتمسخر اڑایا کرتا اور کہتا کہ اس کی بیوی رسوا عورتوں کے قبیل سے ہے ۔ اسے کلاڈ کے بچے بارے میں کچھ پتہ نہ تھا ورنہ اسے کلاڈ کو اذیت دینے کا ایک اور بہانہ مل جاتا ۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کلاڈ کو جیل کے قواعد کی عادت ہو گئی ۔ اس کے چہرے پر چھائے سکون اور متانت نے جلد ہی اسے اپنے ساتھیوں پر فوقیت دلا دی ۔ قیدیوں نے اس کو اس حد تک پسند کرنا شروع کر دیا کہ وہ اس سے اپنے معاملات پر مشورہ کرتے اور اس کی نقل کرنے کی بھی کوشش کرتے۔ کلاڈ کی آنکھوں سے جھلکتے تاثرات واضع طور پر اس کے کردار کے عکاس تھے؛ ایسے ہی نہیں کہا جاتا کہ آنکھیں روح کی کھڑکیاں ہوتی ہیں اور یہ کہ ایک ذہین جان ہی محدود خیالات رکھنے والے لوگوں کی راہنما ہو سکتی ہے ۔ کیا ایسا نہیں کہ دھات ہی پتھر کو تراش سکتی ہے؟ کلاڈ ، تین ماہ سے بھی کم عرصے میں ، زندانی کارخانے کا اصلی سربراہ بن گیا ۔ وہ کئی دفعہ تو شش و پنج میں پڑ جاتا کہ وہ بادشاہ ہے یا قیدی کیونکہ اس کے ساتھی اس کے ساتھ ایسے محصور ’ پوپ ‘ کا سا سلوک کرتے تھے جو اپنے ’ کارڈینلز‘ میں گھرا ہو ۔
ایسی مقبولیت ہمیشہ نفرت کو دعوت دیتی ہے ؛ قیدیوں کی محبت کے برعکس ، جیلر، کلاڈ سے شدید حسد اور نفرت کرتے تھے ۔ کلاڈ کی خوراک زیادہ تھی اور دو آدمیوں کا راشن بھی اس کے لئے ناکافی ہوتا تھا ۔ انسپکٹر اس پر ہنسا کرتا تھا کیونکہ وہ خود بھی بسیار خور تھا ، وہ ایک ڈیوک کی مانند کلاڈ پر ہنس سکتا تھا لیکن ایک قیدی کے لئے تو یہ بدقسمتی کی بات تھی ۔ جب کبھی کلاڈ آزاد تھا تو وہ روزانہ اپنی کمائی سے چار پاﺅنڈ کی ڈبل روٹی کا مزہ لے سکتا تھا ؛ لیکن بطور قیدی وہ دن بھر مشقت کرتا تھا جس کے بدلے اسے صرف ڈیڑھ پاﺅنڈ ڈبل روٹی اور چار اﺅنس گوشت کھانے کو ملتا تھا ۔ اس کا نتیجہ تھا کہ وہ کبھی بھی پرشکم نہ ہوتا ۔
اس نے اپنے ناکافی کھانے کو ختم کیا اور اس امید میں کہ کام میں لگ جانے سے بھوک کی طرف سے دھیان بٹ جائے گا ، وہ پھر سے مشقت پر جُتنے لگا تھا کہ کمزور صحت کا ایک نوجوان اس کی طرف بڑھا ۔ اس کے ایک ہاتھ میں چاقو تھا جبکہ دوسرے میں کھانا ۔ وہ کلاڈ سے مخاطب ہونے سے ہچکچا رہا تھا ۔
” تم کیا چاہتے ہو ؟ “ ،کلاڈ نے سرسری طور پر پوچھا ۔
” آپ سے ایک مہربانی کا متوقع ہوں ۔“ ، نوجوان نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا ۔
” کیسی مہربانی ؟ “ ، کلاڈ نے کہا ۔
” کھانے کے حوالے سے میری مدد کریں ؛ یہ میری بھوک سے زیادہ ہے ۔“
ایک لمحے کے لئے کلاڈ حیران ہوا لیکن پھر تکلف کئے بِنا اس نے نوجوان کے کھانے کے دو حصے کئے اور ایک حصہ کھا لیا ۔
” شکریہ“ ، نوجوان بولا، ” مجھے اجازت دیں کہ میں روز آپ سے اپنا کھانا بانٹ لیا کروں ۔“
”تمہارا نام کیا ہے ؟ “ ، کلاڈ نے پوچھا ۔
” ایلبن “
” تم یہاں کیسے آئے ؟ “ ، کلاڈ نے مزید سوال کیا ۔
” میں نے لُوٹا تھا ۔ “
” میں نے بھی ایسا ہی کیا تھا ۔ “ ، کلاڈ نے جواب دیا ۔
پھر روز ہی کلاڈ ، جو وقت سے پہلے ہی بوڑھا لگتا تھا ( وہ صرف چھتیس سال کا تھا ) اور بیس کے لڑکے جو فقط سترہ برس کا لگتا تھا ، کے درمیان ایسا ہونے لگا ۔ ان دونوں کے درمیان جو رشتہ بنا وہ بھائی بندی کا نہیں تھا بلکہ باپ اور بیٹے جیسا تھا ۔ کھانا آپس میں بانٹنے کے علاوہ ایک ہی کوارٹر میں سونا ، ایک ہی احاطے میں ورزش کرنا ، غرضیکہ ہر شے نے انہیں اس بندھن میں باندھ دیا ۔ وہ خوش تھے اور کیوں نہ ہوتے ؟ وہ ایک دوسرے کی’ دُنیا ‘ بن چکے تھے ۔
قیدی کارخانے کے انسپکٹر سے شدید نفرت کرتے تھے جس کی وجہ سے اسے اکثر کلاڈ کی مدد کی ضرورت پیش آتی کہ وہ اس کے اختیار کو لاگو کر سکے ۔ جب بھی کوئی ہنگامہ آرائی ہوتی اور عروج پکڑتی تو کلاڈ کے منہ سے نکلے چند الفاظ ہی جیل کے بندوبستیوں کی طاقت اور اختیار کے مقابلے میں صورت حال کو معمول پر لانے کے لئے کافی ہوتے۔ انسپکٹر اس کے اس اثر کا استعمال کرنے پرایک طرف خوش تھا لیکن دوسری طرف اپنی سنگ دلی کی وجہ سے اس سے حسد بھی کرتا تھا ،۔ ۔ ۔ وہ حق پر طاقت کی برتری کی مثال تھا اور دل ہی دل میں اُس پر اِس برتر قیدی کا خوف بھی طاری رہتا تھا ۔ کلاڈ انسپکٹر کے بارے کچھ زیادہ نہ سوچتا تھا ، اس کے دھیان میں تو بس ’ ایلبن‘ کی نگہداشت تھی۔
ایک صبح جب وارڈن چکر لگا رہے تھے تو ان میں سے ایک نے ’ ایلبن ‘ کو بلایا اور اسے انسپکٹر کے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا ۔ وہ اس وقت کلاڈ کے ساتھ مشقت میں مصروف تھا ۔
” تمہیں کس لئے بلایا گیا ہے ؟ ، کلاڈ نے پوچھا ۔
” مجھے نہیں معلوم ۔ “، ایلبن نے وارڈن کے پیچھے چلتے ہوئے جواب دیا ۔
سارا دن گزر گیا لیکن ایلبن نہ لوٹا ، رات میں بھی وہ واپس نہ آیا ، کلاڈ سے نہ رہا گیا ، اس نے اپنی کم گوئی کی عادت سے ہٹ کر وارڈن سے پوچھا ؛
” کیا ایلبن بیمار ہے ؟ “
” ” نہیں ۔“ ، جیل کے اس بندوبستی نے جواب دیا ۔
” ایسا کیا ہے کہ اس نے اب تک اپنی شکل نہیں دکھائی ؟ “
” اس کا کوارٹر بدل دیا گیا ہے ۔ “ آگے سے جواب ملا ۔
کلاڈ نے جھرجھری لی اور پھر خود پر قابو رکھتے ہوئے تحمل سے بولا ؛ ” ایسا کس کے حکم پر ہوا ہے؟ “
” موسیو ڈی ۔۔۔۔۔“ ، یہ انسپکٹر کا نام تھا ۔
اگلی رات انسپکٹر موسیو ڈی ۔۔۔۔ ، معمول کے مطابق چکر پر آیا ۔ کلاڈ اسے دور سے آتے دیکھ کر ہی کھڑا ہو گیا ، اپنی اونی سرمئی صدری کے گلے کا بٹن بند کیا اور ٹوپی اتار کر ہاتھ میں پکڑ لی ، ۔ ۔ ۔ جیسا جیل کے قواعد کے مطابق کیا جاتا تھا ۔
” جناب“ ، انسپکٹر جیسے ہی اس کے پاس سے گزرا ، کلاڈ نے کہا ، ” کیا واقعی ایلبن کا کوارٹر بدل دیا گیا ہے؟ “
” ہاں“ ، انسپکٹر نے جواب دیا ۔
” جناب ، میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ آپ کو تو معلوم ہی ہے کہ میرے لئے خوراک ناکافی ہوتی ہے اور ایلبن مجھے اپنی خوراک کا ایک حصہ دیتا ہے ۔ کیا آپ اسے واپس میرے نزدیک والی جگہ پر نہیں بھیج سکتے؟ “
” یہ ممکن نہیں ہے؛ حکم واپس نہیں لیا جا سکتا ۔ “
” یہ حکم کس نے دیا تھا ؟ “
” میں نے ۔“
” موسیو ڈی ۔۔۔۔ ، کلاڈ نے جواب دیا ، ” میری زندگی کا انحصار آپ پر ہی ہے ۔“
” میں ایک بار جو حکم دے دیتا ہوں اسے منسوخ نہیں کرتا ۔ “
” کیا میں نے آپ کو کوئی زک پہنچائی ہے ؟ “
” نہیں “
” پھر کیوں ! “ ، کلاڈ گڑگڑایا ، ” آپ نے مجھے ایلبن سے الگ کیا ہے؟ “
” بس کہہ دیا ناکہ میں نے ایسا کیا ہے ۔ “ ، انسپکٹر یہ کہتا ہوا آگے بڑھ گیا ۔
کلاڈ کا سر چھک گیا ؛ ایسے جیسے پنجرے میں قید شیر سے اس کا کتا چھین لیا گیا ہو؛ اس نے اس دکھ کو شدت سے محسوس کیا لیکن اس کا پیٹ تو خوراک کا متمنی تھا، ۔ ۔ ۔ وہ فاقہ زدگی کا شکار ہو گیا ۔ کئی ساتھی قیدیوں نے اس سے اپنا راشن بانٹنے کی کوشش کی لیکن اس نے مستقل مزاجی سے ہر ایک کو انکار کر دیا اور خاموشی سے معمولات روز و شب میں مشغول ہو گیا ۔ ۔ ۔ البتہ وہ روز انسپکٹر کے آنے پر اپنی خاموشی توڑتا اور ذہنی اذیت کے ساتھ طیش بھرے لہجے میں ، کبھی التجائی جبکہ کبھی دھمکی آمیزانداز میں ، دو لفظ بڑبڑاتا ؛ ” اور ایلبن ؟ “
انسپکٹر کندھے جھٹکتا اس کے پاس سے گزر جاتا ؛ لیکن اگر اس نے کلاڈ کا مشاہدہ کیا ہوتا تو اسے اس میں وہ تبدیلی ضرور محسوس ہو جاتی جسے سب دیکھ رہے تھے ، اسے یہ الفاظ سنائی بھی دیتے جو تمیز سے بولے جاتے لیکن ان میں استقلال بھی جھلکتا تھا ،۔ ۔ ۔ ۔
” جناب ، میری بات سنیں ؛ میرا ساتھی مجھے لوٹا دیں ۔ میرا یقین کریں کہ یہی دانشمندی ہو گی ۔ میرے الفاظ یاد رکھیں ! “
روز ِ اتوار وہ جیل کے صحن میں ہاتھوں میں اپنے جھکے سر کو تھامے گھنٹوں بیٹھا رہا اور جب فیلیٹی نامی قیدی ہنستا ہوا اس کے پاس آیا تو کلاڈ نے کہا ؛ ” میں کسی کے بارے میں حتمی نتیجے اورفیصلے پر پہنچ رہا ہوں ۔“
یہ 25 اکتوبر 18311 ء کا دن تھا ، انسپکٹر معمول کے دورے پر تھا ، کلاڈ نے اس کی توجہ پانے کے لئے راہداری میں لگے آئینے کو توڑ ڈالا ۔ شیشہ ٹوٹنے کا وہی اثر ہوا جو وہ چاہتا تھا ۔
” شیشہ میں نے توڑا ہے“ ، کلاڈ بولا ، ” جناب میرا ساتھی مجھے واپس کریں ۔“
” یہ ناممکن ہے۔“ ، اسے جواب ملا ۔
انسپکٹر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کلاڈ نے اپنی بات آگے بڑھائی : ” اب اس پر غور کریں ، آج 25 اکتوبر ہے ؛ میں آپ کو 4 نومبر تک کا وقت دیتا ہوں ۔“
ایک وارڈن بولا کہ کلاڈ موسیو ڈی ۔۔۔ کو دھمکی دے رہا ہے اور اسے فوری طور پر تالہ بند کر دینا چاہیے ۔
” نہیں ، یہ کال کوٹھری میں بند کرنے والا معاملہ نہیں ہے “ ، انسپکٹر نے تکبر اور حقارت سے مسکراتے ہوئے جواب دیا ، ” ہمیں لوگوں پر کال کوٹھری کا ٹھپہ لگانے سے گریز کرنا چاہیے ۔“
اگلے روز پھر ایک قیدی ، جس کانام ’پرنوٹ‘ تھا ، کلاڈ سے اس وقت ہم کلام ہوا جب وہ صحن میں جھاڑو دے رہا تھا ؛ ” ہاں تو کلاڈ ، تم واقعی اداس ہو ، تمہارے دماغ میں کیا چل رہا ہے؟ “
” مجھے خدشہ ہے کہ بیچارے موسیو ڈی ۔۔۔۔ پر شیطان کا غلبہ ہے ۔“ ، کلاڈ نے جواب دیا ۔
کلاڈ روزانہ انسپکٹر کو یاد دلاتا کہ ایلبن کی عدم موجودگی اس پر کس بری طرح اثر انداز ہو رہی ہے لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہ نکلا سوائے اس کے کہ کلاڈ کو چوبیس گھنٹوں کے لئے قید تنہائی میں ڈال دیا گیا ۔ 4 نومبر کو اس نے اس کوٹھری میں نظر دوڑائی ، جس میں اسے قید تنہائی میں ڈالا گیا تھا اور اپنے اس مختصر متاع کو دیکھا جو اس کی سابقہ زندگی سے وابستہ تھا ۔ یہ ایک قینچی اور ’ایملی‘ * کی پہلی جلد تھی ۔ ان دونوں کا تعلق اس عورت سے تھا جس سے وہ بہت محبت کرتا تھا اور جو اس کے بچے کی ماں بھی تھی ، ۔ ۔ ۔ یہ دونوں ایک ایسے آدمی کے لئے ناکارہ تھیں جو نہ قینچی استعمال جانتا تھا اور نہ ہی پڑھ سکتا تھا !
جب کلاڈ اس پرانی خانقاہ میں چلتا واپس جا رہا تھا ، جسے اس کے نئے منتظمین نے وقار سے گرا دیا تھا ، اس کی تازہ سفیدی ہوئی دیواروں کو دیکھتے ہوئے اس کا دھیان مجرم ’ فراری‘ پر پڑی جو کھڑکیوں میں لگی لوہے کی بھاری سلاخوں کو گھور رہا تھا ، اس نے ہاتھ میں پکڑی قینچی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس سے کہا ؛ ” آج رات میں ان سلاخوں کو اس قینچی سے کاٹ کر نکل جاﺅں گا ۔“
فراری یہ سن کر بے یقینی سے ہنسا ۔ کلاڈ بھی اس کی ہنسی میں شامل ہو گیا ۔ اس دن کلاڈ نے عمومی لگن سے بڑھ کر مشقت کی ، وہ تنکوں کی اس ٹوپی کو جلد از جلد مکمل کرنا چاہتا تھا جس کا معاوضہ ’ ٹرائس ‘ کے ایک بیوپاری ، ایم ، بریسیر ، نے پیشگی دے رکھا تھا ۔
دوپہر سے کچھ ہی پہلے ، جب وارڈن اپنی جگہ پر موجود نہ تھا تو وہ بہانے سے نچلی منزل پر ترکھانوں کے کوارٹرز میں گیا ۔ ترکھانوں نے اس کا استقبال خوش دلی سے کیا کیونکہ کلاڈ دیگر کی طرح ان میں بھی خاصا مقبول تھا ۔
” کیا کوئی مجھے ایک کلہاڑی مستعار دے سکتا ہے ؟ “ ، وہ بولا۔
” کس لئے ؟ “ ، پوچھا گیا ۔
اس نے ان سے رازداری کا تقاضا کئے بنا فوراً جواب دیا : ” میں آج رات انسپکٹر کو قتل کرنا چاہتا ہوں ۔ “
ترکھانوں نے اسے کئی طرح کی کلہاڑیاں دکھائیں ؛ اس نے ان میں سے ایک چھوٹی کا انتخاب کرکے اسے اپنی صدری میں چھپایا اور وہاں سے نکل آیا ۔ اس وقت وہاں ستائیس قیدی موجود تھے ۔ ان میں سے کسی ایک نے بھی اس سے بے وفائی نہ کی ، بلکہ وہ تو اس موضوع پر آپس میں بات کرنے سے بھی گریزاں رہے البتہ وہ اس بھیانک وقوعے کے ظہور پذیر ہونے کے منتظر ضرور تھے ۔
اپنے کارخانے میں واپس آتے سمے اس نے ایک سولہ سالہ نوجوان قیدی کو دیکھا جو بیکار بیٹھا جمائیاں لے رہا تھا ۔ اس نے اسے نصحیت کی کہ وہ پڑھنا لکھنا سیکھے ، جب وہ اسے پڑھائی کی اہمیت پر تلقین کر رہا تھا تو ’ فلیٹی ‘ نے اس سے پوچھا کہ اس نے کیا چھپا رکھا ہے؟
کلاڈ نے بنا کسی ہچکچاہٹ کے اسے جواب دیا : ایک کلہاڑی جس سے میں موسیو ڈی ۔۔۔ کو آج رات قتل کرنے والا ہوں ؛ لیکن کیا یہ تمہیں نظر آ رہی ہے؟ “
” ہاں ، تھوڑی تھوڑی “ ، فلیٹی نے جواب دیا ۔
سات بجے قیدیوں کو ان کی بیرکوں میں بند کر دیا گیا اور قواعد کے مطابق وارڈن وہاں سے چلے گئے تاوقتیکہ انسپکٹر نے چکر نہ لگانا ہو ۔ کلاڈ کی بیرک میں ایک غیر معمولی منظر دیکھنے میں آیا ، جو دستاویزات میں اپنی نوعیت کا واحد واقعہ ہے ۔ کلاڈ کھڑا ہوا اور اس نے اپنے چوراسی ساتھیوں سے ان الفاظ میں خطاب کرنا شروع کیا ؛
” آپ سب جانتے ہیں کہ ایلبن اور میں باپ بیٹوں کی طرح تھے ۔ میں نے اسے اس وقت سے پسند کرنا شروع کیا تھا جب اس نے اپنا کھانا میرے ساتھ بانٹا تھا اور بعد میں تو وہ میرا خیال بھی رکھنا شروع ہو گیا تھا ۔ آپ کو پتہ ہی ہے کہ روٹی پر مشقت سے ملنے والے پیسے خرچ کرنے کے باوجود یہ میرے لئے کافی نہ تھی ۔ ہم اکٹھے تھے اس سے موسیو ڈی ۔۔۔ کو کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے تھا لیکن اس نے ہمیں الگ کرنے کی صرف اس لئے ٹھانی کہ وہ ایک برا آدمی ہے اور اس سے ہماری یہ رفاقت برداشت نہیں ہوئی ۔ میں نے اس سے بار بار درخواست کی کہ وہ ایلبن کو واپس بھیج دے لیکن اس نے میری ایک نہ سنی ۔ پھر میں نے اسے ایسا کرنے کے لئے ایک مخصوص وقت بھی دیا ، چار نومبر تک ، لیکن اس نے مجھے تہہ خانے کی ایک کوٹھری میں ڈال دیا ۔ وہاں قید تنہائی میں ، میں نے اس کے کردار پر غوروغوص کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ وہ زندہ رہنے کے لائق نہیں ہے اور مجھے اسے آج مار دینا چاہیے ۔ ابھی دو گھنٹے بعد وہ یہاں آنے والا ہے اور میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ میں اسے قتل کرنے کا ارادہ کئے ہوئے ہوں ۔ آپ نے اس پر کچھ کہنا ہے؟ “
ماحول میں مکمل سناٹا تھا ۔ کلاڈ نے اس موضوع پرمزید کہنا شروع کیا کہ اس کے ساتھ حد کر دی گئی تھی اور اس کی کمر دیوار سے لگا دی گئی تھی جس نے اسے مجبور کیا کہ وہ قانون اپنے ہاتھ میں لے ؛ اور یہ کہ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ انسپکٹر کی جان لینے کے لئے اسے اپنی جان سے بھی جانا ہو گا لیکن چونکہ وہ صحیح راستے پر ہے اس لئے وہ اس کا نتیجہ بھگتنے کو تیار ہے۔ اس نے یہ فیصلہ دو ماہ کی ٹھنڈے دل سے کی سوچ بچار کے بعد کیا ہے۔ اس نے ساتھی قیدیوں سے یہ بھی پوچھا کہ اگرانہیں اس کے اس قدم پر کوئی اعتراض ہے تو وہ اس کا اظہار کریں ۔
صرف ایک آوازنے یہ کہتے ہوئے عمیق خاموشی کو توڑا ؛ ” انسپکٹر کی جان لینے سے پہلے ، کلاڈ کو چاہیے کہ اسے تلافی کا ایک اورموقع ضرور دے ۔ “
” یہ درست بات ہے “ ، کلاڈ نے جواب دیا ، ” وہ اسے یہ موقع ضرور دے گا ۔ “
پھر کلاڈ نے اپنے متاع ، جو ایک غریب قیدی کو رکھنے کی اجازت ہوتی ہے ، کو ان ساتھی قیدیوں میں بانٹ دیا جو ایلبن کے بعد اس کا خیال رکھتے رہے تھے البتہ قینچی اس نے اپنے پاس ہی رکھی ۔ وہ سب سے بغل گیر ہوا ، ۔ ۔ ۔ اس موقع پر کئی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور رو پڑے ۔ کلاڈ اس آخری گھنٹے میں ساتھی قیدیوں سے گفتگو کرتا رہا ، یہاں تک کہ اس نے انہیں ناک سے ہوا نکال کر موم بتی بجھانے والا اپنا کرتب ، جو اس نے لڑکپن میں سیکھا تھا ، بھی دکھایا ۔ اسے خوشگوار کیفیت میں دیکھ کر کچھ قیدیوں نے تو یہ سمجھا کہ اس نے انسپکٹر کو قتل کرنے کا ارداہ ترک کر دیا ہے ، جبکہ ایک خوفزدہ نوجوان تو بس اسے گھورے جا رہا تھا ۔
اسے یوں بُت بنے دیکھ کر کلاڈ نے شفقت سے اسے کہا ؛ ” ہمت کرو جوان ، مجھے ایسا کرنے میں ایک منٹ بھی نہ لگے گا ۔ “
بیرک ایک لمبوترا کمرہ تھا ۔ جس کی دونوں چھوٹی اطراف میں ایک ایک دروازہ تھا جبکہ بقیہ دو میں کھڑکیاں تھیں ۔ جن کے نیچے کام کرنے کے لئے بینچ بچھے تھے ، یوں درمیان میں ایک راستہ بنا ہوا تھا تاکہ انسپکٹر دونوں طرف نظر گھما کر ہوتے کام کو دیکھ سکے۔ کلاڈ اب اپنے کام میں جُت گیا تھا۔ ، ۔ ۔ ۔ کچھ ایسے ہی جیسے جیکوئیس کلیمنٹ ** اپنی عبادت کی دہرائی نہ بھولا ہو ۔
گھڑی نے پونے نو بجائے تو کلاڈ اپنی جگہ سے اٹھا اور داخلی دروازے کی اوٹ میں سکون کے ساتھ جا کھڑا ہوا ۔ بیرک میں چھائی خاموشی میں ہی گھڑی نے نو بجائے ؛ دروازہ دھاڑ سے کھلا اور انسپکٹر معمول کے مطابق اکیلا ہی اندر داخل ہوا ۔ وہ مطمئن اور زندہ دل نظر آ رہا تھا ۔ وہ کسی ایک قیدی پر سرسری نظر ڈالتا اور کسی دوسرے پر اپنی چُنی آنکھیں گاڑتا اور بھپتی کستا عجلت سے آگے بڑھ رہا تھا ۔ اسی سمے اس نے کلاڈ کے قدموں کی آواز سنی ، وہ تیزی سے مڑا اور دانت پیستے ہوئے بولا ؛
” تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ تم اپنی جگہ پر کیوں نہیں ہو؟ ، اس کے منہ سے یہ الفاظ یوں نکلے جیسے وہ کسی کتے سے مخاطب ہو ۔
کلاڈ نے آدر سے جواب دیا ، ” جناب ، میں آپ سے نات کرنا چاہتا ہوں ۔“
” کس معاملے پر ؟ “
” ایلبن“
” پھر سے وہی رٹ ! “
”جی وہی“ ، کلاڈ نے کہا ۔
” تو پھر“ ، انسپکٹر نے چلتے چلتے کہا ، ” چوبیس گھنٹے کال کوٹھری میں گزار کر بھی تمہیں سبق نہیں ملا ۔ “
کلاڈ جو اس کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا بولا ؛ ” جناب ، میرا ساتھی مجھے لوٹا دیں ! “
” ناممکن ! “
”جناب “ ، کلاڈ نے ایسی آواز میں کہا کہ شیطان کا دل بھی پسیج جائے ، ” میں التجا کرتا ہوں کہ آپ ایلبن کو واپس میرے پاس بھیج دیں اور پھر میری کارکردگی دیکھیں ۔ آپ ایک ’ آزاد‘ آدمی ہیں ، آپ کے لئے یہ معمولی بات ہو گی ؛ شاید آپ اسے اہم نہ جانتے ہوں کہ فقط ایک دوست کا ہونا کیا معانی رکھتا ہے ۔ زندان کی دیواروں میں قید میرے لئے یہی سب کچھ ہے ۔ آپ اپنی مرضی سے کہیں بھی آ جا سکتے ہیں ، لیکن میرے پاس تو صرف ایلبن ہی ہے ۔ میں منت کرتا ہوں کہ اسے میرے پاس واپس آنے دیں ! آپ کو تو پتہ ہی ہے کہ وہ اپنی خوراک کا ایک حصہ مجھے دیتا تھا ۔ آپ کے لئے اس بات کی کیا اہمیت ہے کہ اس کمرے میں کلاڈ نامی ایک شخص ہو اور کے ساتھ ایک دوسرا ایلبن نامی بھی موجود ہو ؟ آپ کو تو بس صرف ’ ہاں‘ ہی کہنا ہے ، اس سے زیادہ اور کچھ بھی نہیں ۔ جناب ، میرے اچھے نگران ، میں آسمانی بادشاہت کے نام پر التماس کرتا ہوں کہ میری درخواست منظور کر لیں ۔ “
کلاڈ جذباتی ہو رہا تھا اور جواب کا منتظر تھا ۔
” ناممکن ! “ ، انسپکٹر نے جواب میں دیر نہ لگائی ، ” میں اپنا فیصلہ واپس نہیں لوں گا ۔ مجھے برہم مت کرو اور اپنی جگہ پر واپس جاﺅ ۔ “ ، یہ کہہ کر وہ تیزی سے خارجی دروازے کی طرف بڑھا ۔ کمرے میں ہر کسی نے دم سادھ رکھا تھا ۔
کلاڈ اس کے پیچھے چلتا اور اسے چھوتے ہوئے نرمی سے بولا ؛ ” مجھے یہ تو بتا دیں کہ آپ میری موت کا سامان کیوں بن رہے ہیں ۔؟ آپ نے ہمیں ایک دوسرے سے علیحدٰہ کیوں کیا ہے؟ “
” میں اس کا جواب پہلے بھی دے چکا ہوں : کیونکہ میں ایسا کرنا ہی مناسب جانا تھا ۔“ ، انسپکٹر نے جواب دیا ۔
یہ کہہ کر وہ چٹخنی کھولنے ہی لگا تھا کہ کلاڈ کی کلہاڑی ہوا میں لہرائی اور انسپکٹر بنا آواز نکالے زمین پر ڈھیر ہو گیا ۔ کلاڈ نے چشم زدن میں اس پر تین وار کرکے اس کی کھوپڑی کے ٹکڑے کر دئیے تھے۔ چھوتھے نے اس کا چہرہ بھی مسخ کر ڈالا ، کلاڈ نے جنونیت میں پانچواں وار بھی کیا لیکن یہ فالتو تھا کیونکہ انسپکٹر پہلے ہی ختم ہو چکا تھا ۔
کلاڈ نے کلہاڑی ایک طرف پھینکی اور چلایا ؛ ” اب دوسرا بھی ! “
یہ دوسرا وہ خود تھا ؛ اس نے قینچی ، جو اس کی’ عورت‘ کی تھی ، اپنے سینے میں گھونپ لی لیکن اس کا دھار والا حصہ چھوٹا تھا جبکہ سینہ زیاد ہ گہرا ، یوں وہ خود کو ختم نہ کر سکا اور خون میں لت پت بیہوش ہو کر انسپکٹر کی لاش کے ساتھ ہی ڈھیر ہو گیا ۔ اب ان دونوں میں سے کس کو مظلوم مانا جائے ؟
کلاڈ ، جب ہوش میں آیا تو وہ پٹیوں میں لپٹا بستر میں تھا ۔ اس کے گرد سخت پہرہ تھا ۔ خیراتی کام کرنے والی ’ کنواریاں ‘ *** اس کی دیکھ بھال پر مامور تھیں ۔ اس کا بیان قلم بند کرنے کے لئے ایک محرر بھی وہاں موجود تھا ۔ کلاڈ کو ہوش میں آتے دیکھ کر اس نے دلچسپی سے پوچھا کہ وہ کیسا ہے؟ کلاڈ کا خاصا خون ضائع ہو چکا تھا ، قینچی نے اسے شدید زخمی تو کیا تھا لیکن اس کا کوئی زخم بھی جان لیوا نہ تھا ۔ اس کے وار صرف موسیو ڈی ۔۔۔ پر ہی کاری ثابت ہوئے تھے۔ اب سوال و جواب کی باری تھی ۔
” کیا تم نے کلیرواکس زنداں کے کارخانے میں انسپکٹر کو قتل کیا تھا ؟ “
” ہاں“ ، اس نے جواب دیا ۔
” تم نے ایسا کیوں کیا ؟ “
”کیونکہ میں ایسا ہی کرنا چاہتا تھا ۔ “
زخموں کی وجہ سے کلاڈ کو تیز بخار نے آن لیا اور اس کی جان کو خطرہ لاحق ہو گیا ۔ تیمارداری اور صحت کی بحالی میں نومبر گزرا ، دسمبر ، جنوری اور فروری بھی گزر گئے ۔ اس دوران کبھی ڈاکٹر اسے دیکھنے آتا اور کبھی جج ، ۔ ۔ ۔ ایک اس کی صحت کی بحالی چاہتا تھا جبکہ دوسرا اس کے ایسے بیان ، جن کی بنا پر وہ اسے تختہ دار تک پہنچا سکے ۔
صحت کی مکمل بحالی پر کلاڈ کو ’ ٹروئس ‘ کی عدالت میں ، فرد جرم کا جواب دینے کے لئے پیش کیا گیا ، جو اس پر لگائی گئی تھی ۔ اس کی داڑھی منڈھی ہوئی تھی اور گو وہ قیدیوں کے لباس میں ملبوس ننگے سر تھا لیکن اس کی شخصیت نے حاضرین عدالت کو خاصا متاثر کیا ۔ عدالت فوجی محافظوں کی کڑی نگرانی میں تھی تاکہ گواہان ، جو سبھی قیدی ہی تھے ، کو ان کی حد میں رکھا جا سکے ۔ ایک انہونی بات البتہ یہ تھی کہ ان میں سے کوئی بھی گواہی دینے کے لئے تیار نہیں تھا ؛ نہ سوال کام آ رہے تھے اور نہ ہی کوئی دھمکی کارگر ثابت ہو رہی تھی ۔ ان کی خاموشی اس وقت تک اٹل رہی جب تک کلاڈ نے انہیں بولنے کے لئے نہ کہا ۔ پھر انہوں نے اس بھیانک واقعے کی تفصیل پوری ایمانداری سے بیان کر دی اور اگر کوئی صحیح طور پر بیان نہ کر پایا تو اس کی کمی خود کلاڈ نے پوری کر دی ۔ عدالت میں کئی مواقع ایسے بھی آئے کہ خواتین کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے ۔
عدالتی اہلکار نے اب قیدی ایلبن کو بلایا ۔ وہ جذبات سے کانپتا اور تکلیف دہ انداز میں آنسو بہاتا آیا اور کلاڈ کے گلے لگ گیا ۔ کلاڈ نے مدعی سرکار کے وکیل کی طرف مڑتے ہوئے کہا ؛
” یہ وہ قیدی ہے جو اپنی خوراک کا ایک حصہ ایک ھوکے کو دیتا تھا “، اور جھک کر ایلبن کے ہاتھ کو چوم لیا ۔
تمام گواہان کے بیانات اور جرع کے بعد سرکار کے وکیل نے عدالت میں اپنا خطاب شروع کیا ۔
” معزز ارکان جیوری ، سماج بری طرح مخمصے کا شکار ہو جائے گا اگر ریاست مقدمے کی کاروائی میں کلاڈ جیسے مجرم کو کیف کردار تک نہ پہنچائے ، جس نے ، ۔ ۔ ۔
مدعی وکیل کے بعد کلاڈ کو مہیا کیا گیا وکیل کھڑا ہوا ۔ پھر وہی حق اور مخالفت میں معمول کی وہی کاروائی ہوئی جو سبھی فوجداری عدالتوں میں چلتی ہے ۔
کلاڈ نے اپنی باری پر جب اپنا بیان دیا تو سب اس کی ذہانت پر حیران رہ گئے ؛ کلاڈ وہاں ایک قاتل کی بجائے ایک محنت کش کے بارے میں بات کرنے والا عمدہ مقرر ثابت ہوا ۔ اس نے صاف اور واضع انداز میں حقائق تو من و عن اسی طرح بیان کیا جیسے وہ پیش آئے تھے،۔ ۔ ۔ فخریہ انداز میں کھڑے کلاڈ نے سارا سچ بیان کر دیا ۔ اس کے بیان کے دوران کئی بار حاضرین عدالت اس کی فصاحت سے مرعوب بھی ہوئے ۔ ایسا آدمی جو پڑھ لکھ بھی نہیں سکتا تھا ، بحث کے پیچیدہ نکات یوں بیان کر رہا تھا جیسے وہ کوئی وکیل ہو ۔ اس نے اس دوران عدالت کے وقار کا خیال بھی رکھا اور ججوں کی عزت کو بھی آدر دیا ، البتہ ایک بار وہ غصے میں آیا جب مدعی وکیل نے یہ کہا کہ کلاڈ نے بنا کسی اشتعال کے انسپکٹر کو قتل کیا تھا ۔
” کیا!“ ، کلاڈ چلایا ، ” مجھے اشتعال نہیں دلایا گیا تھا ؟ کیا کسی شرابی نے مجھے مارا تھا جو میں نے اسے قتل کر دیا ؛ اسے آپ اشتعال دلانا کہیں گے اور موت کی سزا کو قید میں بدل دیں گے ۔ میرے معاملے میں تو یہ تھا کہ ایک آدمی چار سال سے، ہر روز مجھے کچوکے لگا کر زخمی کرتا رہا ۔ چار سال میری تضحیک کرتا رہا ، روز ، ہر گھنٹے ، ۔ ۔ ۔ اس کا نتیجہ کیا ہونا تھا ؟ آپ کہتے ہیں کہ مجھے اشتعال نہیں دلایا گیا تھا ! میری ایک جیون ساتھی تھی جس کے لئے میں نے چوری کی ، ۔ ۔ ۔ وہ مجھے اس کے حوالے سے اذیت دیتا رہا ، میرے اس بچے پر طنز کے تیر چلاتا رہا ، جس کے لئے میں نے چوری کی تھی ۔ میں بھوکا رہتا تھا ، میرا ایک دوست مجھے اپنا کھانا دیتا تھا ، ۔ ۔ ۔ اس نے مجھ سے میرا دوست چھین لیا ۔ میں نے اس کی منت کی کہ وہ میرے دوست کو لوٹا دے ، ۔ ۔ ۔ اس نے مجھے تہہ خانے کی کوٹھری میں قید تنہائی میں ڈال دیا ۔ میں نے اسے بتایا کہ میں اس سے کس بری طرح سے متاثر ہو رہا ہوں ، ۔ ۔ ۔ اس نے کہا کہ اسے میری بات سننے سے اکتاہت ہوتی ہے ۔ اب آپ ہی بتائیں کہ میں کیا کرتا ؟ میں نے اسے مار ڈالا ؛ اور آپ مجھے اس طرح کے آدمی کو مارنے پر عفریت قرار دے رہیں ہیں اور میرا سر قلم کر دینا چاہتے ہیں : تو کر دیں جناب ۔ “
ایسا اشتعال تو قانون کی نظر میں اشتعال نہیں کہلاتا کیونکہ ان کچوکوں کے نشان اپنا ثبوت نہیں چھوڑتے جنہیں شہادت مانا جا سکے ۔
اس ساری کاروائی کے بعد جج نے سارے مقدمے کا خلاصہ واضع اور غیر جانبدارانہ طور پر پیش کیا ، ۔ ۔ ۔ کلاڈ کی گزاری ہوئی زندگی کا احاطہ کرتے ہوئے ، جو نامناسب ہی رہی تھی ، پھر اس نے چوری کی اور بالآخر قتل بھی کیا ۔ یہ سب درست تھا ۔ اس سے پہلے کہ ’ جیوری‘ اٹھ جاتی ، جج نے کلاڈ سے پوچھا کہ کیا وہ کوئی سوال پوچھنا چاہتا ہے یا کچھ کہنا چاہتا ہے ؟
” کچھ خاص نہیں“، کلاڈ نے کہا، ” میں قاتل ہوں ، چور ہوں لیکن میں معزز ارکان ِ جیوری سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ میں نے قتل کیوں کیا ؟ میں نے چوری کیوں کی؟
جیوری پندرہ منٹ کے لئے اٹھ گئی اور پھر ملک کے ان بارہ باسیوں نے ۔ ۔ ۔ ۔ جو جیوری کے شرفاء کہلاتے تھے۔ ۔ ۔ کلاڈ گیوکس کو موت کی سزا دئیے جانے کا فیصلہ سنا دیا ۔ اصل میں مقدمے کی کاروائی کے آغاز میں ہی جیوری کے ارکان اس کے نام ’ گیوکس ‘ ، جس کا لغوی مطلب ’ آوارہ‘، ہوتا ہے ، سے متعصب ہو گئے تھے ۔
جب فیصلہ سنایا گیا ، کلاڈ نے بس اتنا ہی کہا ؛ ” ٹھیک ہے ، لیکن جیوری کے شرفاء نے میرے دو سوالوں کے جواب ابھی بھی نہیں دئیے ؛ میں نے چوری کیوں کی؟ اور مجھے قاتل کس نے بنایا ؟ “
اس رات اس نے اچھا کھانا کھایا اور بولا ؛ ” اب میری زندگی کے چھتیس سال پورے ہوئے ۔ “
اس نے آخری لمحے تک جیوری کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست کرنے سے انکار کیا ، البتہ خیراتی کام کرنے والی ’ کنواریوں‘ میں سے ایک ، جس نے اس کی اچھی دیکھ بھال کی تھی ، کے کہنے پر ایسا کرنے کی حامی بھری ۔ اس ’ کنواری‘ نے اپنے شفیق دل کی بدولت اسے پانچ فرانک کا ایک سکہ بھی دیا تھا ۔
اس کے ساتھی قیدیوں ، جو اس کے وفادارتھے ،نے نہ صرف اسے بار بار جیل سے بھاگنے پر قائل کرنا چاہا بلکہ اس کے لئے اپنے اوزار و آلات بھی اس کو فراہم کئے ۔ وہ یہ اس کی کوٹھری میں روشندان کے راستے پھینکتے رہے ، کیل ، تاروں کے ٹکڑے ، بالٹی کا دستہ ؛ ان میں کوئی ایک ہی کلاڈ جیسے بندے کے لئے زنجیروں سے آزاد اوربھاگنے میں معاون ثابت ہو سکتا تھا لیکن اس نے ان سب کو وارڈن کے حوالے کر دیا ۔
8 جون 18322 ء کو ، قتل کے سات ماہ اور چار دن بعد عدالت کا اہلکار آیا ، اس نے کلاڈ کو بتایا کہ اب اس کی زندگی کا آخری گھنٹہ آ چکا ہے کیونکہ اس کی ’ نظر ثانی‘ کی درخواست رد کر دی گئی ہے ۔
” وہ تو ہونی ہی تھی ۔“ ، کلاڈ نے سرد مہری سے جواب دیا ، ” میں گزشتہ رات سکون سے سویا تھا اور اب اگلی رات اس سے بھی بہتر گزاروں گا ۔ “
پہلے پادری آیا ، پھر جلاد ، وہ پادری کے ساتھ عاجزی سے پیش آیا اور اس کے کہے الوہی کلمات کو غور سے سنا ، اس بات پر افسوس کا اظہار بھی کیا کہ وہ ماضی میں اپنی نالائقی کی وجہ سے مذہبی تعلیمات سے محروم رہا ۔
وہ جلاد کے ساتھ بھی شائستگی سے پیش آیا ۔ حقیقت تو یہ تھی کہ وہ اپنا سب کچھ دے چکا تھا ، پادری کے حوالے اپنی روح کی جبکہ اپنا کلبوت جلاد کو دے دیا ۔
جب اس کے بال منڈھے جا رہے تھے ، کسی نے کہا کہ ملک میں ہیضہ بہت تیزی سے پھیل رہا ہے اور ٹرائس کسی وقت بھی اس موذی وبا کا شکار ہو سکتا ہے ۔ یہ سن کر وہ بھی گفتگو میں شامل ہو گیا اور طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا ؛ ” اس پر تو میں یہی کہوں گا کہ میں ہیضے کا شکار نہیں ہو سکتا ! “
اس نے قینچی توڑ ڈالی ، اس کا ایک حصہ اور اپنا باقی متاع جیلر کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایلبن کو دے دیا جائے ۔ دوسرا ٹکڑا اس نے اپنے سینے سے لگا لیا ۔ اس نے جیلر سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اس دن کا اس کا راشن اس کے ساتھی قیدیوں میں بانٹ دیا جائے ۔ واحد شے جو اس نے اپنے پاس رکھی وہ پانچ فرانک کا وہ سکہ تھا جو مہربان ’ کنواری‘ نے اسے دیا تھا ، اسے اس نے اس وقت اپنی دائیں مٹھی میں بھینچ لیا جب اسے باندھا گیا تھا ۔
پونے آٹھ بجے یہ اداس اور غمگین جلوس جیل کی روایت کے مطابق وہاں سے روانہ ہوا ۔ زرد چہرہ لئے ثابت قدمی سے ، کلاڈ ، پھانسی کے چبوترے پر چڑھا ۔ اس کی نظریں پادری کے ہاتھ میں پکڑی صلیب ، جو مسیحا کی اذیت کی علامت ہے ، پر گڑھی ہوئیں تھیں ۔ وہ پادری اور جلاد کو گلے لگانا چاہتا تھا ، ایک شکریہ ادا کرنے ، جبکہ دوسرے کو معاف کرنے کے لئے لیکن جلاد نے اسے ایسا نہ کرنے دیا اور گلوٹین کی طرف دھکیل دیا ۔ اس شیطانی مشین سے باندھے جانے سے پہلے کلاڈ نے پانچ فرانک کا سکہ یہ کہتے ہوئے ؛” یہ غریبوں کے لئے ہے“ ، پادری کے حوالے کر دیا ۔
جیسے ہی آٹھ بجے کا گھنٹہ بجا ، اس عمدہ النفس اور ذہین شخص کا سرقلم کر دیا گیا جو کٹ کر دھڑ سے الگ جا گرا ۔
اس کی پھانسی کے لئے ایسا دن چنا گیا تھا جب بازار سجے ہوئے تھے ، تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اسے دیکھ سکیں ۔ فرانس کے شہروں اور قصبوں میں ابھی بھی لوگ ایسے وقوعوں کو دیکھنا باعث فخر گردانتے ہیں لیکن اس دن گلوٹین کا نظارہ کچھ ا