ہم صوفیوں کا دونوں طرف سے زیاں ہوا
عرفان ذات بھی نہ ہوا رات بھی گئی
پھوٹ کر روئے بنا مسئلے حل ہو نہ سکے
سوچنے کے سبھی انداذ کتابی نکلے
کچھ نہیں بولا تو مر جائے گااندر سے شجاع
اور اگر بولا تو پھر باہر سے مارا جائے گا
یا تو جو نافہم ہیں وہ بولتے ہیں ان دنوں
یا جنہیں خاموش رہنے کی سزا معلوم ہے
شجاع خاور ہندوستان میں کلاسیکی غزل کی ایک جانی پہچانی ہوئی آوز تھے میں انہیں منفردلہجے کا شاعر نہیں کہہ سکتا کیونکہ کہ انکا تمامتر فن الفاظ کی نشت و برخاست یعنی سیٹینگ پر ہے انکے یہاں استعارہ کی مثالیں بمشکل ملتی ہیں …
جسے سب سجھتے تھے بے بال و پر
وہی اک پرندہ قفس لے اڑا
یہاں پرندہ اپنے اصلی معنی کے بجائے استعارہ کے طور پر استعمال ہوا ہے …
زمیں یونہی نہیں گھومتی کسی کے گرد
مجھے بھی دوستو دن رات چلنا پڑ گیا ہے
مزکورہ بالا شعر میں سورج کا مفہوم بطور استعارۂ بعید مستعمل ہے عمدہ شعر ہے
اور تغزل روایتی کے اشعار بھی خال خال ہی نظر آٹے ہیں شعر البتہ انکے بعض اشعار مشہور ہیں
تیرے بدن نے پھونک دیے فلسفے تمام
کل رات آگ میری کتابوں میں لگ گئی
تنہائی گزرنے کو گزر جائیگی لیکن
چرپائی میں ہر روز نیا بان پڑے گا
کٹ کے رہ جاؤ گے سب ہمسفروں سے تم بھی
اس لئے کوئی نئی راہ نکالا نہ کرو
زور قلم میں اتنا اضافہ ہوا ہے کیوں؟
جب سے ہوئی ہے بند زباں کچھ نہیں پتہ
نئی راہ کی بات انہوں نے ضرور کی ہے لیکن وہ اس راہ کو تراشنے میں پوری طرح کامیاب نہیں دکھائی دیتے ویسے تو انکی کتابوں پر 1970 تا 2012ء کے نامور اہل قلم حضرات نے تاثرات دیے ہیں .فراق گورکھپوری خلیق الزمان وغیرہ لیکن زیادہ تر یہ تاثرات محض شاعر کی خوشنودی کے لکھے گئے ہیں حقیقت سے انکا کوئی سروکار نہیں …دوسرا شجر ، مصرعہ ثانی، غزل پارے،غزلیہ،واوین
رشک فارسی اور اللہ ھو انکے سب شعری مجموعے میری نظر سے گزرے ہیں مجموعی طور پہ کتابیں قاری کو اپنی گرفت میں نہیں لیتی اکثر اشعار میں تاثیر کی کمی ہے . بیسیوں اشعار میں سے کوئی ایک آدھ شعر جب دل میں اترتا ہے …تو پھر خوب اترتا ہے… اشعار دیکھیں
حالانکہ اس کے بعد ملاقات بھی ہوئی
دل سے تری جدائی کا منظر نہیں گیا
کرنا تھا ہم کو دوستوں پر تبصرہ
اور لکھ گئے اپنا ہی خاکہ دیکھئے
وہ راستے ملیں جو منزلوں سے بھی عظیم ہیں
کبھی اٹھا کے دیکھئے تو ایک دو قدم غلط
اڑے گا خود تو لائےگا خبر سات آسمانوں کی
اڑایا تو پرندہ چھت کے اوپر بیٹھ جائے گا
دربان کی دھتکار کو دل پر نہیں لینا
پکی ہے اگر خواہشِ دیدار میاں جی
مطلب مری تحریر کا الفاظ سے مت پوچھ
الفاظ تو مفہوم چھپانے کے لئے ہیں
سبھی زندگی پہ فریفتہ کوئی موت پر نہیں شیفتہ
سبھی سود خور تو ہو گئے ہیں کوئی پٹھان نہیں
شجاع خاور کے مزید چند بامعنی اشعار:
ہم نے غزل میں اس کےسوا سب سے بات کی
اب اس کو آپ کچھ بھی کہیں اصطلاح میں
بازار میں ہر شخص قصیدے کا طلب گار
ہم ہیں کہ لئے پھرتے پیں اشعار غزل کے
پار اُترنے کے لئے تو خیر بالکُل چاپئے
بیچ دریا ڈوبنا ہو تو اک پُل چاہئے
اس اعتبار سے بے انتہا ضروری ہے
پکارنے کے لئے اک خدا ضروری ہے
شجاع موت سے پہلے ضروری جی لینا
یہ کام بھول نہ جانا بڑا ضروری ہے
مصروف جو رہتے ہیں انہیں کچھ ہیں ملتا
بیکار پھرو گے تو کوئی کام ملے گا
خموشیوں نے سماعت کو کردیا بیکار
سکوت چیخ رہا ہو تو کیا سنائی دے
بورژوائیت پابستگی رہ ورسم عام
پڑے رہیں تو قلندر اٹھیں تو فتنہ ہیں
ہمیں جگایا تو نیندیں حرام کردیں گل
چہرہ کسی کا سنیے اور آواز دیکھئے
مفہوم پھر بتاؤں گا الفاظ دیکھئے
کچھ نہ کہنا ہو تو لفظ ہی لفظ ہیں
اور کہنا ہو تو خامشی ٹھیک ہے
مجھے تلاش ہے ہندوستاپ والوں کی
مری تلاش ہے ہندوستان والوں کو
مجھ کو تو مرنا ہے اک دن یہ مگر زندہ رہے
کاریگر کی موت کا کیا ہے ہنر زندہ رہے
شجاع خاور