شعبہ اردو مانو لکھنؤ کیمپس میں کلاسیکی شاعری میں تفہیم کے مسائل کے موضوع پرآنلائن توسیعی خطبے کا انعقاد
لکھنؤ (9 فروری) کلاسیکی شاعری کی تفہیم کے لیے کلاسیکی لفظیات پر عبور ناگزیر ہے۔ ولی ، سودا، میر، مصحفی، غالب ، مومن، دیاشنکر نسیم ، حسرت جیسے کلاسیکی شعراء کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان کے یہاںمستعمل الفاظ کو ان کے عہد کے سیاق و سباق کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کریں اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم لفظ کے معنوی جہتوں اور اس کے امکانات سے واقف ہوں۔ کلاسیکی شاعری کے سرسری مطالعے سے ان کے مافی الضمیر تک رسائی ناممکن ہے۔ ان خیالات کا اظہار آج شعبہ اردو مانو لکھنؤ کیمپس میں کلاسیکی شاعری میں تفہیم کے مسائل کے موضوع پرمنعقد آنلائن توسیعی خطبےمیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر سراج اجملی نے کیا۔ پروگرام کا آغاز ایم اے اردو کے طالب علم حسیب اختر کی تلاوت اور ترجمے سے ہوا اور نظامت کے فرائض معروف ناقد اور افسانہ نگار ڈاکٹر مجاہد الاسلام نے اپنے مخصوص انداز میں انجام دیئے۔
پروفیسر اجملی نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ کلاسیک کو ہم قدامت کے ذریعے طے نہیں کر سکتے بلکہ اس کے لیے مدت شاعری اور تواتر کے ساتھ اس کی تقلید اور زبان کو برتنے کا سلیقہ کس قدر انفرادیت کاحامل ہے، اس کے تناظر میں کلاسیک کا تعین ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قدامت کے باوجود کلاسیک کا درجہ دکن کے بہت کم شعراء کو حاصل ہواہے۔ اس کے مقابلے میں زمانی اعتبار سے مؤخر ہونے کے باوجود ہم ولی کو ہر اعتبار سے کلاسیکی شاعر کہہ سکتے ہیں۔شمس الرحمن فاروقی کی تحریروں کے حوالے سے پروفیسر اجملی نے اپنی بات کو ثابت کرتے ہوئے معروف شعراء کے کلام سے مثالیں دیں اور ان کے معانی کی تہہ داریوں کی تفہیم کی۔ پروگرام کی صدارت کرتے ہوئے مانو لکھنؤ کیمپس کے انچارج ڈاکٹر عبدالقدوس نے کہا کہ ادب کو پرکھنے کے لیے تقلید کے بجائے متعین کردہ معیارات کو کسوٹی بنانا چاہیے ۔ اسی سے ہم کسی فن پارے کا درست تعین قدر کر سکتے ہیں۔ پروگرام میں بڑی تعداد میںاردو کے اساتذہ ، ریسرچ اسکالر اور شائقین علم اودب نے شرکت کی اور سبھی مشارکین کا ڈاکٹر عشرت ناہید نے شکریہ ادا کیا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...