آج ہمارے ادب کی بنیادیں ترقی پذیر انسانیت کے تصور پر استوار کی جا رہی ہیں۔ اس میں ذاتی غم اور مسرتیں وسیع تر حقائق کا جزو ہیں۔ اس میں نئے تجربات کا لہو ہے اور اس کی نظر سماج کی ہمہ گیر قوتوں پر جمی ہوئی ہیں۔ لیکن ادب کا حال اس کہنہ کتاب کا سا نہیں ہے جس کے اول و آخر کے صفحات غائب ہوں۔ نیا ادب نئی تختی پر نہیں لکھا جاتا، اس کی یادوں کی پشت پر زندگی کے ارتقا کی تاریخ ہے۔ اس میں ادبی روایات، تمدنی وراثت اور تہذیبی عوامل کی جلوہ گری ہوتی ہے۔ اس لیے اگر ہمیں اپنے ادب میں اعلیٰ سنجیدگی پیدا کرنا ہے تو اپنی کلاسیکی روایات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ نئے اور اچھے ادب کا خمیر بھی اسی وقت اٹھ سکتا ہے جب اس میں ماضی کے لائق رشک ورثہ کو سمویا جائے۔ جس طرح گوہر اپنی آب و تاب کے لیے صدف کا محتاج ہے، اسی طرح ہمارا جدید ادب اپنی پوری ترقی اور کمال کے لیے کلاسیکی روایات کا محتاج ہے۔ ہمیں پرانی اصطلاحوں کو نئے معنی پہنانا، حقائق کی نئی توجیہ کرنا اور تاریخ کی تخلیقی رو میں روح عصر کو شامل کرنا ہے۔ اگر ادبی تاریخ کی یہ کلاسیکی روایتیں ہمارے ریشہ ریشہ میں زندہ نہ ہوئیں اور ہم جدیدیت کی رو میں تنکے کی طرح بہ گئے تو ہمارا ساحل مراد تک پہنچنا معلوم!
موجودہ زمانہ میں ادب کے اصول و فن سے جو بے اعتنائی برتی گئی ہے اس کی بھی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارا مطالعہ کلاسیکی ادب کا روز بروز کم ہوتا جا رہا ہے اور ہم ماضی کے کارناموں سے بے تعلق ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک عام طالب علم میرا جی سے زیادہ واقف ہے اور میرؔ سے کم۔ ہمارے ادب میں جو نئے خیالات کی ہوائیں چل رہی ہیں، اسے زندگی کی حقیقتوں کا جو نیا عرفان حاصل ہو رہا ہے، جو نئے تجربے کئے جا رہے ہیں اور ادبی تخلیقات کو سماجی اقدار کی روشنی میں دیکھنے کی جو کوشش ہے وہ نہایت مستحسن اور مبارک ہے لیکن یہ کوششیں اسی وقت بار آور ہوں گی جب ہم اپنی ادبی بنیادوں سے واقف ہوں، اپنے علمی مزاج کو پہچانتے ہوں اور تہذیبی عظمت کے صحیح شناسا ہوں۔
کلاسیکی ادب کے مطالعہ کی دعوت دینے کے یہ معنی ہرگز نہیں ہیں کہ ہم ماضی پرست بن جائیں اور افسانوی شتر مرغ کی طرح اپنا سر فرسودہ روایات کے ریگزار میں چھپا کر عہد جدید کے تقاضوں سے بے خبر ہو جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں اپنے ماضی کو اچھی طرح جاننا، سمجھنا اور پرکھنا چاہیے۔ یہ بے لاگ تنقید مستقبل کے لیے فال نیک ہوگی اور ہم ماضی و حال کا صحیح توازن قائم رکھ سکیں گے۔ ہمارے ادب کی نجات نہ سستی اور اوچھی قسم کی جدت پسندی میں ہے اور نہ اندھی اور بہری قدامت پرستی میں۔
ماضی سے ہمارا تعلق جذباتی قسم کا نہیں ہونا چاہیے۔ ہر زندہ روایت کے اچھے اور برے دونوں پہلو ہو سکتے ہیں اور اس کا بھی امکان ہے کہ جو چیز آج اچھی یا بری ہے وہ کل اچھی یا بری نہ رہے۔ ہمیں اس کے مفید اور حیات افروز عناصر کو الگ کر کے ان سے مستقبل کی تعمیر میں مدد لینا چاہیے۔ روایات کا تسلسل ضروری ہے لیکن اسی کے ساتھ ان پر تنقید اور ان کا انتخاب بھی اہم ہے۔ کوئی تخلیق قطعی طور پر نئے ہونے کا دعوی نہیں کر سکتی لیکن تاریخ ادب میں یہ ضرور ہوا ہے کہ جب کبھی کوئی ورجل، دانتے، شیکسپیر، میر، غالب، اقبال پیدا ہوا ہے تو شاعری کا رخ بدل گیا ہے اور ان کی بدولت مستقبل کی گذرگاہیں روشن ہوگئی ہیں۔
کلاسیکی ادب جاننے کے معنی یہ بھی نہیں ہے کہ ہم ایک ماہر مصریات کی طرح اپنے آپ کو ایک دائرہ میں بند کر لیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بغیر کلاسیکی روایات کی دید و دریافت اور ان کو حال کی ضرورتوں پر منطبق کئے ہوئے ہم اپنے ادب میں توانائی اور دل کشی نہیں پیدا کر سکتے لیکن یہ تلاش و تحقیق بھی بغیر فکر و نظر کے ممکن نہیں ہے۔ اگر ایک شخص نے شیکسپیر کے لانڈری بلز یا غالب کی قماربازی کے متعلق بہت سی تحقیق کر بھی لی تو اس کا فائدہ ظاہر ہے کہ بہت ہی محدود ہوگا۔
فرد کا تعلق طبقہ سے ہے اور طبقہ کا دامن اس کے سماج سے بندھا ہوا ہے۔ غالب کی اچھائیوں اور کمزوریوں کو بھی اسی روشنی میں دیکھنا چاہیے۔ شاہد و شمع و مے و قمار سے ان کا تعلق کوئی چھپی ڈھکی بات نہیں۔ جوئے کے الزام میں وہ ایک دفعہ نہیں دو دفعہ معتوب ہوئے۔
22 اگست 1841ء کے دہلی اردو اخبار میں لکھا ہے "سنا گیا ہے کہ ان دنوں تھانہ گذر قاسم خاں میں مرزا نوشہ کے مکان سے اکثر نامی قمار باز پکڑے گئے مثل ہاشم علی خاں وغیرہ کے۔ کہتے ہیں بڑا قمار ہوتا تھا لیکن با سبب رعب اور کثرت مردان کے یا کسی طرح سے، کوئی تھانہ دار دست انداز نہیں ہو سکتا تھا۔ اب تھوڑے دن ہوئے یہ تھانیدار قوم سے سید اور بہت جری سنا جاتا ہے، مقرر ہوا ہے۔ یہ پہلے جمعدار تھا، بہت مدت کا نوکر ہے۔ جمعداری میں بھی یہ بہت گرفتاری مجرموں کی کرتا رہا ہے۔ بہت بے طمع ہے، یہ مرزا نوشہ ایک شاعر نامی اور رئیس زادہ نواب شمس الدین خاں قاتل ولیم فریزر صاحب کئی قرابت قریبہ میں سے ہے۔ یقین ہے کہ تھانیدار کے پاس بہت رئیسوں کی سعی اور سفارش بھی آئی لیکن اس نے دیانت کو کام فرمایا، سب کو گرفتار کیا، عدالت سے جرمانہ علی قدر مراتب ہوا۔ مرزا نوشہ پر سو روپے نہ ادا کریں تو چار مہینہ قید، لیکن ان تھانہ دار کی خدا خیر کرے، دیانت تو کام فرمایا انھوں نے، لیکن اس علاقہ میں بہت رشتہ دار متمول اس رئیس کے ہیں، کچھ تعجب نہیں کہ وقت بے وقت چوٹ پھٹ کریں اور یہ دیانت ان کی وبال جان ہو۔ حکام ایسے تھانہ دار کو چاہیے کہ بہت عزیز رکھیں، ایسا آدمی کمیاب ہوتا ہے۔"
(دہلی اردو اخبار مورخہ 22 اگست 1841ء، نیشنل آرکائیوز آف انڈیا)
مئی 1847ء کا واقعۂ اسیری اس کے بعد کا ہے جس کے متعلق منشی کریم الدین نے لکھا ہے:
"ان ایام میں یعنی درمیان 1847ء کے ایک حادثہ ان پر جانب سرکار سے بڑا پڑا۔ جس کے سبب ان کو بہت رنج لاحق حال ہوا۔ عمر ان کی اس میں قریب ساٹھ برس کے ہوگی۔"
لیکن اس سے غالب کی شاعرانہ عظمت میں کچھ فرق نہیں آتا۔ اس لیے کہ وہ اپنی تخلیقات میں اتنے اونچے اٹھ سکتے ہیں کہ تاروں کو چھو لیں۔ ان کی عظمت کے گوشے وہاں روشن ہوتے ہیں جہاں وہ شخصیت اور گرد و پیش سے گذر کر کائنات کی وسعتوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ اسی طرح اگر ان کے بعض اشعار میں دوسرے شعرا کی جھلک ہے تو اس سے ان کی شاعرانہ جلالت پر حرف نہیں آتا۔ دیکھنا یہ ہے کہ انھوں نے ماضی سے کیا لیا۔ مقتضاے حال کے کتنے مطالبوں کو پورا کیا اور مستقبل کو کیا دیا۔ ان کے جذباتی تجربوں میں پشتوں کا تحت شعوری احساس کارفرما ہے، انسانیت کی جذباتی قدریں پوشیدہ ہیں لیکن ان کے الفاظ و اسالیب پرانے ہونے پر بھی پرانے نہیں۔ اس لیے کہ وہ ان کے ذریعہ پوری تہذیب کی یادوں کو نئی نسلوں تک منتقل کر سکتے ہیں۔ ایک مثال اقبال کی ہے جو نئے ہونے پر بھی پرانے ہیں۔ انھوں نے قدیم ادبی روایات کو ترک نہیں کیا، ان کے تن فرسودہ میں زندگی کی ایک لہر دوڑا دی ہے۔ اس لیے اگر ہمارے شعر و ادب کو نئی زندگی کے سوز و ساز میں شریک ہونا ہے اور اسے نفس اجتماعی کی جذباتی کیفیتیں بیان کرنا ہیں تو اس کے اظہار میں کلاسیکی روایات کا خون ہونا چاہیے۔ جب فن کار ماضی کو اپنے میں سمو کر زمانہ سے خطاب کرے گا تو اس کے کلام میں ابدیت کے جوہر پیدا ہو جائیں گے۔
یہاں یہ بھی عرض کر دینا ضروری ہے کہ ہمارا پورا کلاسیکی سرمایہ ادبیات عالیہ میں ممتاز مقام کا مستحق نہیں ہے۔ اس میں مغز کم اور پیاز کے سے چھلکے زیادہ ہیں۔ اس میں حیات اور کائنات کی ہم آہنگی، دنیاے عنصری کی طہارت کا احساس اور ابدیت اور آفاقیت کی خوبیاں عام نہیں ہیں پھر بھی اس میں بہت کچھ ہے جس کی پرچھائیاں اگر ہمیں جدید ادب میں دکھائی دیں تو وہ غالب کا "تیر نیم کش" بن سکتا ہے۔
جو لوگ ماضی کی قدر و قیمت کے منکر ہیں وہ در اصل تاریخ اور ارتقا کے اصولوں سے نا واقف ہیں۔ کوئی ادب اس وقت تک دوامی اور عالم گیر نہیں ہو سکتا جب تک اس میں روح عصر کے ساتھ روح ماضی پیوست نہ ہو۔ اس لیے جو لوگ نئے پن کے اندھے جوش میں اپنی روایات کو بھلا بیٹھے ہیں یا ان کی جڑیں اکھاڑنا چاہتے ہیں وہ شکست و ریخت کے تو مرد ہیں لیکن جوے شیر لانے کی ہمت نہیں رکھتے۔
پیشکش: فیصل انس