کسی معاشرے کی ترقی اور وہاں پیشہ ور افراد کا نوکری یا کام کے حوالے سے اطمینان جسے “جاب سیٹیسفیکشن” کہا جاتا ہے کا انحصار اس پر ہوتا کے کہ اُنکی تعلیم کا لیول اُنکے کام سے مطابقت رکھتا ہو۔ مثال کے طور پر اس بات کے امکان کم ہیں کہ ایک گریجویٹ کلرک کی نوکری یا پلمری کا کام کر کے خوش ہو یا اپنا کام بخوبی سر انجام دے۔ اس مثال میں ایک گریجویٹ، کام کی نوعیت کے اعتبار سے زیادہ تعلیم یافتہ ہے۔ ایسے ہی کوئی میٹرک پاس اگر اچانک سے مینیجر بن جائے (بغیر تجربے کے، کیونکہ تجربے کو تعلیم کا متبادل سمجھا جاتا ہے) تو وہ بھی مکمل طور پر صحیح کام نہیں کر سکے گا اور نوکری کی زیادہ ضروریات ہونے کے باعث (جی معلوم ہے پیسہ ہیں ہمارا ہاں خوشی کا معیار ہے مگر عمومی بات کر رہا ہوں) ، ذمہ داریاں آنے پر ناخوش ہو گا۔
تعلیم اور نوکری کے یہ غیر مطابقت پاکستان میں کس حد تک ہے؟ 2013 سے لیکر 2018 تک نوکری اور
مزدور پیشہ افراد کے کچھ سروے کیے گئے جس میں تقریبآ 65 ہزار افراد نے حصہ لیا جن سے یہ معلوم ہوا کہ تعلیم اور کام کی مطابقت مملکتِ خداداد میں کچھ یوں ہے:
مرد حضرات میں یہ تناسب 45 فیصد ہے۔
جن میں 30 فیصد لوگوں کی تعلیم کا لیول اُنکی نوکری سے کم ہے۔جبکہ تقریباً 15 فیصد کی تعلیم اُنکی نوکری یا کام سے زیادہ ہے۔
اس سروے سے معلوم ہوا کہ تقریباً 60 فیصد خواتین ریگولر نوکری کر رہی ہیں جس میں ہر ہفتے کم سے کم 35 گھنٹے کام شامل ہے۔اور ان میں 40 فیصد کی تعلیم کا اُنکے کام سے جوڑ نہیں ہے۔جس میں 37 فیصد کی تعلیم کم ہے۔
جس پیشے میں پیشے کے ضروریات کے مطابق کم تعلیم ہے وہ کلرکوں کی ہے۔ یہ تقریباً 65 فیصد ہے۔اور ملک کی سرکار کلرک بابوؤں پر چلتی ہے۔
اس لیے چُک کے رکھو کلرکو!! ملک آپکا ہے۔بس تھوڑی تعلیم زیادہ حاصل کر لیں۔
حکومت کی اس حوالے سے کیا پالیسی ہے؟معلوم نہیں مگر اس پر بات کرنا ضروری ہے۔
لنک:https://journals.plos.org/plosone/article?id=10.1371/journal.pone.0268008