دنیا کی سب سے بڑی خانہ جنگی جاری ہے۔ آپ بھی آیئے‘ اس میں حصہ لیجیے۔
اس خانہ جنگی‘ اس سول وار میں حصہ لینے کے لیے کسی خاص مذہب کا ہیرو ہونا ضروری نہیں۔ آپ مسلمان ہیں یا نصرانی‘ ہندو ہیں یا یہودی‘ بدھ ہیں یا لامذہب‘ آتش پرست ہیں یا سکھ‘ جو کچھ بھی ہیں‘ حصہ لے سکتے ہیں۔ بس آیئے‘ سول وار میں شامل ہو جایئے‘ انسانوں کو قتل کرتے جایئے۔
مسلک کی قید بھی کوئی نہیں۔ آپ شیعہ ہیں یا سنی‘ دیوبندی ہیں یا بریلوی‘ سلفی ہیں یا آغا خانی‘ امام ابوحنیفہؒ کے مقلد ہیں یا امام شافعیؒ کے پیروکار‘ امام مالکؒ کے عقیدت مند ہیں یا حنبلی ہیں یا امام جعفر صادقؒ کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں‘ آپ سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوگی۔ آیئے اور خون بہانے کا شوق پورا فرمایئے۔
آپ اگر یہ سوچ رہے ہیں کہ کوئی علاقائی‘ صوبائی یا لسانی مسئلہ اس سول وار کی تہہ میں ہے تو معاف کیجیے گا آپ غلط ہیں۔ یہ خانہ جنگی صرف اور صرف آپ کی اس قابلیت پر مبنی ہے کہ آپ کتنے لوگوں کو دنیائے فانی سے نجات دلا سکتے ہیں۔ بس اس کے علاوہ اگر کوئی اور معیار ہو تو جو چور کی سزا وہ اس لکھنے والے کو دیجیے۔ میرے بھائی! میری بہن! اس ملک میں یہ وہ واحد کام ہے جس میں علاقائیت کا زہر کارفرما نہیں۔ آپ پنجاب سے ہیں یا سندھی بولتے ہیں‘ پشتو آپ کی زبان ہے یا آپ کی والدہ ماجدہ جمنا کنارے کی خوبصورت اردو بولتی تھیں‘ آپ بلوچی ہیں یا بروہی‘ کشمیری ہیں یا چترالی‘ بلتی بولتے ہیں یا شیِنا‘ ہندکو میں گفتگو فرماتے ہیں یا سرائیکی کی میٹھی بولی آپ کے تالو سے لگ لگ کر باہر نکلتی ہے‘ بس زبان اور علاقے کی تخصیص کو بالائے طاق رکھیے اور کم از کم اس خانہ جنگی کے لیے اقبال کی وہ مشہور زمانہ رباعی سامنے رکھیے ؎
نہ افغانیم و نی ترک و تتاریم
چمن زادیم و از یک شاخساریم
تمیزِ رنگ و بو بر ما حرام است
کہ ما پروردۂ یک نو بہاریم
یہ خانہ جنگی پان اسلام ازم کا‘ اتحادِ امہ کا وہ واحد مظہر ہے‘ جو نظر آ رہا ہے۔ سچ پوچھیے تو حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد امت آج تک کسی مسئلے پر‘ کسی فورم پر اکٹھی نہیں ہوئی سوائے اس خانہ جنگی کے۔ اس خانہ جنگی کو دیکھ کر دل فرطِ مسرت سے جھوم اٹھتا ہے اور رقت ایسی طاری ہوتی ہے کہ آنکھیں چھلک چھلک اٹھتی ہیں۔ ہم خوش قسمت ہیں جنہیں امت کے اتحاد کا یہ بے مثل منظر دیکھنے کو ملا۔ تیرہ سو سال مسلمان اس منظر کو دیکھنے کے لیے دعائیں مانگتے رہے‘ روتے رہے‘ ترستے رہے‘ خواب دیکھتے رہے۔ زمانے کی گردش نے یہ تاج ہمارے سر پر رکھنا تھا… الحمدللہ‘ ثم الحمد للہ‘ اس خانہ جنگی میں پاکستان اتحادِ امت کی وہ تصویر پیش کر رہا ہے جس پر پچاس سے زیادہ دوسرے مسلمان ممالک صرف رشک کر سکتے ہیں۔ مسلک‘ عقیدے‘ لباس‘ زبان کی قید سے بالاتر ہو کر سب ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہیں۔
اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ یہ طبقاتی تفریق کا شاخسانہ بھی نہیں۔ یہ امیر اور غریب کی لڑائی بھی نہیں۔ یہ سیاسی اختلافات کا بکھیڑا بھی نہیں۔ کروڑ پتی کیا اور قلّاش کیا‘ کار والا کیا اور سائیکل سوار کیا‘ پیدل کیا اور ٹیکسی والا کیا‘ ہر شخص حصہ لے سکتا ہے اور ماشاء اللہ لے رہا ہے۔ مسلم لیگ‘ پیپلز پارٹی‘ تحریک انصاف‘ ایم کیو ایم‘ ساری سیاسی جماعتیں‘ قومی ہیں یا علاقائی‘ خانہ جنگی میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ لڑ رہی ہیں۔ مقصد سب کا ایک ہے۔ قتلِ عام!
حضرات! یہ خانہ جنگی‘ دنیا کی یہ عظیم ترین سول وار‘ پاکستان کی شاہراہوں پر لڑی جا رہی ہے۔
سڑک دو شہروں کے درمیان ہے یا شہر کے اندر‘دیہاتی علاقے میں ہے یا لاہور‘ کراچی جیسے شہر میں‘انسانی کو قتل کرنے کا کام ہر جگہ جاری ہے۔کوئی روک ٹوک نہیں۔آپ بس چلا رہے ہیں تو کار کو ٹکر ماریے ‘پانچ کار سوار فوراً مر جائیں گے۔آپ بس سے اتریے اور ادھر ادھر ہو جایئے‘ پولیس میں کوئی مائی کا لعل ابھی تک ایسا پیدا ہی نہیں ہوا کہ پکڑ سکے۔کار چلا رہے ہیں تو بیلٹ نہ باندھیے‘ساتھ ساتھ موبائل فون کان سے لگا کر سنیے‘گود میں بچہ بٹھا کر ڈرائیونگ کا کرتب دکھایے‘سب چلتا ہے۔موٹر سائیکل کو گرایئے۔ ایک مر جائے گا‘دوسرے کی دونوں ٹانگیں فریکچر ہو جائیں گی۔ آپ اطمینان سے سفر جاری رکھیے۔خود ہی بھگتیں گے۔اگر آپ ویگن ڈرائیور ہیں تو آپ بادشاہ ہیں۔
کندھے پر چادر رکھیے‘منہ میں جلتا ہوا سگریٹ دبایئے‘ویگن کو اوورلوڈ کیجیے۔مالک نے آپ کو ٹارگٹ دے رکھا ہے کہ اتنا فاصلہ اتنے منٹ میں طے کرنا ہے ورنہ سواریاں دوسری ویگنوں والے اٹھا لے جائیں گے۔آپ نے ہر حال میں ٹارگٹ پورا کرنا ہے۔دائیں چلایئے یا درمیان‘ بے شک بائیں طرف سے اوورٹیک کیجیے‘ہارن پر ہارن دیجیے ‘سڑک کے درمیان رکیے۔ کاروں ‘رکشوں پیدل چلنے والوں کو الو کے پٹھے سمجھیے‘کوئی گرتا ہے یا مرتا ہے آپ کی بلا سے‘ سُوٹا لگایے‘گانا سنیے‘کنڈیکٹر کو ماں بہن کی گالی دیجیے اور فل سپیڈ پر ویگن چلایئے‘قانون آپ کے پیچھے دم ہلاتا آئے گا۔مالک کی پہنچ دور تک ہے!
اگر آپ ٹرک ڈرائیور ہیں تو آپ بادشاہوں کے بادشاہ ہیں اور جلادوں کے سردار ہیں۔سامنے سے کار آئے یا بس‘آپ نے سڑک چھوٹ کر کچے پر نہیں اترنا!
وہ کیا کر لے گا!مجبوراً کچے پر اتارے گا‘ اور کوئی چارہ ہی نہیں‘مزے کی بات یہ ہے کہ آپ کے قریب سے گزرتے وقت آپ کو غصے سے دیکھنے کی کوشش کرے گا تو منہ کی کھائے گا۔ٹرک ڈرائیور اتنا بلند ہوتا ہے کہ کار سوار کو نظر ہی نہیں آ سکتا‘اور پھر ٹرک کے پیچھے تویہ بھی لکھا ہے کہ جلنے والے کا منہ کالا‘یہ کون پوچھے کہ بھائی کسی کو ٹرک ڈرائیور سے جلنے کی کیا ضرورت ہے؟مانسہرہ سے کراچی ٹرک لے جانے والے کی زندگی میں کون سی خوبی ہے کہ کوئی جلے گا۔یہ تک تو اسے معلوم نہیں کہ پیچھے اس کے گھر میں کیا ہو رہا ہے۔ کھانا اسے وقت پر نصیب نہیں ہوتا‘ گاڑیاں چلانے والے لاکھوں انسان اس سے
نفرت کرتے ہیں اور بددعائیں دیتے ہیں۔
اگر آپ موٹر سائیکل پر ہیں تو یہ نہ سوچیے موٹر سائیکل کے نیچے آ کر ایک آدھ بندہ ہی ہلاک ہو سکتا ہے اپنی طاقت کا کم اندازہ نہ لگائیے۔زگ زیگ چلائیے کبھی دائیں کبھی بائیں‘درمیان میں ذرا سی جگہ ہو تب بھی شوں کر کے گزریئے‘ ویلنگ کا موقع ہو تو وہ بھی کیجیے‘اگر آپ کے اس وحشیانہ انداز سے کار بس یا ویگن حادثہ کا شکار ہوتی ہے تو مرنے والوں کی تعداد درجنوں میں بھی ہو سکتی ہے یوں آپ کا حصہ بقدر جثہ نہیں‘بلکہ بہت زیادہ ہو گا۔
رہی یہ صورت کہ آپ پیدل ہیں تو گھبرائیے نہیں‘خانہ جنگی میں حصہ پھر بھی لیا جا سکتا ہے۔آپ ایک مصروف شاہراہ اس طرح عبور کیجیے کہ گاڑیاں چلانے والوں کو چھٹی کا دودھ یاد آ جائے آسان ترین نسخہ یہ ہے کہ کار دور ہے تو انتظار کیجیے ‘کھڑے رہیے‘نزدیک آئے تو سڑک عبور کیجیے‘ کار چلانے والے کا دماغ ایسا گھومے گا کہ حادثہ کر بیٹھے گا۔ یہ ہے قتل عام میں آپ کا حصہ!اگر حکومت نے سڑک پار کرنے کے لیے پل بنایا ہے تو سیڑھیاں چڑھنے کی زحمت نہ کیجیے۔تھکاوٹ ہو جائے گی۔ تو کل کیجیے‘سڑک پر پائوں رکھیے اور پار اتر جائیے ‘خود ہی بریکیں لگاتے رہیں گے۔خدانخواستہ آپ کار کے نیچے آ بھی گئے تو مطمئن رہیے‘بپھرا ہوا ہجوم آپ کو شہید قرار دے گا اور کار چلانے والے کو مار مار کرموا نہیں تو ادھ موا ضرور کرڈالے گا۔
اس خانہ جنگی کا ذمہ دار کون ہے؟اس پر گفتگو پھر کبھی۔بس اتنا جان لیجیے کہ پولیس ذمہ دار ہے۔اگر موٹر وے پر قانون کی حکمرانی کاکریڈٹ پولیس کو جاتا ہے تو لاقانونیت کا سہرا بھی پولیس کے سر ہے۔ اس لیے کہ پولیس سیاست زدہ (Politicized) ہے اور یہ کارنامہ سیاست دانوں کا ہے!!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“