سگریٹ پھینک تماشہ دیکھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ دوسری یا شاید تیسری دفعہ کا ذکر ہے کہ ہمیں ایک کمپنی سے بینکاک کے ٹور کی پیشکش ہوئی، سچی بات ہے صاحبو ہم کفرانِ نعمت کے مرتکب ہونے سے بہت خائف رہتے ہیں سو فوراً قبول کر لی۔ قصہ کوتاہ اس وقت سہہ پہر کے 3 بج رہے تھے جب ہم بینکاک کے ایک مرکزی برودت کاری کے نظام سے منسلک شاپنگ پلازہ سے باہر نکلے، ہمارے ساتھی دوست سلیم تو خیر پینے پلانے کے شوقین نہیں تھے لیکن ہمارا سگریٹ کی طلب سے برا حال تھا کہ دو گھنٹے تک شاپنگ سینٹر میں جس سمت نظر اٹھی نو سموکنگ کے الفاظ منہہ چڑاتے نظر آئے تھے۔ خیر باہر آتے ہی سگریٹ سلگایا گہرا کش لے کر دھواں فضا میں اچھالا تو دھویں کے مرغولوں میں فٹ پاتھ پر آتی جاتی مقامی حسینائیں کچھ ایسے نظر پڑتی تھیں کہ بقول کرنل محمد خان " وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھا ہے" یہاں واضح رہے کہ ہم یہ مصرع کرنل صاحب کے نام کرنے کی کوشش نہیں کر رہے بلکہ "بجنگ آمد" سے لیا تو ایسا لکھ دیا کہ سند رہے اور ہماری کیفیت سمجھنے میں آسانی ہو۔ فٹ پاتھ پر ٹہلتے ہوئے سگریٹ ختم کر چکے تو مسئلہ یہ درپیش تھا کہ پھینکا کہاں جائے، ناگاہ ہماری نظر فٹ پاتھ کے ساتھ ہی سڑک پر پڑے بہت سے سگریٹ کے ٹوٹوں پر پڑی، ہم نے بھی اطمینان سے اپنا "ٹوٹا" وہیں پھینک دیا اور سلیم کے ساتھ باتیں کرتے سڑک کے دوسری طرف جانے کے لئے تھوڑی دور بنے پل کی طرف بڑھے۔ اسی اثناء میں دیکھا کہ دوسری طرف کے فٹ پاتھ سے ایک وردی پوش بھی اٹھ کر پل کی طرف بڑھا ہم ابھی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے کہ ملگجی وردی والا وہ شخص ہمیں گھورتے ہوئے ہمارے قریب سے گذر گیا۔ ہمارے دل میں کچھ کچھ ہو رہا تھا۔ وردی پوش کے گذر جانے پرابھی ہم پوری طرح اطمینان کی سانس لینے بھی نہ پائے تھے کہ پیچھے سے کسی نے ہمارے کندھے پر ہاتھ رکھا، مڑ کو جو دیکھتے ہیں تو ہمارے خدشات کی تصدیق کی صورت وہی ان دھلے منہہ والا موجود پایا چھوٹتے ہی کہنے لگا ?You drop a cigarette on the road جھوٹ ہم نے کبھی پاکستان میں بھی نہیں بولا تھا سو ارشاد کیا Yes بولا ?Where you from ہمارے پاکستان کے جواب میں اس نے پاسپورٹ کی فرمائش کر دی، انکار پر کرخت لہجے میں گویا ہوا
You from Pakistan and don't have passport?
ہم نے اعتماد سے جواب دیا ہوٹل میں ہے، کون سے ہوٹل کے جواب میں وہ مردِ بے زار صورت ایمبیسیڈر ہوٹل کا نام سن کر کچھ ڈھیلا پڑا تاہم ہمیں اپنے ساتھ سڑک کے دوسری طرف فٹ پاتھ پر قائم اپنے "دفتر" تک لے گیا ایک بینچ کے دوسری طرف پڑی کرسی پر بیٹھتے ہوئے ہمیں بھی سامنے موجود بینچ پر تشریف رکھنے کا کہا۔ پھر بولا آپ نے سگریٹ سڑک پر پھینکا ہے، ہم نے کہا بتایا تو ہے کہ پھینکا ہے اب؟ بولا یہ بورڈ پڑھیں، ہم نے دائیں طرف موجود بورڈ پر نظر ڈالی وہاں آڑی ترچھی لکیروں کے درمیاں کہیں کہیں ہندسے لکھے ہوئے تھے، 200، 500۔ 2000 ۔۔۔ ہم نے سمجھتے ہوئے بھی کہا ہم نہیں پڑھ سکتے یہ زبان۔ بولا کوئی بات نہیں میں بتاتا ہوں کہ یہ اس جرم پر جرمانہ لکھا ہوا ہے آپ نے کیونکہ پہلی بار جرم کیا تو 200 بھات جرمانہ ادا کرنا ہو گا ورنہ آپ چاہیں تو عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں۔ ہم نے 200 بھات اس کی ہتھیلی پر رکھے، اس بے مروت نے فوری انہیں اپنی سلوٹوں بھری پتلون کی جیب میں ڈالا اور رسید بنانے لگا۔ رسید ہم نے اپنی جیب میں ڈالتے ہوئے کہا ایک بات تو بتاؤ، وہ ہمہ تن گوش تھا کہ ہم نے لب کشائی کی، جہاں ہم نے سگریٹ پھینکا وہاں تو بے شمار سگریٹ پھینکے ہوئے تھے، ہم سے یہ امتیازی سلوک کیوں؟ بلند بانگ قہقہہ لگاتے ہوئے بھرپور کمینگی سے ایک آنکھ میچ کر رسید بک ہمارے سامنے کردی اور بولا یہ سب رسیدیں آپ سے پہلے والوں کی ہیں ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب ہمارے پاس بھی سوائے ایک قہقہے کے کچھ نہ تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔