"سیگریٹ نوشی"
واقعہ ہے کلکتہ ہندوستان کا. حضرت ابولکلام آزاد ایک اجلاس میں کانگریس کی نمائندگی فرما رہے تھے. بغل میں ہی حضرت حسین مدنی جمعیت علمائے ہند کی نمائندگی کررہے تھے. یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ حضرت آزاد سیگریٹ کا ذوق رکھتے تھے جبکہ مدنی صاحب تمباکو والے پان کا. حضرت آزاد کو دوران اجلاس سیگریٹ کی طلب ہوئی. رگ رگ سے اٹھنے والی العطش کی صدائیں جب شدید تر ہوگئیں تو سیگریٹ کا کیس جیب سے نکال لیا. ابھی سیگریٹ نکالنے کی بے ضابطہ سی کوشش ہی کی تھی کہ حضرت مدنی نے کہنی ماردی. آزاد نے ترنت ارادہ ترک کر کے کیس واپس جیب کے حوالے کردیا. وقفہ ہوا، شرکائے محفل طبعیت پہ لگی گرہیں کھولنے راہدا ری میں آگئے. اجلاسوں کے ہنگام ماحول کو آلودہ کرنے کا اس سے بہتر موقع و محل کوئی نہیں ہوتا. حضرت آزاد سیگریٹ سلگانے کو ہی تھے کہ حضرت مدنی نے آواز کس دی
"حضور یہ مت پیا کریں"
حضرت آزاد نے اک ذرا رک کر پوچھا کہ
"کیوں خیریت؟"
پان کلے میں دباتے ہوئے حضرت مدنی نے جواب دیا کہ
"صحت اور وقار دونوں کیلئے نقصان دہ ہے"
حضرت آزاد نے سیگریٹ سلگا کر ایک شستہ سا کش لیا، اور آہستگی سے کہا
"ارے کوئی نہیں صاحب، بس تمباکو ہے کوئی کھاتا ہے کوئی پیتا ہے"
سیدھے لفظوں میں اگر کہیئے تو آزاد صاحب حیرت کا اظہار کر عہے تھے کہ منہ کو آلودہ و فالودہ کردینے والے پان کو اگر وقار و صحت کے منافی کہیئے تو بات سمجھ آتی ہے، مگر یہ سیگرٹ جیسی انٹیلیکچول عیاشی کیونکر وقار کے منافی ہو سکتی ہے. بد قسمتی دیکھیئے کہ ہمارے یہاں پاکستان میں بھی تمباکو نوشی پہ ہی کلام ہوتا ہے. تمباکو خوری تو کم ہی یہاں کبھی زیر بحث آئی ہے. ڈاکٹر صاحبان نے بھی گویا عادت ہی بنا لی ہے کہ ہر مریض کو خواہ گھٹنے میں درد کی شکایت کیوں نہ ہو، یہ سیگریٹ نوشی کی تفتیش ضرور فرمائیں.ہمارے منچلے دوست منہاج انصاری سے ڈاکٹر نے پوچھ لیا
"سیگریٹ پیتے ہیں آپ؟"
منہاج نے چوڑے ہوکر کہا
"جی بالکل پیتا ہوں صاحب"
ڈاکٹر نے کہا
"مگر آپ کو اندازہ بھی ہے کہ سیگریٹ نوشی صحت کیلئے کس قدر مضر ہے؟"
ڈاکٹر کا بیانیہ سن کر منہاج بالکل اسی طرح حیرت زدہ ہوگئے جیسے حضرت آزاد ہوئے تھے. سر گرفتہ ہو کر ڈاکٹر سے کہا
"صاحب سیگریٹ کا تو سمجھ آتا ہے، مگر یہ نوشی صحت کیلئے کیونکر مضر ٹھہری"
یعنی کہ یہ دھواں بھی ایک معمہ ہی ٹھہرا جو نہ حکیم حاذق سے حل ہوا نہ مریض کاذب سے. ایک مریض سے ڈاکٹر نے پوچھا
"سیگریٹ پیتے ہو؟"
مریض نے اثبات میں سر ہلایا تو ڈاکٹر نے وعظ و پندار کی پٹاری کھول کے رکھ دی. گفتگو سمیٹتے ہوئے ڈاکٹر نے کہا
"سیگریٹ آہستہ آہستہ انسان کو مار دیتی ہے"
بہت ہی لجاجت سے مریض بولا
"مرنے کی جلدی تو مجھے بھی نہیں ہے"
غور کیجیئے ذرا.!!
ہم ایک ایسے سماج میں واقع ہوچکے ہیں جہاں خون پینے والوں سے زیادہ سیگریٹ پینے والوں کی مذمت کی جاتی ہے. کس نگری کے ہم مکیں ٹھہرے کہ جہاں خون سستا اور سیگریٹ مہنگی ہوگئ ہے.
یوں کہوں تو کیا غلط کہوں کہ.؟
"خون پینے پہ جہاں قیامت نہیں ٹو ٹتی، سیگریٹ پینے پہ وہاں واعظ ٹوٹ پڑتے ہیں"
بہرکیف.!!
اس بات پر علمائے دخان کا اتفاق ہے کہ سیگریٹ ایک مغز کشا عیاشی تو ہے ہی، انہماک کی غذا بھی ہے. وہ عشق ہو کہ جنوں انہماک تو بہر صورت چاہتا ہے. اس کے بعد ہی تو دل دامن یوسف کی طرح چاک چاہتا ہے. ایک عجیب سی بات یہ ہے کہ سیگریٹ نوشی کو یار لوگوں نے درد والم کی جملہ علامات میں سے ایک نمایاں علامت سمجھ لیا ہے. حقیقت مگر اس کے برعکس ہے. سو گواریوں کی نہیں، یہ خوشگواریوں کی بھی ساتھی ہے. مثلا ہمارے یار ظفر اللہ خان سیگر یٹ سے بے مروتی برت رہے ہوں تو یہ علامت ہوتی ہے اس بات کی کہ کسی بات نے جناب کی طبعیت ضیق کر رکھی ہے. ایک کےبعد اگر ایک سیگریٹ سلگاتے چلے جائیں تو سمجھ لینا چاہیئے کہ.جناب کے دن کا آغاز کسی خوشگوار وقوعے سے ہوا ہے. ایسے میں چہرے کی بشاشیت دھویں کے مرغولوں سے مسلسل جھانکتی رہتی ہے. اسی طرح استاد محترم وجاھت مسعود صاحب سیگریٹ کے اوپر تلے کش لگاتے چلے جارہے ہوں تو سمجھ جائیں کہ آئے ہوئے مہمان ان کی طبعیت کو بھا گئے ہیں. سیگریٹ اور استاد میں اگر میز بھر کا فاصلہ بھی ہو تو سمجھ لینا چاہیے کہ قبلہ وجاھت مسعود کو آپ کے وجود نامسعود نے اخلاقی آزمائش سے دو چار کر رکھا ہے.
سچ پوچھیئے تو.!!
وہ لوگ شاید مٹھی بھر ہی ہوتے ہیں جو ماضی کے تصور سے خود کو ہراساں محسوس کرتے ہی اپنا احساس سیگریٹ کے دھویں میں تحلیل کر دیتے ہیں. یا پھر پہلوئے یار میں بیتے لمحے یادوں سے چمٹ گئے ہوں تو غم غلط کرنے کیلئے سیگریٹ سلگا دیتے ہیں. کبھی تو سیگریٹ کی سلگن بجائے خود کئ یادوں کی الجھن بن جاتی ہے. آپ نے دھواں چھوڑا اور یادوں کے دریچے کھلتے چلے گئے. اسی پر اسراریت میں اگر کوئی گرد وپیش سے بے نیاز ہوکر اوپر تلے سیگرٹ پھونکے جا رہا ہو تو سمجھ لینا چاہیئے کہ صاحب اس وقت لاہوت و لامکان کی طرف نکلے ہوئے ہیں. معرفت کے اس مقام پہ لوگ سیگریٹ کو نہیں پیتے بلکہ سیگریٹ لوگوں کو پی رہی ہوتی ہے. تبھی تو کہا تھا
دھویں کی لہر پہ تصویر رقص کرتی ہے
وہ سیگرٹوں کے تسلسل میں یاد آتا ہے
اچھا..!!!
آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ مجھ جیسے کئی نیکو کار ایک فلاحی مقصد کے تحت بھی سیگریٹ نو شی کا ذوق فرماتے ہیں. ان کے پیش نظر ایک ہی بات ہوتی ہے کہ ہم جتنی زیادہ سیگرٹ پھونکیں گے اتنی ہی تیزی سے سیگریٹ کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا. ہاسٹل کی زندگی میں یار لوگوں نے اس فلاحی مشن کو "سیگرٹ جلاو ملک بچاو" کا نام دے رکھا تھا. ہمارے ہمدم دیرینہ فرھاج انصاری تو آج بھی یہ کہہ کر سیگریٹ کی دعوت دیتے ہیں کہ آو مل کے اس دنیا سے سیگریٹ ختم کریں. لو ایک سیگریٹ تم پیو اور ایک سیگریٹ ہم پئیں.
مگر..!!
ان تمام فضائل کے باوجود سیگریٹ کو میں بمع نوشی صحت کیلئے مضر ہی جانتا ہوں. خدا مجھ سے جھوٹ نہ بلوائے میں تو سیگریٹ کو ترک کر دینا ہی افضل جھاد سمجھتا ہوں. اب جب سیگر یٹ کے ترک کی بات آئے تو یار لوگ کہتے ہیں سیگر یٹ چھوڑنا نہایت مشکل کام ہے. سیانے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ محبت کے معاملے میں کبھی اس پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیئے جو آپ کی خاطر سگریٹ چھوڑ دے. کیونکہ جو سگریٹ چھوڑ سکتا ہے وہ ایک دن آپ کو بھی چھوڑ سکتا ہے. میں البتہ اس بات کو ذاتی تجربے کی بنیاد پہ نہ صرف یہ کہ غلط سمجھتا ہوں بلکہ شدید الفاظ میں اس کی مذمت بھی کرتا ہوں.
میرا ماننا ہے.!!
"سیگریٹ چھوڑنا نہایت آسان ہے، میں کئی بار چھوڑ چکا ہوں"
عرض کیا ہے
کئی بار چهوڑ کر پهر شروع کر چکا هوں
اک یہی کام هے جس میں تسلسل هے
ورنہ بہت بے ربط هوں حیات کار میں.
Copy paste
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...