کولمبس کے امریکہ پہنچنے کے بعد امریکہ سے باقی دنیا تک پہنچنے والی چیزوں میں ایک تمباکو تھا۔ اٹھارہویں صدی میں یہ مہنگا شوق سمجھا جاتا تھا۔ پائپ اور سگار شوقین مزاج لوگ پیا کرتے تھے۔ کاغذ کے درمیان اس کو رکھ کر سلگانے کی جدت انیسویں صدی کے وسط کی تھی۔ اس طرح اس کا سستا استعمال اٹلی، سپین، برازیل، ترکی تک پہنچا۔ کریمیا کی جنگ کے دوران سوویت تک۔ جنگوں میں کھدی خندقوں میں بیٹھے فوجیوں سے اس کی عادت کسی وائرس کی طرح پھیلی۔ جنگوں کے بعد یہ فوجی اس عادت کو شہری آبادیوں تک لے آئے۔ یورپ سے ایشیا اور پھر اپنی اصل جگہ یعنی امریکہ تک واپس پہنچ گئی۔ جنگوں، خاص طور پر جنگِ عظیم نے اس عادت کے پوری دنیا میں پھیلنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔
امریکہ میں 1870 میں سگریٹ کی فی کس کھپت ایک سگریٹ فی کس سالانہ سے کم تھی۔ 1953 میں یہ 3500 سگریٹ فی کس سالانہ یعنی دس سگریٹ روزانہ تک پہنچ گئی تھی۔ برطانیہ میں گیارہ فی کس، سکاٹ لینڈ میں بیس سگریٹ فی کس روزانہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برطانیہ میں شماریات کے ایک ماہر نے وزارتِ صحت کو الرٹ کیا کہ بیس سال میں پھیپھڑے کے سرطان سے مرنے والے کی تعداد میں پندرہ گنا اضافہ ہوا ہے۔ فروری 1947 میں اس کی وجوہات پر غور کرنے پر لندن میں ایک کانفرنس بلائی گئی۔ اس میں جن وجوہات پر غور ہوا، اس میں آلودگی، دھند، کوئلے کا استعمال، ایکسرے، سڑکوں پر کولتار کا استعمال، زکام، فیکٹریاں، گاڑیوں کا دھواں تھیں۔ ان میں سگریٹ نہیں تھا۔
ایلن ہِل کو وجوہات جاننے کی تحقیق کرنے کا کام دیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکہ میں 1948 میں وائینڈر نے پھیپھڑے کے سرطان سے مرنے والے ایک مریض کا پوسٹ مارٹم دیکھتے ہوئے مشاہدہ کیا کہ پھیپھڑوں پر سیاہی ہے، ویسی جیسے سگریٹ کی ٹار۔ انہوں نے شک کا اظہار کیا کہ کہیں ان کا تعلق تو نہیں۔ سرجن جو یہ پوسٹ مارٹم کر رہے تھے کا جواب تھا کہ “کل تم یہ کہو گے کہ دودھ پینے سے کینسر ہوتا ہے یا جرابیں پہننے سے کینسر ہوتا ہے”۔
لیکن وائینڈر کو اپنے خیال پر تحقیق کرنے کی اجازت اور فنڈنگ سرجن جنرل آفس میں گراہم سے مل گئی۔ گراہم خود سگریٹ نوش تھے لیکن انہوں نے وائینڈر کے ساتھ مل کر اس پر کام کرنے کا فیصلہ کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واینڈر نے اپنے پہلے سوالنامے کے جوابات کے تجزیے پر ستمبر 1948 میں برٹش میڈیکل جرنل میں اپنا پیپر شائع کیا جو سگریٹ اور کینسر کے درمیان تعلق دکھانے والا پہلا پیپر تھا۔ اس پیپر کو دیکھ کر ایلن ہِل نے سگریٹ کو بھی ان عوامل میں شامل کر لیا جس پر وہ تحقیق کر رہے تھے۔ ان کا ذاتی خیال سڑکوں کے کولتار کے بارے میں تھا۔ لیکن سگریٹ کے ساتھ تعلق جلد ہی نظر آنا شروع ہو گیا۔ 1951 سے مارچ 1954 تک ڈاکٹروں پر کئے گئے تجزیے نے یہ تعلق بالکل ہی واضح کر دیا۔
جس وقت ایلن ہِل کے آنکھیں کھول دینے والے نتائج شائع ہوئے، سگریٹ نوشی اور اس سے رومانس عروج پر تھا۔ محفلوں، ہوٹلوں، کالجوں، بازاروں میں سگریٹ پکڑے دھواں اڑاتے لوگ دنیا بھر میں تعداد میں بڑھ رہے تھے۔ امریکہ اور یورپ میں سگریٹ نوش مردوں کی تعداد پچاس فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ خواتین میں یہ تعداد چھتیس فیصد تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک کے بعد دوسری سٹڈی ہونٹ، گلے، سانس کی نالی اور پھیپھڑوں کے کینسر اور تمباکونوشی کے تعلق کی گواہی دے رہی تھی۔ لیکن سگریٹ اربوں ڈالر کا کاروبار تھا۔ تمباکو کے کاشتکار، سگریٹ کی کمپنیاں، بیچنے والے، یہ سب طاقتور گروپ تھے، لوگوں کے روزگار اس سے وابستہ تھے۔ سو سال سے عوام اس کو استعمال کر رہے تھے۔ اس کے خلاف شروع ہونے والی مہم میں ان گروپس کی طرف سے شدید مزاحمت آئی۔ طرح طرح کے حربے استعمال کئے گئے۔ سائنس، سیاست اور قانون ۔۔۔۔ ان تینوں نے مل کر اس طاقتور لابی کا لگام ڈال دی۔ یہ جنگ طرح طرح کے داوٗ پیچ سے لڑی گئی تھی۔ سگریٹ کی ڈبیوں پر مضرِ صحت ہونے کی وارننگ کا اضافہ ہوا۔ 1 جنوری 1971 کو رات بارہ بجے امریکہ میں سگریٹ کا آخری اشتہار چلا۔ سگریٹ نوشوں کی تعداد 1974 کے بعد گرنا شروع ہو گئی۔
پرانے گناہ لمبے سائے رکھتے ہیں۔ پھیپھڑوں کے کینسر کی شرح میں کمی 1984 کے بعد آنا شروع ہوئی اور یہ 2002 تک تیس فیصد گر چکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترقی پذیر ممالک اس دوڑ میں پیچھے رہے۔ سرکاری طور پر سگریٹ کی حوصلہ شکنی دیر سے شروع ہوئی۔ پاکستان، انڈیا اور چین جیسے ممالک میں اس وقت سگریٹ نوشی کی شرح بڑھ رہی ہے۔ پاکستان میں سالانہ ایک لاکھ پچیس ہزار اور انڈیا میں سالانہ دس لاکھ اموات کی وجہ سگریٹ ہے۔ اس میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ سگریٹ کی کمپنیاں دنیا بھر میں منافع بخش کاروبار کر رہی ہیں۔ انہوں نے اپنے کام کرنے کے طریقے ڈھونڈ لئے ہیں۔ تمباکو سے کینسر کا یہ مارچ پوری رفتار سے جاری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سدھارتا مکھرجی کہتے ہیں،
“میں کینسر کے وارڈ میں تباہی کی جو داستانیں دیکھتا ہوں جن کا تعلق براہِ راست سگریٹ سے ہے، وہ آگے بیان کرنا بھی مشکل ہے۔ اشتہاری ادارے میں کام کرنے والا ایک خوش لباس نوجوان جس نے سکون کے لئے سگریٹ کا استعمال شروع کیا تھا، اس کا جبڑا کاٹا جا رہا ہے تا کہ زبان کے کینسر کو نکالا جا سکے۔ ایک گھریلو خاتون جس نے وقت گزارنے کے لئے یہ عادت اپنائی تھی اور اس کے دیکھا دیکھی اس کے بچے بھی سگریٹ نوش بن چکے ہیں، سانس کی نالی کے کینسر کی بدترین اذیت کا شکار ہے۔ ایک مذہبی پیشوا جو پھیپھڑے کے کینسر کی وجہ سے بسترِ مرگ پر پڑا ہے اور کہتا ہے کہ زندگی میں یہ وہ واحد گناہ ہے جس سے وہ باز نہیں رہ سکا تھا۔
اور یہ مریض جو اپنی عادت کی بھاری ترین قیمت چکا رہے ہیں، ان میں سے کئی کی جھٹلا دینے اور خودفریبی کی قوت حیران کن ہے۔ میرے کئی مریض کینسر کے علاج کے دوران بھی یہ عادت ترک نہیں کرتے۔ جب وہ کیمیوتھراپی کی اجازت کے فارم پر دستخط کر رہے ہوتے ہیں، میں ان کے کپڑوں سے تمباکو کی بو سونگھ سکتا ہوں۔ کئی مریض آپریشن کے بعد بھی کسی بے بس زومبی کی طرح کوریڈور میں نرسوں سے سگریٹ کی بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سگریٹ کے تمام مضر اثرات کے شواہد موجود ہونے کے باوجود یہ کاروبار چل رہا ہے۔ دنیا بھر میں کئی برسوں تک ایک سطح پر رہنے کے بعد اب دنیا میں سگریٹ نوشوں کی تعداد واپس اضافے کی طرف جانا شروع ہوگئی ہے۔ تمباکونوشی کے خلاف چلنے والی مہم عوامی توجہ برقرار رکھنے میں کامیاب نہیں ہو رہیں۔ حیران کن چیز یہ ہے کہ کسی چیز کی وجہ سے کینسر ہونے کا شائبہ بھی خوف پیدا کر دیتا ہے۔ لیکن ایک ایسی شے جس کے بارے میں ہمیں کینسر کا موجب ہونے کا یقین ہے، بلکہ اس سے زیادہ طاقتور اور عام کارسینوجن کوئی اور ہے ہی نہیں، جس کو ہم جانتے ہوں۔ یہ دنیا بھر میں بازاروں میں چند روپوں کے عوض عام فروخت ہو رہا ہے۔