میں گھر میں داخل ہوا تو بیوی نے پوچھا " لے آئے "
میں نے چونک کر پوچھا " کیا "
اس نے میری طرف گھور کے دیکھا اور تیز آواز میں بولی
" جو لینے گئے تھے وہی اور کیا۔ اور کرو شاعری۔ جب سے شاعری شروع کی ہے کسی کام کے نہیں رہے۔ جاتے ہو کسی کام سے کوئی اور کام کر کے چلے آتے ہو۔ کل خالہ جان کے لئے حلوا بھیجا تھا۔ شبنم کے یہاں دے کر چلے آئے۔ ابھی ماچس لینے گئے تھے۔ خالی ہاتھ چلے آ رہے ہو۔ اب میں کھانا کیسے بناوں۔ ایک گھنٹہ پہلے گئے تھے۔ میں انتظار میں بیٹھی ہوں۔ ماچس آئے تو کھانا بناوں۔ اب اپنا سر کھاو اور شاعری چباو "
بیوی کی اتنی لمبی ڈانٹ سن کر مجھے یاد آیا کہ میں ماچس لینے گیا تھا مگر راستے میں روح اللہ بریلوی سے ملاقات ہو گئی اور شام کو ہونے والے طرحی مشاعرے کا ذکر چھڑ گیا۔ اب اس میں ماچس کہاں سے یاد رہتی۔ میں الٹے پاوں باہر بھاگا۔
مجھے شاعری شروع کئے کچھ ہی دن ہوئے تھے اور میں ابھی شاعری کے اسرار و رموز سیکھ ہی رہا تھا۔ لیکن دوستوں کا کہنا تھا کہ میں اچھے اشعار کہنے لگا ہوں۔ مشکل یہ تھی کہ دماغ ہر وقت اوزان میں کھویا رہتا اور بحر میں ڈبکیاں لگاتا رہتا۔ جب کبھی کسی کام سے باہر نکلتا ردیف اور قافئے دماغ میں کبڈی کھیلنا شروع کر دیتے اور میں بھول جاتا کہ میں کس کام سے نکلا ہوں۔ ایک دن تو حد ہی ہو گئی۔ میں اپنے بچے کو اسکول چھوڑنے گیا۔ اسکول پہنچ کر یاد آیا کہ بچے کو تو لا یا ہی نہیں۔
میں نے فیصلہ کر لیا کہ شاعری چھوڑ دوں گا۔ یہ میرے بس کی بات نہیں۔ یہ تو سمندر میں غوطے لگانے جیسا ہے۔ لیکن تبھی "واہ واہ" "سبحان اللہ" اور "مکرر" کی وہ دلفریب آوازیں کانوں میں رس گھولنے لگیں جو کلام پیش کرتے وقت محفل میں گونجا کرتی تھیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...