سر ونسٹن چرچل بنیادی طور پر فوجی تھے۔ جنہوں نے برطانوی فوج میں سن 1893 سے سن 1924 تک خد مات انجام دیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے برطانوی كنزرویٹو پارٹی جوائن کر لی۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران سن 1940 سے 1945 تک وہ ہی برطانیہ کے وزیر اعظم تھے۔ دو انگلیوں سے “v” (وکٹری) کا نشان سب سے پہلے 19 جولائی1941 کو چرچل نے ہی فضا میں بلند کیا تھا۔ یہ نشان آج تک بہت مقبول ہے اور آج بھی دنیا میں مختلف لوگ خاص طور پر سیاستدان اس کو اپنی فتح کا اظہار کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یعنی ‘V‘ وکڑی کا نشان بھی چرچل ہی کی دین ہے۔
کہتے ہیں کہ چرچل کے واش روم کے کموڈ کے ساتھ لکھنے اور پڑھنے کا خاص انتظام تھا، جیسے ہمارے کالج کے زمانے میں بھی کرسی کے ساتھ ہتھا جڑا ہوتا تھا جس پر رجسٹر رکھ کر لکھا جا سکتا تھا اور کتاب رکھ کر پڑھا جا سکتا تھا۔ اس طرح کا ہتھا چرچل کے کموڈ کے ساتھ جڑا ہوا تھا، ساتھ میں ایک قلم دان، ریڈنگ لیمپ اور محدب عدسہ بھی موجود تھا۔ روایت ہے کہ چرچل نے بڑے بڑے فیصلے اسی کموڈ پر بیٹھ کر صبح سوچے اور کیے۔
سر ونسٹن چرچل جولائی 1945 سے اکتوبر 1951 تک برطانوی پارلیمنٹ میں قائد حزب اختلاف رہے۔ اسی دوران 1947 میں انہوں نے ہندوستان کو آزادی دینے کے برطانوی حکومت کے فیصلے کی سخت مخالفت کی اور برطانوی پارلیمنٹ میں ایک معرکت الاآرا تقریر کی۔ اس تقریر کے اہم نكات انہوں نے اسی کموڈ پر بیٹھ کر سوچے اور لکھے تھے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ
“ہندوستانی حکمران ہونے کے قابل نہیں ہیں، وہ کبھی بھی حکمران نہیں بن سکتے، اگر ہم انہیں خود پر حکمرانی کے لیے چھوڑ دیں تو ملک 20 سال سے بھی کم عرصے میں ٹوٹ جائے گا۔ اگر ہندوستان کو آزادی دی گئی تو اقتدار بدمعاشوں اور لٹیروں کے ہاتھوں میں چلا جائے گا۔ تمام ہندوستانی لیڈر کم صلاحیت اور کمزور ذہن کے آدمی ہوں گے۔ ان کی زبانیں میٹھی اور دل پتهر کے ہوں گے۔ وہ اقتدار کے لیے آپس میں لڑیں گے اور ہندوستان سیاسی جھگڑوں میں کھو جائے گا۔ ایک دن آئے گا جب ہندوستان میں ہوا اور پانی پر بھی ٹیکس لگا دیا جائے گا”
واضح رہے کہ ونسٹن چرچل نے اپنی فوجی ملازمت کے دوران سن 1896 اور 1897 کے دو سال ہندوستان میں گزارے تھے۔ آج لگتا ہے کہ ہندوستان کے بارے میں اس کا تجزیہ کچھ غلط نہ تھا۔ بلکہ اس کی دور رس نگاہوں کو داد دینی پڑے گی۔
ہم نے جب ہوش سنمبهالا تو اپنے پاپا (قبلہ والد صاحب) کو صبح کے وقت واش روم میں اخبار لے جاتے دیکھا حالانکہ ہمارے ہاں سیٹنگ کموڈ بھی نہیں تھا، پاکستانی سٹائل کا اکلوتا فلش تھا۔ ہمارے پاپا بہت ذبردست اخبار بین تھے۔ ساٹھ کی دھائی میں ہمارے گھر پر اخبار صبح صبح ایک بنڈل کی شکل میں آتے تھے۔ اس بنڈل میں جنگ، ڈان، حریت اور انجام اخبار شامل ہوتے تھے۔ ہمیں یاد ہے کہ پاپا جنگ اخبار لے کر واش روم جاتے تھے۔
ایک دفعہ ہمارے ایک رشتہ دار بزرگ بھائی عبدالرب جو پاپا سے عمر میں خاصے بڑے تھے، سرگودها سے ہمارے ہاں کچھ دن کے لیے آئے۔ انہوں نے پاپا کو واش روم میں اخبار لے جاتے دیکھ لیا۔ جب پاپا فارغ ہو کر باہر نکلے تو انہوں نے پاپا کو آڑے ہاتھوں لے لیا۔ کہنے لگے اماں اقبال (ہمارے والد کا نام) یہ کیا كرسٹانوں (کرسچن) کی طرح اخبار لے کر بیت الخلا میں گھس گئے۔ اب تو ہمیں آزاد ہوئے بھی اتنا عرصہ گزر گیا ہے لیکن تمہارے اندر اب تک انگریز کی غلامی کی خو بو بسی ہوئی ہے۔ یہ اردو کا اخبار ہے، اردو مسلمانوں کی زبان ہے پھر اخبار میں عربی بھی لکھی ہوتی ہے۔ یہ تو دونوں اسلامی زبانوں کی بے حرمتی ہے۔ پاپا سٹپٹا کر رہ گئے اور خاموش رہے۔ پاپا کو دو کمروں پر مشتمل یہ چھوٹا سا گھر جس میں ہم رہائش پزیر تھے سرکار کی طرف سے ملا ہوا تھا اور اس میں ایک ہی واش روم تھا۔ دوسرے دن صبح پاپا بھائی عبدالرب کی عقابی نظروں سے بچتے بچاتے واش روم میں انگریزی اخبار ڈان لے کر گھس گئے۔ جیسے ہی پاپا فارغ ہو کر نکلے انہوں نے اپنے سامنے بھائی عبدالرب کو پایا۔ بھائی عبدالرب نے فوراََ کہا تم نے ہماری بات نہیں مانی اور پھر سے بیت الخلا میں اخبار بینی کی۔ پاپا نے ترنت جواب دیا کہ بھائی عبدالرب یہ تو کافروں کی زبان انگریزی کا اخبار ہے۔ ایسا محسوس ہوا کہ اس بات پر بھائی عبدالرب لا جواب ہو گئے یا مطمئین ہو گئے۔ اس کے بعد تیسرے دن سے جب تک بھائی عبدالرب ہمارے گھر میں قیام پزیر رہے، پاپا انگریزی اخبار ڈان کے اندر اردو اخبار جنگ لپیٹ کر واش روم جاتے رہے۔ بھائی عبدالرب یہ ہی سمجھ کر مطمئین رہے کہ اب کافر انگریز کی زبان کی ایسی تیسی ہو رہی ہے۔اس دوران امی نے پاپا سے دبی زبان میں کہا بھی کہ اگر بھائی عبدالرب کو پتہ چل گیا کہ آپ اردو اخبار جنگ کو انگریزی اخبار ڈان کے اندر لپیٹ کر واش روم لے جاتے ہیں تو بڑی سبکی ہو گی تو پاپا نے جواب دیا، بیگم کیا کروں، صبح بغیر اردو اخبار پڑھے کھل کر اجابت نہیں ہوتی اور دفتر میں سارا دن پیٹ میں ہلچل مچی رہتی ہے۔ بہرحال کچھ دن بعد بھائی عبدالرب سرگودها واپس چلے گئے اور پاپا نے سکھ کا سانس لیا۔
جب ہم “بالغ نظر” ہوئے تو ہم پر بھی یہ عقده کھلا کہ واش روم سوچنے، سمجھنے، فیصلہ کرنے اور آنے والے دن کا لائحہ عمل طے کرنے کے لئے بہترین جگہ ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں آپ کسی بھی مسئلے پر focus کر سکتے ہیں، concentrate کر سکتے ہیں اور Unbiased Decision لے سکتے ہیں۔ اس لمبے عرصے میں ہمارا گھر بھی تبدیل ہو گیا تھا اور اب ہم نسبتاً خاصے بڑے گھر میں رہائش پزیر تھے جس میں ہر بیڈ روم کے ساتھ اٹیچیڈ باتھ روم تھا۔ پاکستانی دیسی ٹوائلٹ کی جگہ سیٹینگ کموڈ نے لے لی تھی۔ لیکن اس دوران برطانوی نو آبادیاتی نظام میں رائج معاشرتی عادات و اطوار آہستہ آہستہ اسلامی سانچے میں ڈھلنے لگیں تھیں۔ اس لئے واش روم میں بیٹھ کر اخبار پڑھنے کی “قبیح” عادت بھی تقریباً متروک ہو چکی تھی۔ ویسے بھی معاشرے میں جا بجا ایسے مجاہد جنم لے رہے تھے جو اقبال کے “شمشیر و سناں اول” کے پیرو کار ہیں۔ یہ جہاں دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص اسلامی اقدار کی پاسداری نہیں کر رہا ہے تو شمشیر و سناں لے کر پہنچ جاتے ہیں اور اس شخص کو جہنم رسید کر کے خود جنت کا ٹکٹ حاصل کر لیتے ہیں۔ اس ماحول میں واش روم میں اخبار بینی کی عادت پڑ ہی نہیں سکتی تھی۔ لیکن شامت اعمال جب سے ساری دنیا اس چھوٹے سے موبائل فون میں سما گئی ہے اس میں تمام الہامی کتابوں سے لے کر پورن فلموں تک ہر چیز موجود ہے۔ اس لئے اس پر کسی قسم کے اعتراض کی گنجائش نہیں اور اس سے فرار ناممکن ہے۔ یہ اب ہمارا واش روم کا ساتھی بن گیا ہے، بس دیکھنا یہ ہے کہ ہم دنیا میں کب “چرچل” جیسی شہرت پاتے ہیں۔