چپکے دیکھنا جرم ہوگا
کون نہیں جانتا کہ پاکستان میں احتساب کی تلوار ایک سے زیادہ بار لہرائی گئی مگر نتیجہ ڈھاک کے تین پات رہا۔ ملک کے پہلے آمر حکمران جنرل ایوب کے ایبڈو سے لے کر حالیہ جے آئی ٹی کی جاری کارکردگی تک کئی مقامات بیچ میں بھی آئے تھے۔ پہلے احتساب پھر انتخاب کا نعرہ الٹی گنگا بہائے جانے کی خواہش کے مترادف ہے۔ اصل میں احتساب ایک مسلسل عمل ہوتا ہے جو ترقی یافتہ جمہوری نظام کا حصہ ہے۔ احتساب تعزیر و سزا سے عبارت نہیں بلکہ جواب دہی اور ذمہ داری کا عمل ہے جو عام شہری سے لے کر عوامی نمائندوں، حکمرانوں، سرکاری عمال چاہے وہ سول ہوں یا فوج سے، سبھی کے لیے ہونا چاہیے۔ احتساب صرف ارتکاز دولت کا ہی نہیں بلکہ اخلاقی اقدار کی پامالی اور سماجی فرائض سے پہلو تہی کا بھی ہونا چاہیے۔
چونکہ آج کل معاملہ ارتکاز دولت اور صادق و امین ہونے کا چل رہا ہے اس لیے سب سے پہلے تو یہ جان لینا چاہیے کہ جو نظام معیشت مروج ہے یعنی نظام سرمایہ داری وہ منافع و منفعت پر مبنی ہے۔ دوسری بات جو سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ آج کا مالی منافع بہت حد تک صارفین کے سماج کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ چاہے اشیائے صرف ہوں چاہے اشیائے تعیش، چاہے املاک ہو یا خدمات سبھی کی خریدو فروخت میں منافع کمائے جانا سب سے اہم ہے۔ منافع کی کوئی شرح مقرر نہیں کیونکہ اگر شرح مقرر کر بھی دی جائے تو اس کو نظر انداز کرنے کے پچاسیوں طریقے عام ہیں اور سینکڑوں طریقے وضع کیے جا سکتے ہیں۔ ہر کاروباری شخص اور ہر صنعتی ادارہ اپنی اشیاء برائے فروخت کی قیمت کا خود تعین کرتا ہے۔ قیمت بڑھائے جانے اور منافع کی شرح کو بفرض محال جو کہا جاتا ہے تیس فیصد ظاہر کیے جانے کا ایک عام سا طریقہ ہے کہ اخراجات کی مد بڑھا دو۔ ایک صاحب کاروباری دوروں پر بدیس جانے کی خاطر اگر پہلے ہوائی جہاز کی اکانومی کلاس میں جاتے تھے تو ایک عرصے سے انہوں نے نہ صرف خود بلکہ اپنی ساتھی کے ساتھ بزنس کلاس میں سفر کرنا شروع کر دیا ہے اور ہوائی جہاز کے دوگنے کرائے اور دوسرے ملک میں اپنے قیام و طعام کے اخراجات کو اشیائے فروخت کی قیمت میں شامل کر دیتے ہیں۔ یہ ایک معمولی مثال ہے جبکہ بڑے صنعتی اور کاروباری اداروں کے اعلٰی مینیجر حضرات نہ صرف ہوائی جہازوں کی بزنس یا فرسٹ کلاس، جن کے کرائے دوگنے سے چوگنے تک ہوتے ہیں، میں سفر کرتے ہیں بلکہ فائیو سٹار ہوٹلوں میں قیام کے علاوہ ان کے اخراجات کے بل بھی خاصے بھاری ہوتے ہیں۔ یہ تمام اخراجات آپ اور میں ادا کرتے ہیں۔ موبائل سیٹ خریدنے سے لے کر چائے کی پتی خریدنے تک۔ ہمیں معلوم ہی نہیں ہوتا بس ہم سمجھتے ہیں کہ "مہنگائی بڑھ گئی ہے"۔ مہنگائی جان بوجھ کر بڑھائی جاتی ہے تاکہ لوگوں کی جیبوں سے زیادہ سے زیادہ پیسے نکلوائے جا سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں تک میں لوگوں کی بچت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔
آئیے کچھ دولت کی تقسیم سے متعلق بات کر لیتے ہیں پھر آگے چلتے ہیں۔ ہم فرض کر لیتے ہیں کہ کسی ملک کی آبادی ایک ہزار افراد ہے اور اس کے قومی بینک نے گردش میں لانے کی خاطر کل دس ارب چلیں روپے ہی سہی جاری کیے ہیں۔ ایک صاحب بہت تیز ہیں اور ان پر اللہ کا خاص کرم ہے چنانچہ وہ اپنی کاروباری ذہانت سے ڈھائی ارب کے مالک بن جاتے ہیں۔ دوسرے صاحب بہت شاطر ہیں، بددیانت بھی ہیں اور عقلمند بھی وہ بھی اپنے اوصاف کی بدولت دو ارب کے مالک بن گئے۔ تیسرے صاحب نیک اور دیانت دار تو ہیں مگر انہوں نے جی جان سے محنت کی ہے چنانچہ وہ بھی پونے دو ارب کے مالک ہو گئے۔ ایک صاحب چینل کے مالک ہیں، صارفین کے لیے مال و خدمات بیچنے والی بیرونی کمپنیاں انہیں اشتہار پہ اشتہار دیتی ہیں تو وہ بھی ڈیڑھ ارب کے مالک بن چکے ہیں۔ پانچویں صنعت کار ہیں انہوں نے فضل ربی سے دو ارب اپنے کر لیے ہیں۔ ہزار میں سے بیس لوگ بڑے صحافی اور اینکر پرسن ہیں۔ پچاس پچاس لاکھ وہ بھی کما لیتے ہیں۔ دس بڑے ڈاکٹر اور اداکار بھی ہیں پچاس پچاس لاکھ ان کے بینکوں میں بھی چلے گئے۔ ایک ہزار کی آبادی میں دس بڑے افسر ہیں ہمیں نہیں معلوم کونسے شعبے سے لیکن ایک ایک کروڑ تو ان کا بھی حق بنتا ہے۔ حق چاہے نہ بنے وہ دھونس دھاندلی سے لے لیتے ہیں۔ ارے دس پولیس والے بھی ہیں، پندرہ پندرہ لاکھ انہوں نے بھی اینٹھ لیے۔ باقی بچ رہے پچاس لاکھ اور آدمی ہیں کتنے؟ ایک ہزار منفی پانچ منفی بیس منفی دس منفی دس منفی دس یعنی 945۔ اب ہم پچاس لاکھ ان میں برابر برابر تقسیم کر دیتے ہیں۔ ہر ایک کے حصے میں 5291 روپے آتے ہیں۔ یہ بیچارے جن میں جج بھی ہیں، استاد بھی، ڈاکٹر انجنیر بھی ظاہر ہے احتساب کا تقاضا کریں گے مگر آپ بتائیں ان میں سے کون کس کا احتساب کرے گا۔ 945 میں سے ساڑھے تین سو فوجی ہیں اور ڈیڑھ سو پولیس والے باقی جو بچے وہ بیچارے۔
مثال بہت سادہ تھی تاہم یہ ثابت ہوا کہ پیسے اتنے ہی ہوتے ہیں جتنے ہو سکتے ہیں، نہ آسمان سے برستے ہیں اور نہ زمین سے اگتے ہیں،کس کے حصے میں کیا آتا ہے یہ نظام طے کرتا ہے۔ نظام حکومت اور نطام معیشت دونوں مل کر۔ دنیا کے متمدن ملکوں میں سے تقریبا" سبھی میں یہی سرمایہ داری نطام ہے مگر وہاں کے زیادہ آمدنی والے لوگوں نے چاہے سالہا سال کے بعد ہی سہی بہتر قوانین مدون کر لیے ہیں۔ عام شہری سے لے کر اعلٰی ترین عہدے والے کے لیے نہ صرف ان قوانین کی پابندی کو لازم قرار دلوایا ہے بلکہ پامال کرنے والے کے لیے تعزیر و سزا کے قوانین بھی سخت تر کیے ہیں۔
ہمارے ہاں اول تو ایسا کچھ نہیں ہوا دوسرے جن کے پاس ہے اور جن کے پاس نہیں ہے ان کے درمیان خلیج عمیق تر اور وسیع تر ہوتی جا رہی ہے۔ ان دنوں کچھ صحافی اینکر حضرات میں ٹھنی ہوئی ہے۔ ان میں سے ایک نے حالیہ مضمون میں لکھا ہے کہ اس نے اس سال اپنی جائز آمدنی کا ٹیکس پچپن لاکھ روپے ادا کیا ہے۔ اگر ٹیکس بیس فی صد بھی ہو تو موصوف کی آمدنی پانچ چھ کروڑ سالانہ تو ہوئی۔ اور اس ایک اخبار یا ایک چینل میں صرف یہ ایک صاحب نہیں ہونگے اتنی آمدنی والے پانچ سات تو ہونگے ہی۔ پھر چینل بھی ایک دو تو نہیں ہیں بیسیوں ہیں تو صرف ایسے صحافی اور اینکر حضرات ہی اگر سو نہیں تو پچاس سے زیادہ ہونگے۔ ان سب کی یہ آمدنیاں اور چینل کے مالکان کی ساری دولت ان اشتہاروں کی دین ہے جو اشیاء بنانے بیچنے والی کمپنیاں، خدمات فراہم بلکہ بیچنے والی کمپنیاں انہیں دیتی ہیں جنہیں دیکھ کر ہم سب وہ ساری چیزیں خریدتے ہیں اور ان سب کی جیبیں بھرتے ہیں اور خود ہمارے پاس مثال والے 5291 روپے بھی نہیں بچتے۔ مگر یہ کہتے ہیں یہ سچ بولتے ہیں ، یہ درد دل رکھتے ہیں۔ چہ عجب۔
ہم مسلمانوں کے نزدیک افضل ترین مذہب اسلام ہے۔ تجارت کو بہترین پیشہ بتلایا گیا ہے مگر اس طرح کہ آپ نے اگر کوئی چیز ایک ہزار میں خریدی ہے تو گاہک کو بتائیں کہ میں نے ایک ہزار میں خریدی ہے لیکن میں بیچوں کا تین ہزار میں۔ بھائی منفعت کے اس دور میں ایسا سچ کون بول رہا ہے، کوئی بھی نہیں ناں تو پہلے نطام کو درست کرنے کی بات کریں۔ اگر آپ احتساب کرتے رہے، تو یہ الٹی گنگا کچھ دیر تو بہتی لگے گی لیکن تھوڑے ہی عرصے کے بعد پھر سے متعفن جوہڑ میں بدل کر رہ جائے گی۔
اس کھیل کو چپکے دیکھے جانا جرم ہوگا بلکہ ایک تاریخی جرم ہوگا۔ ہمیں تاریخی جرائم میں ملوث ہونے کی عادت پڑ چکی ہے۔ ہم ہر چڑھتے سورج کو سلام کرنے سے بچیں اور وہی کہیں اور کریں جو مناسب ہے، ہمیں جو بتایا جاتا ہے جو دکھایا جاتا ہے ضروری نہیں بلکہ بالکل بھی ضروری نہیں کہ وہ سچ ہو۔ معاملہ شریف برادران، زرداری، عمران خان، فضل الرحمٰن و دیگراں کے مالی احتساب کا نہیں بلکہ ہم سب کے لیے ایک بہتر نظام مدون کرنے کا ہے جو ہم سب کو مل کر مدون کرنا ہوگا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“