وہ جو اصل مجرم ہے وہ ہر بار بچ نکلتا ہے۔
کبھی اس ملک میں سیاست دان پر الزام لگتا ہے کہ وہ تباہی کا ذمہ دار ہے۔ ایوب خان ایبڈو کا پھندہ سیاست دانوں کے گلے میں ڈالتا ہے۔ ان کی خوب کردارکشی ہوتی ہے۔ انہیں ہر بڑائی کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے لیکن وہ جو اصل مجرم ہے بچ نکلتا ہے۔
پھر جرنیلوں کی باری آتی ہے۔ سقوط ڈھاکہ سے لے کر بلوچستان کی صورتحال تک ہر خرابی کا کیچڑ ان کے چہروں پر ملا جاتا ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ریاست کے اندر ریاست بنائی ہوئی ہے اور کبھی کہا جاتا ہے کہ دفاع کا بجٹ ایک سطری بجٹ ہے اور پارلیمنٹ اس ضمن میں بے اختیار ہے۔ یہاں بھی اسے جو ہر خرابی کا ذمہ دار ہے، کوئی نہیں پوچھتا۔
کبھی بیورو کریسی پر تان ٹوٹتی ہے۔ الزام لگتا ہے کہ سیاست دانوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے نہیں ہوتے۔ ان کے غلط احکام کو مان لیتے ہیں۔ کرپشن کرتے ہیں اور کرپشن کرنے والوں کو تحفظ دیتے ہیں۔ کبھی مذہبی طبقات کو آڑے ہاتھوں لیا جاتا ہے اور معاشرے کی برائیوں کا انہیں ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن افسوس! اس عام آدمی کو کوئی کچھ نہیں کہتا جو ہر برائی کرتا ہے اور ہر قانون شکنی کا مرتکب ہوتا ہے۔ اسے کوئی پکڑتا ہے نہ وہ کسی کو نظر آتا ہے!
کیا کبھی کسی نے اس بات پر غور کیا ہے کہ ایک عام پاکستانی…. جو دکاندار ہے، سکول کالج کا استاد ہے، ریڑھی لگاتا ہے، مستری ہے، آڑھتی ہے، سرکاری ملاز م ہے، کسان یا مزدور ہے، طالب علم ہے، بس ویگن اور ٹیکسی چلاتا ہے۔ اس کا روزمرہ کی زندگی میں کیا رویہّ ہے؟ وہ دوسروں کے ساتھ کیسا سلوک کررہا ہے اور قانون کی اس اس کے نزدیک کیا اہمیت ہے؟
یہ وہی عام آدمی ہے جس نے ایوب خان کے مارشل لا کو خوش آمدید کہا تھا۔ اس لیے کہ مٹھائی کی دکانوں پر جالیاں لگ گئی تھیں۔ اسے بھٹو اس لیے پسند تھا کہ وہ اچھا سوٹ پہنتا تھا اور انگریزی اچھی بولتا تھا۔ جب اسے بتایا جاتا کہ بھٹو نے اتنے بندے پھڑکا دیئے ہیں، شلواروں میں چوہے ڈلوا دیئے ہیں اور دلائی کیمپ کھل رہے ہیں تو یہ عام آدمی ایک شان بے نیازی سے کندھے اچکا کر کہتا تھا۔ ”تو کیا ہوا، بادشاہ اس طرح کرتے ہی رہتے ہیں۔“
پھر اس عام آدمی نے ضیاالحق کی تعریفوں کے پل باندھنے شروع کردیئے۔ وہ نماز پابندی سے پڑھتا ہے۔ اس نے دفتروں میں نماز شروع کرا دی ہے۔ وہ روس کے خلاف جہاد کررہا ہے۔ وہ ہر ستائیسویں رمضان کو عمرے پر جاتا ہے۔ آج حالت یہ ہے کہ وہ افغان مہاجر‘ جنہیں ایران نے خاردار تاروں کے کیمپ سے باہر نہیں نکلنے دیا، عملی طور پر پاکستان کے مالک بنے ہوئے ہیں اور مذہبی جماعتیں عقیدے کی بنیاد پر انتخابات میں امیدوار کھڑے کرنے کی تیاریاں کررہی ہیں۔
یہ درست ہے کہ ریاست اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کررہی۔ یہ بھی سچ ہے کہ پولیس فرض شناس نہیں۔ اس میں بھی شک نہیں کہ سیاست دان دیانت سے عاری ہے اور اس میں بھی کلام نہیں کہ جرنیل اور سول بیورو کریٹ ایمانداری سے اپنے فرائض سرانجام نہیں دے رہے لیکن خود عوام کیا کررہے ہیں؟
ٹھارہ کروڑ عوام کے اوپر اٹھارہ کروڑ پولیس والے تو مامور نہیں کیے جاسکتے۔ نہ ہی اٹھارہ کروڑ واعظ ہر شخص کو خدا اور آخرت سے ڈرا سکتے ہیں۔
دکاندار کی مثال لے لیجئے۔ اسے معلوم ہے کہ اس نے صحیح تولنا اور ماپنا ہے۔ وہ صحیح تولتا ہے نہ ماپتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ اس کی دکان کے سامنے تجاوزات نہیں ہونے چاہئیں۔ لیکن وہ فٹ پاتھ پر سامان لگا کر پیدل چلنے والوں کا راستہ بند کردیتا ہے اور چند سو روپے معاوضہ لے کر اپنی دکان کے سامنے ایک ریڑھی والے کو جگہ دیتا ہے۔ اب وہاں پارکنگ کی جگہ ہے نہ پیدل چلنے کی!
سرکاری ملازم کو دیکھئے۔ چلیے، وہ دفتر دیر سے پہنچتا ہے اس لیے کہ اس کا افسر بھی دیر سے آتا ہے لیکن دن بھر وہ جو کچھ کررہا ہے اس کا حساب تو مرنے کے بعد اسے خود دینا ہے۔ وہ اپنی نشست پر کم ہی بیٹھتا ہے۔ سائل آتا ہے تو اسے چکمہ دیتا ہے۔ نماز کے نام پر دو گھنٹوں کیلئے غائب ہوجاتا ہے۔ پھر سائل شام ڈھلے اس کے گھر آتا ہے تو تب اس کا کام کرتا ہے۔
الب علم کو دیکھئے، وہ بس یا ویگن میں بیٹھتا ہے تو کرایہ ادا کرنے سے انکار کردیتا ہے۔ دھمکیاں دیتا ہے۔ پھر وہ اپنے ساتھیوں کو بلا کر ہنگامہ بپا کرتا ہے۔ ٹریفک روک دیتا ہے۔ خلق خدا کو پریشان کرتا ہے۔ چند اوباش لڑکوں کا ساتھ دیتا ہے اور کالج میں ہڑتال کرا دیتا ہے۔ استاد کی توہین کرتا ہے۔ اس سارے عمل میں ریاست کا قصور ہے نہ پولیس کا۔
آپ بس ویگن اور ٹرک کے ڈرائیور کے طرز عمل پر غور کیجئے۔ سر پیٹ لیں گے۔ وہ پولیس کو رشوت دینے پر تیار ہے لیکن گاڑی کے کاغذات درست نہیں کراتا۔ وہ بس اور ویگن کو ہر اس جگہ روکتا ہے جہاں نہیں روکنا چاہیے۔ ٹریفک کے قوانین کے پرخچے اڑاتا ہے۔ چند روپوں کے لالچ میں زیادہ سواریاں بٹھا کر لوگوں کو ذہنی اذیت دیتا ہے۔ بغیر ضرورت کے ہارن بجاتا ہے۔ اگر وہ ٹرک ڈرائیور ہے تو سامنے سے آنے والی چھوٹی گاڑی کو کبھی راستہ نہیں دیتا۔ چھوٹی گاڑی کیلئے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ کچے ّپر اترے اور سڑک ٹرک کیلئے چھوڑ دے۔
اس خوش حال تاجر کے رویئے پر غور کیجئے جو سپر مارکیٹ یا لبرٹی میں بیٹھا ہے۔ وہ گاہک کو رسید نہیں دیتا۔ بیچتے وقت شے کا نقص نہیں بتاتا۔ اس نے دکان پر بورڈ لگایا ہوا ہے کہ خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہیں ہوگا ،حالانکہ اسے معلوم ہے کہ یہ بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے۔ مہذب دنیا میں ایسا نہیں ہوتا۔ وہ یہ سب کچھ کرتا ہے اور اس کے باوجود ٹیکس تک ادا نہیں کرتا۔ اس کا ساتھی تاجر ارتکابِ جرم کرتا ہے تو وہ انصاف سے کام نہیں لیتا۔ جرم کرنے والے ساتھی کو بچانے کیلئے پوری مارکیٹ بند کرکے ہڑتال کرا دیتا ہے ۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بلیک میل کرتا ہے۔
ستاد کو دیکھیے، وہ وقت پر کالج نہیں آتا۔ پرنسپل کی اسے پرواہ نہیں۔ میں ایک ایسے معزز پروفیسر کو جانتا ہوں جو ایک طویل عرصہ تک کلاس نہ لینے کیلئے مشہور تھا۔ استاد کو معلوم ہے کہ وہ جن طلبا کا ساتھ دے رہا ہے وہ حق پر نہیں اور کسی سیاسی جماعت کا ساتھ دینے کیلئے تعلیمی ادارے کے ماحول میں زہر پھیلا رہے ہیں لیکن وہ اپنا مقام بھول کر، اپنی ذمہ داری کو تارتار کرکے، فسادی طلبا کا ساتھ دیتا ہے۔
آج اینکر پرسن پر الزام ہے کہ وہ ہارے ہوئے سیاست دان کو بلا کر ٹی وی سکرین پر بازی گری کا تماشا دکھا رہے ہیں تاکہ ریٹنگ اوپر جائے۔ لیکن یہ ریٹنگ کون اوپر لے جارہا ہے؟ وہی عام آدمی جو ٹیلیویژن کے سامنے بیٹھ کر تماشا دیکھ رہا ہے۔ اینکر پرسن تو دکاندار ہے۔ اس نے وہی شے بیچنی ہے جس کی طلب کی جارہی ہے۔ یہ عام آدمی مکروہ چہروں کو دیکھ کر چینل بدل کیوں نہیں دیتا؟
یہ عام آدمی جب ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی کرتا ہے، جب اپنے مکان یا دکان کے سامنے غلاظت پھینکتا ہے، جب پیر سپاہی، نجومی، ہاتھ دیکھنے والے اور زائچہ بنانے والے کے فریب میں آتا ہے، جب محلے کی مسجد میں فساد پھیلانے والے مذہبی شخص کا ساتھ دیتا ہے اور جب نالائق، بیٹے کے نمبر کم ہونے کے باوجود اسے میڈیکل یا انجینئرنگ کالج میں داخل کرانے کیلئے غلط راستہ اختیار کرتا ہے تو کیا اس میں بھی حکومت یا پولیس کا قصور ہے؟
لیکن پھر بھی یہ ہر بار صاف بچ نکلتا ہے!