سطحی یا محدود علمیت بھی ایک نعمت ہے۔ اس سے انسان اگرچہ لکیر کا فقیر ضرور ہوتا ہے مگر انتشار کا شکار نہیں ہوتا ہے۔ کیوں کہ اس کا تقریر پر مستحکم ایمان ہوتا۔ میں بھی اگر مطالعہ کا شوقین کے بجائے اگر لکیر کا فقیر ہوتا تو ذہن میں سوال تو نہیں اٹھتے اور ان کے جوابات تلاش نہیں کرتا۔ شاید کسی میدان میں کچھ بن چکا ہوتا۔ مگر آگہی ایک ایسا جرم ہے جس سزا حقیقتوں کو جاننے پر ملتی ہے۔ جب درمیان کے پردے ہٹتے تو جس کی حقیقت کچھ اور ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ حقیقتیں عام لوگوں کے فہم سے بالا ہوتیں، لیکن ایک ژرف نگاہ ان کی حقیقتوں تک پہنچ جاتی ہے۔ اسلام میں اجتماعی عبادات کو اہمیت حاصل مگر ایک محدود۔ مثلاً زندگی میں ایک دفع حج کرنا سال میں دو دفعہ عیدوں کی نماز ہفتہ میں جمع کی نماز اور روزانہ پنجگانہ نماز۔ یہ سب فرض ہیں اور ان کی ادائیگی کے لیے مختلف شرائط ہیں اور ان سب کو فرض اور خدا کی وحدانیت کو تسلیم کرنے کا قرار دیا گیا۔ مگر اس میں یہ کمی رہ گئی تھی اس میں کوئی روحانی ترقی نہیں ہوتی تھی اور ان کو تسلیم کرنے والا پکا دنیا دار بن جاتا تھا اور اس کے بہت مضمر اثرات نکلے اور مسلمانوں نے سو سال کے اندر نصف ایشیا، نصف یورپ اور نصف افریقہ پر قابض ہوگئے اور علمی میدان میں دنیا کے رہنما بن گئے۔ لحاظ انہیں کسی نشے میں لگانا ضروری تھا۔ وہ لوگ جو بظاہر مسلمان ہوچکے تھے مگر ان کے ذہنوں میں گزشتہ افکار زندہ تھے۔ انہوں نے انہیں شیعت اور تصوف کی مد میں پیش کیا۔
اس کا ایک پہلو یہ تھا ان شیعت اور تصوف کو ماننے والے بظاہر ایک دوسرے کے خلاف تھے۔ مگر ایک ہی شجر کی پیداوار تھے اور ایک دوسرے نظریات کے حامل اور مددگار تھے۔ اس کے لیے چونکہ قران میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی تھی اس لیے حدیثوں، تفسیر اور تاویلوں سے مدد لی گئی اور حدیثوں، تاویلوں اور تفسیر سے قران سے ہٹا کر لوگوں کو روحانی ترقیوں پر لگا دیا گیا۔ لوگوں فرضی عبادات سے ہٹا کر روحانی ترقی پر متوجہ کیا گیا اور فکر کے بجائے تقدیر پر شاکر رہنے کا درس دیا گیا۔ لوگوں کو تقدیر پر لگا کر مختلف اجتماعی عبادتیں اور محفلیں کے علاوہ ریاضتوں پر زور دیا گیا۔ اس کے اثرات بہت دور رس تھے۔ پہلے اسپین خالی کرنا پڑا اور رفتہ رفتہ ہر جگہ مسلمان محکوم ہوگئے۔ اگر آج ہم آزاد ہے اس کی بنیادی وجہ ہماری فکر میں تبدیلی نہیں بلکہ مغرب کی فکر میں تبدیلی تھی۔ ورنہ ہم آج بھی لکیر کے فقیر ہیں اور جدو جہد کے بجائے تقدیر پر شاکر ہیں۔
اگر آپ اوستا پڑھیں تو آپ پر یہ حقیقت عیاں ہوگی کہ زرتشتی مذہب کا سب سے بڑا خدا اپنی پرستش نہیں کراتا ہے، بلکہ اس نے سیکڑوں خداؤں کے علاوہ لاکھوں مناظر فطرت اور انسانون و جانوروں کی پرستش کراتا ہے اور اس کا کہنا ہے ان کی پرستش میری پرستش ہے اور اس سے میں طاقتور ہوں گا۔ موجودہ اسلام آپ پیر کی مزار پرستش اور نذرانے دیں گے تو اس سے آپ کا خدا مظبوط ہوگا اور نسلی حرمت کو اہمیت دی گئی جس پر میں پنج تن پر میں لکھ چکا ہوں۔ زرتشت کی اولاد میں ایک شخص شوشنت قیامت سے مزدائی ازم کو پھر زندہ کرے گا۔ اس شیوشنت کو اسلام میں مہدی کو صورت میں لایا گیا کہ وہ اسلام کو دوبارہ قیامت سے پہلے زندہ کرے گا۔ مسلمانوں پر اس کے شدید اثرات پڑے۔ لوگوں کو یہ سمجھایا گیا کہ یہ روحانی مجالس منقعد کرنے کے مقصد کے پیچھے بھی اللہ کو طاقت بخشناہے اور اسلام طاقتور اور ترقی کرتا ہے۔
ان ترجموں سے مجھے بہت آگہی ہوئی۔ جس باتیں ہماری زندگیوں میں حدیثوں اور تفسیروں کے ذریعے ہمارے مذہب کا حصہ بن چکی ہیں اور جن قران کریم جسے ہم بغیر سمجھے پڑھ کر ثواب حاصل کرتے ہیں۔ جس کے متعلق ہمارے ذہنوں میں یہ بیٹھا دیا گیا ہے کہ اسے بغیر قران و حدیث کے بغیر سمجھا جاسکتا ہے۔ جب قران کہتا ہے ہم آسان کرکے پیش کیا گیا اس بات کو ہم سے چھپا دیا گیا۔ ایسا ہی اوستا کا ترجمہ کرنا جس کی اب تک چار کتابیں ترجمہ کر چکا ہوں۔ مجھ پر عیاں ہوا زرتشت کا اثر اسلام پر ہندوؤں سے زیادہ ہے۔ جب کہ ہندوؤں کا مبہم اور سطحی ہے۔ مگر زرتشتیت کا بہت گہرا ہے اور یہی وجہ یورپی محقیقن نے اسلام پر زرتشیت کا گہرا اثر بتایا ہے۔