بڑے میاں نے سیٹی دوبارہ بجائی اور بس ڈرائیور کو بس آگے کھڑی کرنے کا اشارہ کیا۔
دائیں ہاتھ میں سیٹی اور بائیں میں لاٹھی ٹیکتے یہ بڑے میاں صبح سے شام تک ان بسوں کو صحیح جگہ رکنے کی تگ ودو میں لگے رہتے۔ چھ فٹ سے نکلتا قد لیکن ہلکی سی خمیدہ کمر، خاکی شلوار اور قمیض، قمیض کے کاندھوں پر فوجی وردی کی سی پٹیاں ( لو پس )سر پر لیاقت کیپ جس کے بلند ترین حصے پر مولانا جوہر کی طرح چاند ستارے کا بیج لگا ہوا۔ بڑے میاں یہ خدمت رضاکارانہ انجام دیتے۔
ہوا یوں تھا کہ کورنگی نمبر دو کی یہ سڑک جو 'کیو ،اور ،ٹی' ایریا کو تقسیم کرتی تھی۔ سڑک کی دونوں جانب بازار تھا اور لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ کچھ دن پہلے اس بس اسٹاپ پر ایک بس نے ایک کمسن بچے کو کچل دیا تھا۔ بسوں والے نجانے کیوں بس کو اسٹاپ سے یعنی اس گلی سے پہلے کھڑی کرتے کہ سڑک پار کرنے والوں کو بس کے عقب سے آتی گاڑیاں نہیں دکھائی دیتیں اور اکثر حادثات ہوتے۔
پھر ایک دن دیکھاکہ یہ بڑے میاں بیلچہ ہاتھ میں لئے بسوں و الے سے منت سماجت کررہے ہیں۔ بس والے بیلچے کے ' پھل ' کی جانب اشارہ کرتے جو مسافروں کو زخمی کرسکتا تھا۔ آخر ایک بس والے نے بس کی پچھلی سیٹ کے نیچے بیلچہ رکھنے اور بس میں سوار ہونے کی اجازت دے دی۔
" اوہو! تو یہ چچا بیلچہ پارٹی والے ہیں ! " میرے دوست نے جو مجھ سے ایک جماعت آگے تھا حیرت سے کہا۔
" یہ کیا ہوتی ہے، بیلچہ پارٹی؟ " میں نے پہلی بار اس پارٹی کا نام سنا تھا۔
' یار یہ وہ نہیں ہے، خاکسار تحریک' یہ ان کا نشان ہے" ۔۔۔دوست نے بتایا۔
" یہ بیلچہ بڑے کام کی چیز ہے" دوست نے بیان جاری رکھا۔ " یہ زمین کھودنے کے علاوہ بطور ہتھیار بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہ اسے کندھوں پر بندوقوں کی طرح رکھ کر پریڈ کرتے ہیں ، چپ راست، چپ راست "( لیفٹ رائٹ، لیفٹ رائٹ)۔
کورنگی آنے سے پہلے میرا یہ پڑوسی اور دوست گارڈن کے قریب کہیں رہتا تھا اوراس نے خاکساروں کا مارچ دیکھ رکھا تھا۔
" اس بیلچے میں کڑاہی کی طرح کھانا بھی پک سکتا ہے تو الٹا کرکے روٹی بھی سینکی جاسکتی ہے۔" میرا یہ دوست اسکول میں اسکاؤٹ بھی تھا۔
خاکسار تحریک سے یہ میرا پہلا تعارف تھا۔ اخبار میں جب کبھی کوئی مضمون یا خبر چھپتی تو کورنگی والے بڑے میاں سے ملتے جلتے حلیئے والے " علامہ مشرقی" کی تصویر بھی ہوتی۔
" بتائیے پاکستان میں سب سے زیادہ ڈگریاں کس کے پاس ہیں؟" کالج کے کوئز مقابلے میں سوال پوچھا گیا۔
" علامہ مشرقی" جواب آیا اور مجھے حیران کرگیا۔
ہائیں! یہ مزدور نما بڑے میاں ، ان کے پاس ڈگری بھی ہے اور وہ بھی اتنی ساری؟!
اور پھر جب کبھی علامہ مشرقی کے بارے کہیں سنا یا پڑھا،ہر بار حیرت ہی ہوتی رہی۔ کچھ سمجھ نہ آیا کہ وہ اتنے بڑے آدمی ہیں تو ان پر اتنی تنقید کیوں۔
اور یہ بھی عجیب بات ہے کہ ہم نے تاریخ کو عجیب سے خانوں میں بانٹا ہوا ہے۔ میری تو یہ سمجھ آیا ہے کہ ہمارے نزدیک تاریخ وہ نہیں جو ہے، یا جو بیان کی جاتی ہے، بلکہ تاریخ وہ ہے جو ہم سننا چاہتے ہیں۔ جن اکابرین کا نقش ہمارے ذہنوں میں بٹھایا گیا ہے ہم ان کے ہم عصر یا مخالفین کا ذکر بھی سننا گوارا نہیں کرتے۔ ہماری تاریخ صرف ہمارے " ہیروز" کی تاریخ ہے، جو ہمارے ہم مذہب یا ہم وطن ہوں ان کو بڑھا چڑھا کر بیان کرینگے ۔ مسلمان اسد اللہ خان غالب کو تو ہندو بھی مان لیتے ہیں، اسے پڑھتے ہیں، اس کی غزلیں گاتے ہیں، لیکن ہندو رابندرناتھ ٹیگور کو ہمارے ہاں کوئی نہیں پڑھتا نہ ہی بھگت سنگھ یا سبھاش چندر بوس کے بارے میں ہمارے ایک عام طالبعلم کو کچھ خبر ہے۔
علامہ عنایت اللہ مشرقی کو بھی چونکہ ان کے سیاسی اور مذہبی خیالات ہمارے زعماء کی سوچ سے لگا نہیں کھاتے تھے کبھی وہ اہمیت نہ دی گئی جو ان جیسی نادر روزگار شخصیت کا حق تھی۔
اور یہ علامہ جو ہمارے موجودہ دور کے کچھ علاماؤں کی طرح خود ساختہ علامہ نہیں تھے بلکہ قاہرہ کی جامعہ الا زہر نے مسئلہ خلافت پر فکر انگیز تقریر کرنے پر علامہ المشرقی کا خطاب دیا تھا۔
اور سچ تو یہ ہے کہ مجھے بھی یہ بیلچہ بردار، مزدور نما علامہ کچھ زیادہ سمجھ نہیں آتے جن کے بارے میں نہ صرف ڈگریوں والی بات سنی بلکہ یہ بھی سنا کہ اٹھارہ سال کی عمر میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے ریاضی میں اوّل پوزیشن حاصل کی اور یونیورسٹی کی تاریخ کے پہلے فرسٹ کلاس آنے والے طالبعلم بنے اور کہا جاتا ہے کہ یہ ریکارڈ اب تک قائم ہے۔ انہی علامہ کے بارے میں سنا کہ ہٹلر نے اپنی گاڑی انہیں دے دی اور وہ آج بھی ان کی مرقد کے ساتھ زنگ آلود کھڑی ہے۔ اور یہ بھی سنا کہا کہ آئن اسٹائن ریاضی کے ایک سوال کا جواب حل نہیں کر پا رہا تھا تو انہی علامہ نے اسے ایک ڈبیہ پر حل کرکے دکھا دیا۔ اور یہ بھی کہتے ہیں کہ آئن اسٹائن نے علامہ کو " ہندوستان کا دماغ" قراد دیا۔
انگلستان کے اسی قیام کے دوران ان کی ملاقات سر جیمز جینز سے ہوئی جو قرآن کو آسمانی کتاب تسلیم کرتے تھے اور قرآن کی اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ جو علم رکھتے ہیں وہی اللہ سے ڈرتے ہیں کہ انہیں ہی رب کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔
اور خالق کی یہی معرفت ہے کہ چھتیس دیہات کی اراضی کے مالک عنایت اللہ خان وراثتی زمین کسانوں میں تقسیم کرتا ہے اور خود کو خلق خدا کی خدمت کے لئے وقف کردیتا ہے۔ ذرا موجودہ دور کے " بڑے لوگوں" کو ذہن میں لائیں جو زمینوں پر قانونی اور غیر قانونی قبضوں کو اپنی عظمت کی علامت سمجھتے ہیں۔
اور ہندوستان کے اس قابل ترین ہستی کی بے نیازی تو دیکھیں ریاست الور کی وزارت اعلی کی پیشکش ہو، یا افغانستان کی سفارت ہو یا تاج برطانیہ کی جانب سے سر کا خطاب ہو یا قرآن کی سائنسی تفسیر پر نوبل انعام کی پیشکش ہو ایک شان استغناء سے ٹھکرا دیتے ہیں اور سیاست اور خدمت کی سنگلاخ وادی میں خود کو تج دیتے ہیں۔
علامہ نے زندگی کے اٹھارہ سال قید وبند میں گذارے جسمیں قیام پاکستان کے بعد بھی چار بار کی جیل یاترا شامل ہے۔ علامہ صاحب زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی متنازعہ رہے چاہے وہ ان کے مذہبی خیالات ہوں یا تقسیم سے متعلق ان کے رائے۔
مجھ جیسے کم علم اور بے عمل شخص کو جسے وضو اور نماز کے فرائض اور سنن کا ٹھیک سے پتہ نہیں اسے بھلا علامہ کے مذہبی خیالات کیا سمجھ آئیں گے۔ لیکن سمجھنے والے بتاتے ہیں کہ ان کے خیالات سر سید اور دوسرے جدید علماء سے ملتے جلتے تھے جس میں حدیث کی آئینی حیثیت کو مشکوک مانا جاتا ہے اور کہتے ہیں کہ علامہ کے خیالات اسلم جیراج پوری، غلام احمد پرویز اور مولانا حمید الدین فراہی سے زیادہ قریب تھے، جمہور علماء کا جن سے عموماً اختلاف ہی رہتا ہے۔
علامہ لیکن کوئی مذہبی شخصیت ہی نہیں تھی گو کہ انہوں نے قرآن کے تفسیر سائنسی حوالوں سے پیش کی ۔ " تذکرہ" جیسی کتاب پر انہیں نوبل انعام کی پیشکش ہوئی ۔ لیکن نوبل والوں کی شرط تھی کہ پہلے اس کا کسی یوروپی زبان میں ترجمہ ہو۔ یہ نہیں ہوا( اور پتہ نہیں کیوں نہیں ہوا؟) اور نوبل انعام انہیں نہیں مل سکا۔
علامہ کی فکر اور سوچ سے سب سے بڑا اختلاف ان کی برصغیر کی تقسیم کے حوالے سے رائے پر ہوتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ علامہ کی بات میں بہت وزن تھا اور ان کے بہت سے خدشات اور خیالات درست ثابت ہوئے یا ہورہے ہیں۔
جہاں تک میں سمجھ پایا علامہ کا خیال تھا کہ ہندوستان کی تقسیم سے مسلمان تین حصوں میں بٹ جائیں گے اور ان کی مجموعی طاقت متاثر ہوگی، جو کہ متحدہ ہندوستان میں زیادہ موثر ہوسکتی ہے۔ آج برصغیر کے مسلمان ، پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش میں تقسیم ہیں۔ علامہ مشرقی کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کی آبادی بڑھتی ہے اور ہندو بنیا چونکہ زرپرست ہے وہ اولاد زیادہ نہیں پیدا کرے گا اور ہندو مسلمان کا تناسب کم رہ جائے گا۔ سکھ، عیسائی اور دوسری اقلیتیں بھی اپنا پلڑا مسلمانوں کے حق میں ڈالیں گے اور ہندو آسانی سے اپنی من مانی نہیں کرسکے گا۔ اور یہ کہ اگر ہندو کسی اکثریتی علاقے میں زیادتی کرنا چاہے تو مسلم اکثریتی علاقوں کے ردعمل سے اس کی ہمت نہ ہوسکے گی۔ علامہ کا خیال تھا کہ انگریز کی آمد سے پہلے ہندومسلم آپس میں شیر وشکر رہتے تھے اور انگریز انہیں تقسیم کرکے یہاں مستقل ایک منافرت کا بیج بودے گا جس کے نتیجے میں خطے میں نہ صرف نفرت کا راج ہوگا بلکہ مذہبی شدت پسندی فروغ پائے گی۔ آج ہندوستان میں جس قسم کی حکومت ہےاور پاکستان میں جیسے مذہبی گروہوں نے پچھلے کئی سالوں سے لوگوں کا جینا حرام کررکھا ہے وہ علامہ کے خدشے کو درست ثابت کرتا ہے۔( ابھی کل ہی آرمی پبلک اسکول پر بچوں کے قتل عام کی یاد منائے گئی ہے۔)
بہرحال اہل سیاست اور اہل مذہب اور دانشور اپنی رائے رکھتے ہیں اور علامہ کی باتوں اور خیالات سے اختلاف اور اتفاق ہوتا رہے گا۔ میں تو اپنے نوجوان دوستوں کو اس نابغہ ہستی کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں جنہیں تقریباً بھلا دیا گیا ہے یا جن کا ذکر خیر شاید ہی کہیں نظر آتا ہے۔
اور اب ذرا اس خاکسار تحریک کو بھی دیکھ لیں آج جس کا نام ونشان کہیں نظر نہیں آتا، جو کہ ۱۹۳۱ میں نوے خاکساروں کے ساتھ شروع کی گئی اور ۱۹۴۲ میں ان کی تعداد چالیس لاکھ ہوگئی تھی۔ عسکری طرز پر قائم ہونے والی اس تحریک کے ارکان ایک جیسی فوجی وردی پہنتے، روزانہ صبح مارچ پاسٹ اور فوجی مشقیں کرتے ،بیلچہ کی کچھ خصوصیات تو میرے دوست نے بتادی تھیں، یہ بیلچہ اتحاد، اخوت اور عاجزی کا نشان تھا۔ خاکسار تحریک کا بنیادی مقصد اللہ کی حاکمیت، قوم کا اتحاد اور خدمت خلق تھا۔ُ
یہ خاکسار روزانہ میدانوں، سڑکوں اور گلیوں میں پریڈ کرتے نظر آتے۔ خود علامہ جو کہ خاکسار اعظم تھے، اسی حلیئے میں اپنے ذاتی خرچ سے شہر وں کے دورے کرتے، خاکساروں کی تربیت کرتے۔ ۱۹۵۷ میں علامہ تین لاکھ خاکسار کشمیر کی سرحد پر لے گئے اور حکومت کو کشمیر بزور شمشیر آزاد کرانے پر زور دیا لیکن بعد میں حکومت کے ہی کہنے پر واپس آگئے۔ علامہ پر ڈاکٹر خان کے قتل میں ملوث ہونے اور حکومت کا تختہ الٹنے جیسے الزامات لگے، جیل میں ڈالے گئے لیکن پھر الزامات سے بری ہوکر رہا ہوئے۔
ریاضی علامہ کا اختصاص تھا۔ اسی ریاضی کی مدد سے آپ نے برصغیر کی تین سو سال سے قائم شدہ کئی مساجد کے غلط قبلوں کی درستگی کی۔ علامہ مغربی جمہوریت کی جگہ اسلامی جمہوریت کے، جسے وہ فطری جمہوریت قرار دیتے تھے ، حامی تھے۔ ان کے نزدیک دنیا کے وسائل پر زرپرستوں کے قبضے سے نجات کا فطری حل اسلامی جمہوریت میں مضمر تھا۔
روزانہ خدمت اور محلہ داری نظام، خدمت، اخوت کا نظریہ علامہ کی تحریک کی بنیاد تھا۔ علامہ ایک دوربین اور جہاندیدہ دانشور تھے۔ وہ پہلے سیاسی رہنما تھے جنہوں نے دریاؤں کے رخ موڑنے اور ڈیمز تعمیر کرنے پر زور دیا، مسئلہ کشمیر کھٹائی میں ڈالنے، امریکہ بھارت گٹھ جوڑ، سول اور فوجی حکومتوں کی وعدہ خلافی، معاشی اور اقتصادی بدحالی اور مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کے خدشات کا بے باک اور بے لاگ اظہار ہی تھا کہ علامہ کی شخصیت کو مسخ اور متنازعہ بنا کر پیش کیا گیا، علامہ کا انتقال ۱۹۶۳ میں ہوا اور آج نصف صدی سے زیادہ گذر جانے کے بعد ان کی تقریباً ہر بات سچ بن کر ہمارے سامنے آرہی ہے۔
مجھے نہیں علم کہ علامہ کا قد گھٹانے اور آنے والی پیڑھی کو ان سے بے بہرہ رکھنے کی کوشش ارادی تھی یا کوئی اور وجہ تھی یا علامہ ہی اس کی وجہ تھے، لیکن وہ تھے بہرحال ایک بہت بڑے آدمی اور انہیں یاد رکھا جانا چاہئیے تھا،
شاہانہ زندگی کو تج کر مجاہدانہ زندگی اپنانے والے علامہ مشرقی کو ان کے انتقال پر حکومت نے بادشاہی مسجد کے پاس حضوری باغ میں دفنانا چاہا لیکن ان کی وصیت کے مطابق اچھرہ میں انہیں سپردخاک کیا گیا۔ کہتے ہیں کہ دس لاکھ لوگوں نے ان کے جنازے میں شرکت کی۔
لیکن شاید وہ دس لاکھ اب اس دنیا میں نہیں رہے نہ انہوں نے اپنے بچوں کو اس ہستی کے بارے میں کچھ بتایا کبھی جسے آئنسٹائن نے ہندوستان کا دماغ قرار دیا تھا،
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کئے؟