الیکشن دو ہزار چوبیس اب صرف ایک روز کی دوری پر ہے۔ اس الیکشن میں دو بڑی جماعتیں پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون آپس میں مدمقابل ہیں۔ تیسری جماعت تحریک انصاف اپنے سربراہ عمران خان کی نااہلی اور انتخابی نشان بلا نہ ملنے کے باعث انتخابی دوڑ سے تقریبا باہر ہو چکی ہے۔ تحریک انصاف کے امیدوار بلے کا انتخابی نشان نہ ملنے کے باعث آزاد حیثیت میں انتخاب لڑ رہے ہیں۔
پاکستان پیپلزپارٹی نے سب سے پہلے انتخابی منشور کا اعلان کیا اور “چنو نئی سوچ کو” کے پیغام کے ساتھ پہلے دس نکات پر مشتمل منشور کا بنیادی خاکہ عوام کے سامنے پیش کیا اور بعد میں تفصیلی منشور “عوامی معاشی معاہدہ” پیش کیا گیا۔ ن لیگ اور پی ٹی آئی نے منشور پیش کرنے میں خاصی تاخیر کا مظاہرہ کیا۔ انتخابی مہم میں منشور کے حوالے سے بڑی جماعتوں میں ایک اور بہت بڑا اور واضح فرق دیکھنے میں آیا کہ پیپلزپارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری اپنی ہر تقریر، انٹرویو اور میڈیا سے بات چیت میں اپنے منشور کے دس نکات اور ان پر عمل درآمد کا پلان بتاتے نظر آئے ہیں۔ چیرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے اپنے منشور اور پلان آف ایکشن کی وضاحت کے لئے بڑے تواتر کے ساتھ ملکی اور غیر ملکی میڈیا کے ساتھ انٹرویوز کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہے اور پاکستان پیپلزپارٹی کی ساری انتخابی مہم ان کے انتخابی منشور کے کے اردگرد گھومتی نظر آئی ہے۔
دوسری طرف ن لیگ کی جانب سے پہلے تو منشور پیش کرنے میں غیر ضروری تاخیر نظر آئی اور الیکشن سے صرف چند روز پہلے منشور پیش کیا گیا جس کا نام “پاکستان کو نواز دو” رکھا گیا ہے۔ پیپلزپارٹی کے پیغام “چنو نئی سوچ کو” کے مقابلے میں “پاکستان کو نواز دو” کا تھیم خاصا دبا دبا سا، شخصیت پرستی پر مبنی اور پرانی رجعت پسند سوچ کا حامل نظر آیا۔ ن لیگ کا انتخابی منشور پیش ہو جانے کے باوجود ن لیگ کے مرکزی قائدین نے اپنے انتخابی جلسوں میں اپنے منشور کا ذکر کرنے کی بجائے اپنا سارا فوکس مجھے کیوں نکالا والی کہانیوں تک مرکوز رکھا۔ ن لیگ کے مرکزی قائدین کی جانب سے کچھ جلسوں میں چیرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کے دس نکات کو نقل کرنے کی کوشش تو ضرور کی گئی لیکن ن لیگ کے قائدین اپنے منشور پر بات کرنے سے گریزاں ہی نظر آئے۔ یہاں تک کہ ن لیگ کے منشور کی لانچنگ کی تقریب میں بھی ن لیگ کے قائد میاں نواز شریف نے نہ تو اپنی تقریر میں اور نہ ہی صحافیوں کے ساتھ ملاقات میں اپنے انتخابی منشور پر کوئی بات کی۔ صحافیوں کے سوال پر میاں صاحب نے صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیا کہ ن لیگ کا منشور ویب سائٹ پر اپلوڈ کر دیا گیا ہے وہاں سے دیکھ لیں۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے منشور “عوامی معاشی معاہدہ” کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ جہاں پیپلزپارٹی کا منشور اس کے قائد بلاول بھٹو زرداری کو ازبر یاد ہے اور وہ ہر فورم پر اپنا منشور، اپنے وعدے اور ان پر عمل درآمد کا پلان بتاتے نظر آتے ہیں وہاں ان کی سب سے بڑی انتخابی حریف ن لیگ اپنے منشور پر بات کرنے اور اپنا پلان آف ایکشن عوام کے سامنے رکھنے کی بجائے آج بھی گلےشکوؤں، تقسیم اور ماضی کی باتوں میں کھوئی نظر آتی ہے۔ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی سوچ کے اس فرق کو عوام بڑی گہری نظر سے دیکھ رہے ہیں اور چیرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کی نئی سوچ اور پیغام “چنو نئی سوچ کو” عوام کے دلوں میں گھر کر رہا ہے۔
“چنو نئی سوچ کو” کا پیغام دینے والے بلاول بھٹو زرداری نے اپنی اسی نئی سوچ کے تحت ہی مسلمہ جمہوری اقدار کو فروغ دینے کی خاطر اپنے حریف وزیراعظم کے امیدوار ن لیگ کے میاں نواز شریف کو نیشنل ٹی وی پر براہ راست مباحثے کی دعوت دی اور کہا کہ آئیں ہم دونوں نیشنل ٹی وی پر عوام کے سامنے براہ راست اپنی کارکردگی، اپنا منشور اور اپنا پلان آف ایکشن عوام کے سامنے رکھتے ہیں اور صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہیں اور پھر یہ فیصلہ عوام پر چھوڑتے ہیں کہ وہ فیصلہ کریں کہ کس رہنما کے پاس دکھانے کو کارکردگی ہے اور مستقبل میں عوام کے مسائل حل کرنے کے لئے جامع پروگرام ہے لیکن میاں نواز شریف نے ٹی وی پر مباحثے سے انکار کر کے نہ صرف اپنی شکست تسلیم کی بلکہ یہ بھی ثابت کیا کہ ان کے پاس عوام کے لئے کوئی جامع پروگرام نہیں ہے بلکہ صرف ماضی کے گلے شکوے ہی ان کا منشور ہیں۔ ن لیگ اور شریف برادران کی اسی سوچ کی عکاسی کرتے ہوئے سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ ملکی مسائل کے حل کے لئے ہمیں آوٹ آف دی باکس یعنی نئی سوچ اور ویژن کے مطابق چلنا ہو گا اور ن لیگ کی قیادت ایسا سوچنے اور کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔
چیرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری “چنو نئی سوچ کو” کے پیغام کی وضاحت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ملک کو گھمبیر مسائل سے نکالنے کے لئے نفرت، انتقام، تقسیم اور عدم برداشت کی سوچ کو ختم کرکے سیاست میں رواداری اور برداشت کے کلچر کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ سیاسی اختلاف رائے کو ذاتی دشمنی میں تبدیل نہیں ہونا چاہئیے۔ چیرمین بلاول بھٹو زرداری کا یہ کہنا کہ ہماری حکومت میں کوئی سیاسی قیدی نہیں ہو گا ان کی اسی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی مدمقابل سیاسی جماعتیں اپنے منشور کی بجائے مذہبی، لسانی اور علاقائی بنیادوں پر ووٹ مانگ رہی ہیں جبکہ پیپلزپارٹی واحد قومی سیاسی جماعت ہے جو اپنے نظریے، منشور اور “چنو نئی سوچ کو” کے پیغام کے ساتھ ووٹ مانگ رہی ہے۔
چیرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کے پیغام “چنو نئی سوچ کو” میں نوجوانوں کے لئے بہت کشش موجود ہے۔ اسی طرح پیپلزپارٹی کے منشور “عوامی معاشی معاہدہ” میں نوجوانوں کا خاص خیال رکھا گیا ہے اور تعلیم مکمل کرنے والے اور نوکری کی تلاش میں سرگرداں نوجوانوں کے لئے ایک مکمل پروگرام دیا گیا ہے اور ان کو نوجوان کارڈ جاری کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے جس کے مطابق انہیں نوکری کی تلاش کے دوران ایک سال تک وظیفہ دیا جائے گا۔ اسی طرح تعلیم مفت کرنے اور تعلیم کی سہولت ملک کے کونے کونے تک پہنچانے کا وعدہ بھی کیا گیا ہے۔ چیرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری جو خود بھی ایک نوجوان ہیں اس لئے سمجھا جاتا ہے کہ نوجوان قیادت نئی سوچ کے ساتھ نوجوانوں کے مسائل کو سمجھتی بھی ہے اور انہیں حل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔
بلاول بھٹو زرداری اپنی انتخابی مہم کے دوران “چنو نئی سوچ کو” کا پیغام لے کر چاروں صوبوں میں گئے ہیں اور چاروں صوبوں میں پیپلزپارٹی کے نعرے “چنو نئی سوچ کو” بے انتہا پذیرائی ملی ہے۔ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی انتخابی مہم کا ایک بہت بڑا فرق یہ بھی نظر آیا کہ پیپلزپارٹی نے چاروں صوبوں میں انتخابی مہم چلائی ہے اور “چنو نئی سوچ کو” کا پیغام ملک کے کونے کونے تک پہنچانےمیں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی جبکہ دوسری طرف “پاکستان کو نواز دو” کا پیغام دینے والی ن لیگ پنجاب سے ہی باہر نہیں نکل سکی اور جی ٹی روڈ کے تین ڈویژنز کو سارا پاکستان سمجھ کر انہیں “پاکستان کو نواز دو” پر قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ یہاں چھوٹے صوبوں کے عوام کے لئے فکر والی بات یہ ہے کہ ایک ایسی جماعت جو چاروں صوبوں میں ووٹ تک مانگنے کی زحمت نہیں کرتی اور اکثریتی صوبے پنجاب کے تین ڈویژنز تک ہی محدود ہے اگر “ساڈی گل ہو گئی اے” کے بل بوتے پر اس جماعت کا وزیراعظم بن جاتا ہے تو سوچنے والی بات یہ ہے کہ چھوٹے صوبوں کے ساتھ اس جماعت کا سلوک کیا ہو گا؟ کیا چھوٹے صوبے پالیسی سازی میں نظر انداز نہیں ہوں گے؟
فیصلے کی گھڑی اب صرف ایک روز کے فاصلے پر ہے اور یہ فیصلہ عوام کو کرنا ہے کہ وہ اپنے اور اپنے بچوں کے روشن اور محفوظ مستقبل کے لئے پیپلزپارٹی کے نوجوان چیرمین بلاول بھٹو زرداری کے پیغام “چنو نئی سوچ کو” کا ساتھ دے کر سٹیٹس کو توڑنے اورملک کو تعمیر و ترقی اور خوشحالی کی راہ پر ڈالنے کا فیصلہ کرتے ہیں یا پرانی اور رجعت پسند سوچ کے پیغام “پاکستان کو نوازدو” کا ساتھ دیتے ہیں۔ اگر خفیہ ہاتھوں کے ذریعے پرانی رجعت پسند سوچ کو پرانے ہی طریقوں سے سلیکٹ کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کے نتائج بھی وہی ہوں گے جو ماضی میں نکلتے رہے ہیں ایک ستر سالہ پرانی سوچ کو نہ تو بدلا جا سکتا ہے نہ اس سے اچھے نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کے فیصلے کو تسلیم کیا جائے اور اگر عوام پرانی رجعت پسند سوچ کو مسترد کر کے نئی سوچ کا ساتھ دیتے ہیں تو ان کے فیصلے کا احترام کیا جائے۔
پاکستان کے مرد و خواتین اور نوجوانوں کو بیلٹ پیپر پر مہر لگانے سے پہلے ایک دفعہ ضرور سوچنا چاہئیے کہ پاکستان کو پہلے تین دفعہ نواز دیا جا چکا ہے لیکن عوام کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اس لئے اس دفعہ ایک موقعہ نوجوان قیادت بلاول بھٹو زرداری کے پیغام “چنو نئی سوچ کو” دے کر دیکھیں کیونکہ بلاول بھٹو زرداری کے ویژن اور نئی سوچ کی صورت میں اندھیری سرنگ کے آخری سرے پر روشنی نظر ضرور آ رہی ہے اور یہی روشنی پاکستان کے عوام کے لئے روشن صبح کا پیغام بنے گی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...