نیواڈا کے صحرا میں 1849 میں سونے کی تلاش میں سرگرداں بھوکے کان کُنوں کو زمین پر کچھ گیندیں سے نظر آئیں۔ انہوں نے ان گیندوں کو میوے سمجھ کر چکھا۔ میٹھا ذائقہ دیکھ کر ان کو کھا گئے۔ کچھ دیر بعد طبیعت خراب ہو گئی اور متلی ہونا شروع ہو گئی۔ یہ میوہ نہیں تھا۔ یہ یہاں کے چوہوں جیسے جانور (پیک ریٹ) نے بنائی تھیں۔ یہ چوہے ان گیندوں کو بناتے ہیں۔ اس میں ممالیہ کا فضلہ، تنکے، ہڈیاں، پودوں کے ٹکڑے اور خود ان کا فضلہ شامل ہوتا ہے۔ یہ ان کے گھروں میں ہوتی ہیں اور یہ ان کے اوپر پیشاب بھی کر دیتے ہیں، جس کے سوکھنے پر شوگر اور دوسری اشیاء کے کرسٹل بن جاتے ہیں، جو ان کو کسی اینٹ کے طرح کا سٹرکچر دے دیتی ہیں۔ بھوکے سونے کے کان کنوں نے جو کھایا تھا، وہ ٹافیاں نہیں تھیں۔ ان چوہوں کا کچرا تھا۔
یہ چوہے شکار ہونے سے بچنے کیلئے اپنے بلوں سے زیادہ دور نہیں جاتے اور اس کے چند گز کے اندر اندر خوراک ڈھونڈتے ہیں۔ کچھ دہائیوں کے بعد ان کے جانشین اپنے بل چھوڑ دیتے ہیں اور نئی جگہ پر چلے جاتے ہیں۔ ان کے چھوڑے یہ “مِڈن” یا کچرے کی گیندیں رہ جاتی ہیں۔ ان کا کرسٹلائز ہونا ان کو خراب ہونے سے محفوظ رکھتا ہے اور اس کو پرانے وقت کا ایک کییپسول بنا دیتا ہے۔ ہر گیند میں درجنوں پودوں کی باقیات کی شناخت کی جا سکتی ہے۔ پیلیو بوٹانسٹ کے لئے یہ اس وقت کی نباتات کی تصویر ہے۔ جب چوہے نے اس کو بنایا تھا تو کس قسم کے پودے یہاں پر موجود تھے۔ زولوجسٹ کسی علاقے کے جانوروں کا پتا کیڑوں اور جانوروں کی باقیات سے لگا لیتے ہیں، بوٹانسٹ کے لئے یہ گیندیں ایک خزانہ ہیں۔ مڈن کی عمرکا ریڈیو کاربن ڈیٹنگ سے لگائیں اور عین اسی علاقے میں پائے جانے والے پودوں کا پتا لگا لیں۔
جولیو بیٹانکورٹ جو ایک پیلیوایکولوجسٹ تھے، ایک پرانی تہذیب کا مطالعہ کر رہے تھے۔ انہیں کچھ سوالات کے جواب نہیں مل رہے تھے۔ انہوں نے یہاں پر پیوبول بونیتو کے مقام پر بہت سے ایسی گیندیں دیکھی تھیں۔ ان کی 1978 میں ان کے ایک ماہر سے کسی اور موضوع پر بات ہوئی تو اس علاقے میں ان کی موجودگی کا ذکر آ گیا۔ ان کو یہ کوئی اندازہ نہیں تھا کہ یہ کتنی پرانی ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ شاید یہ ایک سو سال پرانی ہوں۔ ان میں سے ایک کا تجزیہ کروایا تو یہ ایک ہزار سال سے زائد پرانی نکلی۔ یہ وہی دور تھا جس کے متعلق جولیو سراغ تلاش کر رہے تھے۔
اس اتفاقی دریافت نے تاریخ جاننے کا ایک نیا دروازہ کھول دیا۔ آج ہمیں پتا ہے کہ یہ بہت ہی سست رفتاری سے ڈیکے کرتی ہیں، خاص طور پر ان جگہوں میں جہاں موسم خشک ہو۔ اگر یہ کسی سایہ دار جگہ میں یا غار میں یا چوہے کے زیرِ زمین بنائے گئے بل میں موجود ہوں تو یہ چالس سے پچاس ہزار تک اپنے اندر پائی جانے والی انفارمیشن محفوظ رکھتی ہیں۔ یہ کسی کے بھی اندازے سے زیادہ عرصہ تھا۔ جب میمتھ، سلوتھ اور برفانی دور کے جانور پائے جاتے تھے،۔ یہ اس دور کو محفوظ رکھنے والے کیپسول تھے جو جنوب مغربی امریکہ کے بڑے علاقے پر پھیلے ہوئے تھے۔
یہ تہذیب چاکو انسازی کی تھی جو چھ سو سال تک موجود رہی تھی۔ چوہوں کے اس کچرے میں جولیو کے لئے ان سوالوں کے جواب چھپے تھے جن کو وہ کئی برس سے ڈھونڈ رہے تھے۔ دنیا میں ختم ہو جانے والی کئی تہذیبوں کی طرح ان کے زوال اور درختوں کے غائب ہو جانا ساتھ ساتھ ہوا تھا۔
ان سے اگلی چند دہائیوں میں پیک مڈن کے اس کچرے نے یہاں پر گزرے پچھلے چالیس ہزار سالوں کی بہت سی کہانیاں بتا دیں۔
اس کو پڑھنے کیلئے یہ کتاب
Packrat Middens: The last 40,000 years of biotic change